کورونا کی عالمی وبا تیسرے برس میں داخل ہوچکی ہے۔ عالمی وبائی مرض کی ہلاکت خیزی جاری ہے۔ کورونا کی وبا کے خاتمے کی خبر کے بجائے اس کے پھیلائو میں تیزی آرہی ہے۔ اب تک عالمی سطح پر 31 لاکھ سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ 5 لاکھ 72 ہزار افراد کی اموات کے ساتھ دنیا کا سب سے دولت مند اور ترقی یافتہ ملک امریکہ سب سے آگے ہے۔ کورونا وبا کی ہلاکت خیزی کے حوالے سے ہمارا پڑوسی ملک بھارت تیسرے نمبر پر ہے، لیکن گزشتہ عشرے سے بھارت کی صورتِ حال المیہ بن گئی ہے۔
اس وبا کا آغاز چین کے شہر ووہان سے ہوا تھا۔ چین اُن ممالک میں سے ایک ہے جہاں وبا کا پھیلائو اور ہلاکت خیزی قابو میں ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں سے ہے جہاں وبائی مرض کی ہلاکت خیزی ابھی تک قابو سے باہر نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ماہرین مستقبل کے حوالے سے خبردار کررہے ہیں۔ ایک امریکی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اگست کے مہینے سے کورونا کی وبا کے پھیلائو میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ابھی تک پاکستان میں مکمل لاک ڈائون کی نوبت تو نہیں آئی ہے، لیکن حکام اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے اور شہریوں کی جانب سے ماضی کی طرح غیر ذمے دارانہ طرزِعمل جاری رکھا گیا تو وبا کا پھیلائو بے قابو ہوسکتا ہے۔ حکومت اور سول انتظامیہ حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں، اس لیے طاقت کے استعمال کے پیش نظر مختلف علاقوں میں فوج کو طلب کرلیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ہمارا صحت کا نظام بحرانی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اسپتالوں کے اندر بستروں کی تعداد اور آکسیجن کی فراہمی کی صورتِ حال بہرحال محدود ہے، جس کی وجہ سے ہنگامی صورتِ حال پیدا ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ غیر ذمے دارانہ طرزِعمل کی وجہ سے صورتِ حال کتنی خراب ہوسکتی ہے اس کا مشاہدہ بھارت میں ہم اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں صحت کی سہولتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف 2 ہزار وینٹی لیٹر موجود ہیں جو کسی بحرانی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ یہی حال آکسیجن کے سلنڈر اور اسپتالوں میں بستر کی سہولتوں کا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے کورونا ریلیف پیکیج کی مد میں 12 سو ارب حاصل کیے تھے جس کے بارے میں سوالات موجود ہیں کہ وہ کس مد میں خرچ ہوئے؟
کورونا کی وبا سے جو سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سماجی اور اقتصادی سرگرمیاں مفلوج ہوجاتی ہیں۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کے باشندے بھی مکمل لاک ڈائون کے اثرات برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے ممالک کی صورتِ حال اور ہولناک ہوجاتی ہے جہاں غربت اور بے روزگاری نے بھی ڈیرے ڈالے ہوئے ہوں۔ سائنس دانوں اور اطبا کے پاس ویکسی نیشن کے سوا کوئی راستہ بچا نہیں ہے۔ ویکسین فراہم کرنے کے حوالے سے امریکہ سب سے آگے ہے، لیکن وہ بھی وبا کے مکمل خاتمے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ ویسے بھی دنیا کی پوری آبادی کو حفاظتی ٹیکے لگائے بغیر کامیابی کا حصول کیسے ممکن ہے! دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے دنیا کے ہر باشندے کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب کہ ابھی تک عالمی طبی ادارے اور سائنس دان اس بات کی ضمانت نہیں دے سکے ہیں کہ ویکسی نیشن کے ذریعے وبا کا خاتمہ یقینی طور پر ممکن ہے۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق وبا کی نئی لہر نے امریکہ کی شمال مغربی ریاستوں پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے صوبائی حکومت نے مکمل لاک ڈائون کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ صورتِ حال امریکہ کی ہے جہاں سب سے زیادہ شہریوں کو ویکسین لگادی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنسی ترقی کے باوجود عالمی ادارے کورونا وبا پر قابو پانے کا راستہ تلاش نہیں کرسکے ہیں۔ اس وبا سے پہلے عالمی سطح پر بیماریوں اور امراض کے خاتمے کا چیلنج موجود تھا۔ مختلف قسم کے مہلک امراض میں اضافہ ہورہا تھا، افراد اور قوموں کے بجٹ پر علاج کے اخراجات کا بوجھ بڑھتا جارہا تھا۔ فارما سیوٹیکل انڈسٹری اپنے استعماری اور سامراجی کردار کے حوالے سے اسلحہ اور تیل کی صنعت کی برابری اختیار کرچکی ہے۔ ماحولیات کی تباہ کاری دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، اسے تسلیم کرلیا گیا ہے۔ لیکن ماحولیات کی تباہی کے اسباب کا خاتمہ کرنے کے لیے عالمی قائدین اپنا اصل کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی عالمی قیادت کرنے والے ذہن خدا سے غافل اور باغی ہیں۔ الحادی ذہن تخلیقِ کائنات کے مقاصد کا شعور حاصل نہیں کرسکتا۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے حقیقی اسباب پر نظر نہیں جاسکی ہے، اس لیے نجات کا راستہ بھی نہیں مل سکا۔ اللہ کی نظر میں حقیقی اہلِ دانش وہ ہیں جو تخلیقِ کائنات پر جب اللہ کو یاد کرتے ہوئے غورو فکر کرتے ہیں تو وہ یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اے ربّ تّو نے یہ دنیا بے مقصد نہیں بنائی۔ ہر حادثہ ایک پیغام لے کر آتا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق مومن کی نظر عبرت کی نظر ہوتی ہے۔ حادثات بلاوجہ رونما نہیں ہوتے۔ دنیا اگر کورونا وبا کی ہلاکت خیزی کا شکار ہوئی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی اخلاقی، روحانی سبب بھی ہے۔ ملحدانہ ذہن ان اسباب کو تلاش نہیں کرسکتا۔ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو اس میں اللہ کا یہ پیغام ہوتا ہے کہ ان کے دل نرم ہوں اور وہ اپنے عقیدے اور عمل کا احتسابی جائزہ لیں اور اپنے ربّ سے اپنے جرائم اور گناہوں کی معافی مانگیں۔ تین برس ہوگئے ہیں، وبائی مرض کی ہلاکت خیزی میں توسیع ہوتی جارہی ہے لیکن اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں۔