یہ تاریخ انسانی کا عجب منظر تھا، جب اپنوں کے ستائے ہوئے، گھروں سے نکالے ہوئے، پیاروں سے محروم کیے ہوئے، بے سروسامان، فاقہ کش، تین سو تیرہ مفلوک الحال لوگوں کو اپنے مسکن سے ڈیڑھ سو کلو میٹر دور، جان لیوا گرمی کے موسم، شدید تپتی دھوپ اور لق و دَق صحرا میں کھلے آسمان تَلے بہترین سامانِ حرب سے لَیس ایک ہزار شہ سواروں اور جنگجوئوں کے مقابل آکھڑا ہونے پر مجبور کردیا گیا۔
یہ منظر 17 رمضان المبارک 2 ہجری کا ہے۔ اور معرکے کا میدان بدر ہے۔
ایک جانب غربت و افلاس ہے مگر پختہ عزم و ایمان صادق، دوسری جانب دولت و وسائل کے خزانے ہیں مگر خدا سے بغاوت سر کشی اور دشمنی کی تصویریں، اس کے مخلص بندوں سے لڑنے اور ہمیشہ کے لیے ختم کردینے کا آہنی عزم۔ ایک طرف چند لاٹھیاں، چند تلواریں اور گنے چنے اونٹ اور گھوڑے۔ دوسری جانب بے شمار تلواریں، نیزے، زرہیں، جانور اور اسلحہ کے انبار۔ ایک گروہ روشنی، حق اور سچ کا علمبردار تو دوسرا تاریکی، ظلمت، جہالت اور باطل کا پرچم تھامے ہوئے۔ ایک طرف اپنے خالق، مالک، آقا و مالا کے غلام۔ اُس کے حکم کے تابع اور اُس کے سامنے عاجزی، انکساری اور بندگی کی تصویریں تو دوسری طرف غرور، تکبر، جاہلی نخوت و تعصب کے مجسم نشان، ایک کی کامیابی یقینی تو دوسرے کی ناکامی نوشتہ دیوار۔ ایک کا قائد رسولِ رحمت، رسولِ عالمین، اخلاق کردار ،پاکیزہ سیرت و فطرت کا شاہ کار، تو دوسرے کا سالار باطل کا سرخیل اور جہالت، تکبر، انتقام اور تعصب کا سردار۔
یہ معرکہ جو اہل اسلام، اہل ایمان، اہل حق اور اہل کفر و شرک، اہل باطل کے درمیان برپا ہونے جارہا تھا، نہ صرف تاریخ عرب بلکہ تاریخ انسانی کے دھاروں کو یکسر موڑنے اور رُخ تبدیل کرنے اور عالم انسانی پر گہرے اور دورس اثرات مرتب کرنے کا سنگ میل بن رہا تھا۔ قائد و سالارِ کاروانِ اہلِ حق صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا فرمایا تھا۔ یہ وہ تاریخ ساز لمحے ہیں، اہم دن ہے کہ جس کے گہرے اور حیران کن اثرات بعد میں (یعنی تا قیامت) ظاہر ہوتے رہیں گے اور انسانی زندگیوں میں فیصلہ کن تبدیلیاں لانے کا موجب بنیں گے۔
یہ وہ عظیم معرکہ تھا، جس میں مخلص اہل ایمان کا وجود دائو پر لگا ہوا تھا۔ اور اس کے ذریعے فیصلہ ہونا تھا کہ حق یا باطل میں سے کسے غالب آنا ہے۔ اگرچہ اہل ایمان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں پر کامل یقین تھا، اسی لیے وہ اخلاص و استقامت کے جذبوں سے معمور آزمائش کے ان لمحوں میں ثابت قدم تھے۔ تاہم اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الٰہی میں مسلسل کئی گھنٹے شدید اضطراب کے عالم میں دست بدعا رہے۔ اس کی جناب سے غیبی نصرت کے طلبگار ہوئے، اس قدر آہ وزاری کہ روائے مبارک جسم اطہر سے پھسل پھسل جاتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار اور رفیق کار ابوبکر صدیقؓ اسے بار بار کاندھوں پر ڈال دیتے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینا بجا فرمایا کہ اے اللہ اگر یہ مختصر گروہ اہل حق آج ناکام ہوگیا تو روئے زمین پر کوئی خدائے واحد اور معبود برحق کا نام لینے والا نہ رہے گا۔
تاریخ نے پھر یہ منظر بھی دیکھا، ادھر زمین کا سورج ڈھلا تو ساتھ ہی باطل کا سورج بھی غروب ہوگیا اور حق کا دوسرا سورج طلوع ہونے لگا۔ جس نے ساری کائنات کو روشنی کی کرنوں سے منور کرنا شروع کردیا۔ طلوع و غروب کے اس لمحے فیصلہ ہوگیا کہ ۔ جاء الحق وزھق الباطل۔ حق آیا تو یقینا باطل بھاگ گیا کیوں کہ اسے بھاگنا، مٹنا اور شکست سے دوچار ہونا ہی تھا۔ اور حق کو غالب آنا ہی تھا۔ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ اور ان کے مخلص ساتھیوں کے ساتھ اللہ کا وعدہ پورا ہوا۔ ہزاروں فرشتے قطار اندر قطار ان کی نصرت کے لیے گردوں سے اترے شجاعت، استقامت، غیرت ایمانی اور بندگی رب کے شاندار اظہار کے ساتھ، رسولؐ سے وفاداری، اخلاص اور اطاعت کے رویے امر ہوگئے۔
دونوں گروہوں میں سے ایک مسرت افزا اور جاں فزا فتح سے ہمکنار ہوا تو دوسرا ذلت و عبرت کا نشان بنا۔ اُن کا غرور، تکبر اور جاہلی نخوت کے پہاڑ زمین بوس ہوگئے۔ شجاعت، اسلحہ اور افرادی قوت کے طلسم چھٹ گئے۔ اپنی کبریائی کا دعویٰ کرنے والے اپنے ہی کھودے گئے گڑھوں میں بدترین رسوائی کے ساتھ ڈوب مرے۔ نہ کفن نصیب ہوا، نہ کوئی ماتم کرنے والا، نہ نوحہ پڑھنے اور بین کرنے والا۔
تاریخ نے یقینا یہ حیرت ناک منظر بھی دیکھا کہ ایک معمول اور بے سروسامان گروہ ایک بڑے لشکر اور اُس کے ہر دعوے، نعرے اور اسلحے پر بھاری پڑ گیا۔ ایسے بے یقینی کے عالم میں قیامت تک کے انسانوں کو یقین دلانے کے لیے آسمان سے وحی نازل ہوئی۔ ”کتنے ہی چھوٹے گروہ بڑے بڑے گروہوں، لشکروں اور جنگی سازوسامان پر غالب آسکتے ہیں۔ مگر اس بنیاد پر کہ اللہ کا حکم ہو“۔ باذن اللہ۔ ایسا محض اللہ مختار و مقتدر صاحب قوت و جلالت کے حکم سے ہی ہوسکتا ہے اور شرط یہ ہے کہ اللہ کے بندے خالص اسی کی رضا کی خاطر اور صرف اسی کے حکم کی تعمیل میں میدان جہاد میں نکلیں اور صرف غلبہ حق کے لیے ہی ہتھیار اٹھائیں اور پورے صبر واستقامت، استقلال و شجاعت کا مظاہرہ کریں۔ اسی لیے اللہ نے اعلان کیا کہ ۔ واللہ مع الصابرین۔ اللہ ہر قسم کے مشکل حالات میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اللہ کی اس مشیت کو تاریخ نے بدر کے میدان میں بڑی حیرت سے دیکھا اور یقین کرنے پر مجبور ہوئی۔
اہل ایمان کی اس ابتلاکی بنیاد فقط یہ تھی کہ وہ دنیا میں موجود شرک، کفر اور طاغوت کے مقابلے میں، اور ان 365خدائوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بجائے اللہ واحد پر ایمان لائے تھے۔ اس کی بندگی، غلامی اور اس ایک ہستی کے سامنے سر جھکاتے تھے اور کسی قسم کی مصالحت، مداہنت اور شراکت باطل کے نہ صرف خلاف تھے بلکہ ایک انقلاب آفریں مزاحمت کا حصہ بن رہے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ۔ لاالہ الااللہ۔ اور یہ کہ عرب کے امیروں، سرداروں اور طاقتوروں کے بجائے محمد رسول اللہ کے نظریہ کے علمبردار تھے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول، اپنا امیر اور رہنما اور انسانیت کا محسن و معلم، ہادی وزیر تسلیم کرکے اس کے حکم، تعلیم بلکہ ہر اشارہ ابرو پر جان، مال، ماں، باپ، اولاد، رشتے دار، تعلقات، مفادات سب کچھ قربان کردیتے تھے۔ اور کسی بھی قیمت، خوف، مصیبت و مشکل کے باوجود بھی باطل کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری تھے۔ مکہ کے تیرہ سالوں کے ظلم و ستم، ہجرت کے دشوار مرحلے اور بدر کے عجیب معرکے نے اطاعت و بندگی کی اس منزل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اس مقام پر لاکھڑا کیا تھا جہاں سے واپسی کا تصور بھی محال بلکہ دین و دنیا کی تباہی اور عقبیٰ کی بربادی کا یقینی منظر تھا۔ وہ بندگی رب کے معزز راستے کو ترک کرکے بے بندگی کی شرمندگی کا طوق اپنے گلوں میں ڈالنا نہیں چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ جان و مال، دنیا اور اس کی چکا چوند مفادات اور عیش و آرام کو ٹھکرا کر، زندگی و موت کے ہر خطرے سے بے نیاز ہو کر محدود وسائل کے باوجود مگر پختہ عزم و یقین کے ساتھ بدر کے میدان میں صف آرا تھے۔ یہ محض ایک جنگ نہ تھی، حق و باطل کا فیصلہ کن معرکہ تھا۔ اللہ کے دین کے غلبہ و اعلا کی جدوجہد کا، اس کے احکام و آیات کے ابلاغ و نفاذ کا سنگ میل تھا اور بلاشبہ چند گنے چنے اہل ایمان کی اس مودبانہ شجاعت و اطاعت و اظہار بندگی نے اس دن کو انسانیت کی ہدایت، فلاح و سلامتی، امن و آشتی، دنیا و عقبیٰ کی کامیابی کا پہلا اور لازوال پڑائو بنادیا۔ اس دن کی کامیابی کے ثمرات سے انسانیت آج بھی بہرہ مند ہورہی ہے اور قیامت تک فیض پاتی رہے گی۔ بلاشبہ ان دیکھے خدا کی توحید، اس کے دین، اس کی عظمت و جلالت کی خاطر کمزور، بے بس، مجبور، مفلوک لوگوں کا اور وہ بھی قلیل تعداد میں اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر میدان میں کود پڑنا۔ ایک حیرت انگیز تاریخ ساز واقعہ ہے۔ تاریخ انسانی اس جیسا کوئی دوسرا منظر دکھانے سے قاصر ہے اور رہے گی۔
بدر کی جنگ جسے اسلامی اصطلاح میں غزوہ کہا جاتا ہے، یعنی جس میں امام الانبیاء، خاتم النبیین، محسن و معلم انسانیت، راہبر و رہنما صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس شرکت کی ہو۔ اہل ایمان ہی نہیں انسانیت کے لیے کئی بنیادی تعلیمات اور اصولوں کے تعین کا موجب بنی۔ اس غزوہ کے نتیجے میں معرکے کے بعد جو ابدی حقائق و اصول وضع ہوئے ان میں سے:
پہلا اصول یہ ہے کہ حق و باطل کا معرکہ خواہ کن ہی حالات میں، کیسے ماحول میں اور جہاں کہیں بھی برپا ہوگا باطل کی شکست لازمی اور اہل ایمان، اہل حق کی فتح یقینی اور حتمی ہوگی۔ انصاف اور سچ کا ہی بول بالا ہوگا۔ حق غالب رہنے کے لیے ہے، مغلوب تو باطل کو ہی ہونا ہے۔ وکلمۃ اللہ ھی العلیاء۔ مگر اس کامیابی و کامرانی کے لیے اہل ایمان کی صدقِ دل سے اللہ پر پختہ اور ہمہ جہت ایمان رکھنا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے لوث محبت، اطاعت اور جان و مال بلکہ ہر شے کی قربانی کے لیے تیار اور عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میدان جہاد میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا تو شہادت کو سینے سے لگانا ہوگا یا پھر غازی بن کر آئندہ کسی معرکے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اس جذبے اور اللہ کے دین کی سربلندی کے ہدف کے پیش نظر میدان میں اُترنے والے ہی اللہ کی جانب سے تائید، نصرت اور فتح سے ہمکنار ہوں گے۔
دوسرا اصول یہ قائم ہوا کہ فتح و نصرت عددی کثرت یا سامانِ حرب کے وافر یا قلیل ہونے کی بنا پر ہرگز حاصل نہیں کی جاسکتی۔ جنگی صلاحیت، مہارت، حکمت عملی اور اسباب و افراد کی بنیاد پر کامیابی کی توقع اہل باطل کی باہمی لڑائیوں اور جنگوں میں تو کی جاسکتی ہے، معرکہ ہائے حق و باطل میں نہیں۔ یہاں فتح و نصرت صرف اللہ کی مرضی، حکمت، تدبر، تائید اور مثیت سے ہی حاصل ہوگی۔ وَما النصر الامن عنداللہ۔ اور اگر اہل ایمان بھی اللہ و رسولؐ کی رضا اور مقرر اہداف کے علاوہ ذاتی یا کسی دوسرے سیاسی، معاشی، معاشرتی اسباب و وجوہ کی بناپر باہم دست و گریباں یا اہل باطل سے ہی کیوں نہ نبرد آزما اور صف آراء ہوں اللہ کی نصرت و مدد سے محروم رہیں گے۔ پھر فیصلہ میدانِ جنگ کی جنگی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہی ہوگا۔
تیسرا اصول اہل حق و باطل کی معرکہ آرائی میں فیصلہ کن اور موثر کردار ادا کرنے اور متحرک ثابت ہونے والا جذبہ شہادت کا جذبہ ہے۔ اس عظمت، رفعت اور حیات جادوانی کا حصول ہے۔ شہید کبھی مرتا نہیں، اپنی شہادت سے قوموں کو حیات تو بخشتا ہے، اپنی قربانی سے مردہ قوموں کو زندہ کرتا ہے، اپنے خون سے روشنی کے بے شمار دیے اور شہادتوں، مرمٹنے کے جذبوں اور اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے بے شمار عزائم کو سینوں میں بیدار کرنے کا باعث بنتا ہے۔ شہادت کی تمنا ہر مخلص صاحب ایمان کی آرزو ہوتی ہے، یہ شہید تسبیحوں، نفلوں اور چلّوں میں مصروف رہنے والے سے کہیں زیادہ جنت کا مستحق ہے۔ جنت جو سجدوں کے بجائے تلواروں کے سائے میں رکھی گئی ہے اس میں اعلیٰ مقام شہید ہی کا حق ہے۔ جہاں وہ بلا حساب داخل ہو کر اللہ کے رزق سے حصہ پائے گا۔
سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت۔ بندئہ مومن کی آرزو رہتی ہے۔ اور یہی اُسے ہر قسم کے خطرے اور دشمن کے مقابل لاکھڑا کرتی ہے۔ شہادت مومن کا مقصود قرار پاتی ہے۔ وہ مالِ غنیمت اور کشور کشائی کے ہر مقصد و منزل سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ و رسول، اپنے عقیدہ و ایمان اور اللہ کی کبریائی، دین اور حق کی خاطر کچھ قربان کرکے، سب سے بے نیاز ہو کر، ہر مفاد سے بالا ہو کر شہادت کا تاج سر پر سجاتا ہے اور امر ہوجاتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو اہل باطل اور دنیا پرستوں اور اس کی لذات و مفادات کے اسیروں اور غلاموں کو حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی جذبے کے پیش نظر، اسی فضائے بدر کے نتیجے میں فرشتے آسمان سے اُترتے ہیں، اور اہل ایمان کی فتح و نصرت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
غزوئہ بدر سے انتہائی اہم اور فیصلہ کن نتائج سامنے آئے۔
پہلا تو یہ کہ حق کی فتح اور باطل کی شکست کا آغاز ہوگیا۔ بعد کے معرکوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی کہ جہاں جہاں اور جس میدان اور حالات میں اہل حق فضائے بدر پیدا کرکے میدان میں اُتریں گے وہ غلبہ حق کا بڑھتا ہوا قدم ہی ثابت ہوگا۔ اور باطل کی شکست، ہزیمت، پسپائی اور ذلت رسوائی کا پیش خیمہ ہی بنے گا۔
دوسرا یہ کہ ریاست مدینہ کی مضبوط بنیاد فراہم ہوگئی۔ کفارِ عرب کا رعب ختم ہوا۔ دشمن کی طاقت کمزور ہوئی، میدان کی شکست نے اسے نفسیاتی طور پر بھی بے آبرو اور مفتوج کردیا۔ اہل عرب قریش مکہ کی طاقت اور بالادستی کے سحر سے باہر نکلنے لگے، اسلام کے بارے میں سوچنے لگے، اور اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ یہ معرکہ فروغ و اشاعت اسلام اور حق و اہل حق کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کا باعث بنا، بلکہ ان کی مرعوبیت میں اضافہ ہوا۔
تیسرا یہ کہ پہلی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت، حکمت کا اعتراف کیا گیا۔ ریاست مدینہ کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے، اس کے زیر اثر آنے کی سوچ پیدا ہوئی۔ کفار مکہ اور مومنین مدینہ کے دو وجود تسلم کیے جانے لگے۔ متبادل قوت اور قیادت کے طور پر اہل حق کو خاطر میں لایا جانے لگا۔
چوتھا یہ کہ اللہ کی کبریائی، دین حق، رسالت محمدی صلی اللہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والتسلیمات کی طرف لوگوں کے ذہن، کان، دل اور جسم متوجہ ہوئے۔ اس دعوت حق کے بارے میں جانے اور اسے قبول کرنے کا داعیہ پیدا ہونے لگا۔
پانچواں یہ کہ عرب کی سرزمین پر پہلی باقاعدہ نظریاتی ریاست مدینہ کے وجود کو تسلیم کیا جانے لگا جس کی بنیادوں میں تعصب، تکبر، جہالت، جاہلی، غرور و نخوت کے بجائے توحید، بندگی رب، دین فطرت، نظام عدل، سلامتی فکر و عمل، پاکیزگی اخلاق و کردار، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور ایسی ہی دیگر بے شمار معاشی، معاشرتی، اخلاقی خصوصیات اور سب سے بڑھ کر عرب ہی نہیں کائنات کے سب سے پاکیزہ شخص کی قیادت و رہنمائی اور وحی الٰہی کی اینٹیں رکھی گئی تھیں۔ اسلام ایک مضبوط و توانا اور گہری جڑوں والا طرزِ حیات بن کر لوگوں کے سامنے آیا اور کفر و شرک اور باطل کی بے حیثیتی، بے توقیری اور بودا پن واضح ہونے لگا۔
چھٹا یہ کہ مدینہ میں اندرونی استحکام، معاشی مسائل کے حل اور معاشرتی نظام کی ترتیب و تشکیل کا موقع میسر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داخلی معاملات پر خوب توجہ دی اور مطلوبہ اقدامات کیے۔
ساتواں یہ کہ مدینہ میں تعلیمی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ کفار مکہ جو قیدی بنا کر مدینہ میں لائے گئے، اُن کے ساتھ حسن سلوک کا ایک نیا اور منفرد انداز بھی تاریخ کا حصہ بنا، مگر ان کی تعلیمی مہارتوں سے استفادہ کو ان کی آزادی سے مشروط کیا جانا اور فدیہ قرار دیا جانا بھی تاریخ کا انوکھا واقعہ قرار پایا۔ کتنے ہی افراد کی تعلیم، اداروں کی تشکیل اور تعلیمی مراحل کے مواقع میسر آنا۔ پہلی وحی الٰہی میں عطا کردہ رہنمائی اور آغاز کردہ تعلیمی و اصلاحی انقلاب کے ہدف کی تکمیل کی جانب سفر کا آغاز ہوا۔
آٹھواں یہ کہ عرب میں موجود صدیوں کی جہالتوں، غرور، تکبر، تعصب، نخوتوں اور بے جان بتوں کے سامنے ہزار سجدوں کا سلسلہ ختم ہونے کا آغاز ہوا۔ نسلی تفاخر نے دم توڑا اور خدائے واحد کی عزت و عظمت، جلالت، شان و شوکت کے روشن و نیروتاباں سورج کی طرف بندگان خدا کی آنکھیں اور دل متوجہ ہونے لگے۔ اس کی کرنوں کو اپنے وجود اور عرب، پھر ساری دنیا پر حاوی ہوتا محسوس کیا جانے لگا۔
نواں یہ کہ اہل عرب ہی نہیں دنیا بھر کے لوگ نئے جنگی قوانین، اخلاقیات اور اصولوں سے آشنا ہوئے۔ دشمن کے ساتھ پامردی سے مقابلہ، میدان جنگ میں پیٹھ نہ دکھانا، خوف سے ڈر کر نہ بھاگنا، بزدلی کو شرم اور عار سمجھنا، اپنے سے کئی درجے طاقتور اور بڑے دشمن سے مرعوب نہ ہونا، ہر حال میں اپنے خالق و مالک کے سامنے انکساری و عاجزی سے سر جھکائے رکھنا۔ کسی قسم کے غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہونا، مال غنیمت اور کشور کشائی کے مقاصد کو ذہن سے جھٹک دینا۔ قیدیوں سے حسن سلوک کرنا۔ بہترین جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ اور ایک قائد کی قیادت پر اعتماد اور بھروسا کرنا۔ یہ سب نئے تصورات تھے۔ جن سے اہل عرب نہ صرف آگاہ ہوئے بلکہ انہیں کامیابی کی کلید کے طور پر اختیار کرنے کا شعور اُجاگر ہوا۔
دسواں یہ کہ لٹے پٹے، بے یارومددگار، بے آسرا مسلمان محض اپنے ایمان کی مضبوطی، قائد کی بہترین قیادت باہمی اتحاد، تنظیم، اتفاق، خداخوفی، جذبہ شہادت، رضا الٰہی کی طلب میں نہ صرف خلافِ توقع شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئے بلکہ رہتی دنیا تک ایک روشن مثال اور انقلابی سنگ میل کے بانی و شریک بن گئے۔ اسی لیے اصحاب بدر کا مرتبہ و مقام دیگر صحابہ کرام سے کہیں زیادہ ہے اور اہل ایمان کے دلوں میں اُن کی محبت کائنات کے تمام انسانوں کی محبت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اللہ ان سے اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اسی بدر کا نتیجہ ہے کہ یہ رضائے الٰہی انہیں نصیب ہوئی یہ اصحاب بدر رہتی دنیا تک اہل ایمان کے لیے عزم و ایمان، استقلال و جرأت، ہمت و شجاعت، خلوص رونا، اطاعت و صدق و صفا کے لیے مثال بنے۔ انہی کے وجود سے قیامت تک اہل ایمان جذبہ، عزم، ایمان، استقامت و اطاعت کی شاہراہ اور شہادت کی منزل کے راستوں پر چلتے رہیں گے۔
غزوئہ بدر حق و باطل کی کشمکش کا نقطہ آغاز تھا۔ اس کے بعد حق نے کئی معرکے بپا کیے۔ ان کا ہر قدم فتح و نصرت کی شاہراہ پر چلتا ہوا، اذا جاء نصراللہ والفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا۔ کی صورت قبائل عرب کے قبول اسلام، عرب کے سرنگوں ہونے، روم و فارس جیسی سپر طاقتوں کے زیر نگین آنے، فتح مکہ اور پھر تکمیل دین اور اتمام نعمت الٰہی بصورت غلبہ حق کی منزل تک جاپہنچے۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اسلام نے بطور حکومت اور نظام حیات دنیا کے حیرت ناک طور پر وسیع و عریض رقبے پر اپنے جھنڈے گاڑے اور حیات انسانی میں انقلاب آفریں اثرات مرتب کیے۔
تاریخ آج بھی انگشت بدنداں ہے کہ 313 جانبازوں کی جدوجہد کا سفر جو بدر کے میدان سے شروع ہوا۔
اس قدر نتیجہ خیز اور تبدیلی کا باعث بنا کہ چودہ صدیوں کے ہر لمحے، ہر ساعت، ہر دن، سال، زمانے، علاقے، انسانوں، نسلوں، ان کے نظا ہائے حیات، اصولوں اور فکر و عمل پر غالب آگیا اور کفر و باطل کی لاکھ کوششوں کے باوجود یہ نہ دبایا جاسکا، نہ دبایا، مٹایا جاسکے گا۔ یہ غالب تھا، ہوا، رہا اور رہے گا۔ ان شاء اللہ۔ مگر لازم ہے کہ اہل ایمان اس کا یقین رکھیں اور اسی عزم، جذبے، کردار، ایمان، استقامت اور اطاعت و فرماں روائی کا مظاہرہ کریں جس کی اعلیٰ اور روشن مثالیں اصحاب بدر نے اپنی شجاعت و استقامت کے ساتھ رقم کیں۔