ڈنمارک نے شامی پناہ گزینوں کو ملک سے چلے جانے کا حکم دے دیا ہے۔ ڈینش حکام نے گزشتہ سال جون میں شامی دارالحکومت دمشق کو محفوظ قرار دیا تھا، جس کے بعد سے وزیراعظم محترمہ میٹ فریڈرکسن، شامی مہاجرین پر زور دے رہی ہیں کہ وہ جلد ازجلد اپنے ملک لوٹ جائیں۔ اس وقت ڈنمارک میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد 32000ہے۔ مسلم دنیا کے سوشل میڈیا پر ایک عرصے تک ہنگامہ برپا رہا کہ شامیوں کو ان کے پڑوسی مسلم ملکوں نے بے سہارا چھوڑ دیا ہے اور انسانیت کا علَم بردار یورپ ان خانماں بربادوں کو محفوظ ٹھکانہ فراہم کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 70 فیصد شامی مہاجروں کی میزبانی ترکی کررہا ہے۔ 20 فیصد کے قریب پناہ گزین اردن اور لبنان میں ہیں۔ 3 سے 4 فیصد دوسرے عرب اور مسلمان ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یورپ جانے والے شامی 5 سے 6 فیصد ہیں۔
58 لاکھ نفوس پر مشتمل ڈنمارک شمالی یورپ کا ایک خوشحال ملک ہے۔ بحر اوقیانوس کے شمال میں واقع ناروے، ڈنمارک، آئس لینڈ، سوئیڈن اور جزیرہ فرو (Faroe)کو Nordicیا شمالی ممالک کہا جاتا ہے۔ مشترکہ ثقافت اور لسانی شناخت کی بنیاد پر ناروے، ڈنمارک اور سوئیڈن اسکینڈے نیوین (Scandinavian) اکائی کا حصہ ہیں۔ ڈنمارک جزیرہ نمائے جٹ لینڈ اور چھوٹے بڑے 443 جزائر پر مشتمل ہے۔ ملک کی ایک چوتھائی آبادی دارالحکومت کوپن ہیگن میں رہتی ہے۔
امریکہ و یورپ کے قوم پرست اور دائیں بازو کے قدامت پسند ایک عرصے سے رنگ دار غیر مسیحی تارکینِ وطن خاص طور سے مسلمانوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ فرانس کی قائد حزبِ اختلاف میرن لاپین (Marine Le Pen)، ہالینڈ کے گیرت وائلڈرز، اورہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن (Victor Orban)اس مہم میں پیش پیش ہیں۔ پہلے امریکہ کے صدر ٹرمپ اس تحریک کے روحِ رواں تھے، لیکن انتخابات میں شکست کے بعد وہ ٹھنڈے پڑگئے ہیں۔
مسلم مخالف تحریک کی عوامی مقبولیت سے خوف زدہ ہوکر یورپ کے آزاد خیال لبرل رہنما بھی اب اپنا قبلہ تبدیل کررہے ہیں، جس کی بدترین مثال فرانس کے صدر ایمانویل میخواں اور ڈنمارک کی میٹ فریڈرکسن ہیں، جنھوں نے نوشتہ دیوار پڑھ کر نفرت انگیر بیانیے کو کلیدِ کامیابی سمجھ لیاہے۔
ڈنمارک میں اسلام کے خلاف مہم کا آغاز 2006ء میں ہوا جب یہاں کے اخبار جیلاند پوستن (Jyllands-Posten) نے گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ اس سے تین سال پہلے ایک مصور کرسٹوفر زیلر نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خاکہ بنایا تھا جسے یہ کہہ کر ناقابلِ اشاعت قرار دے دیا گیا کہ اس سے قارئین کو ذہنی صدمہ پہنچے گا۔ سچ یہ ہے کہ ہمیں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین پر اتنا ہی صدمہ ہوتا جتنی اذیت ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے پر محسوس کی۔ ان خاکوں کے ردعمل میں اشتعال انگیز مظاہرے اور تشدد کے واقعات ہوئے جسے اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف مسلمانوں کا عمومی رویہ قرار دیا گیا۔ تاہم معاملہ زیادہ آگے نہ بڑھا۔
چار سال پہلے وزیراعظم میٹ فریڈرکسن نے قائد حزبِ اختلاف کی حیثیت سے پناہ گزینوں کے ویزے محدود کرنے پر زور دینا شروع کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اگر وہ وزیراعظم منتخب ہوگئیں تو تمام غیر مغربی تارکین وطن کو شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ واپس بھیج دیں گی۔ گزشتہ برس کورونا کی وجہ سے جو سفری پابندیاں عائد کی گئیں اس سے مہاجرین کی آمد دس فیصد سے بھی کم رہ گئی۔ اس سال کے آغاز پر پناہ گزینوں کے حوالے سے نئی قانون سازی کی بات شروع ہوئی اور جلد ہی صفر پناہ گزیں یا Zero Asylum Seekers پالیسی کا اعلان ہوا۔ وزیراعظم صاحبہ چونکہ نظریاتی طور پر بائیں بازو کی طرف مائل ہیں اس لیے انھوں نے نکتہ اٹھایا کہ مجبوری کی بنا پر پناہ گزین کم سے کم قانونی اجرت اور سہولتوں سے بھی کم پر نوکری کو تیار رہتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی افرادی قوت دبائو کا شکار ہے۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی کے باوجود مزدوروں کی اجرتیں مسلسل کم ہورہی ہیں۔
جمعہ (23 اپریل) کو پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے اور ”میڈیا ڈارلنگ“ بننے کے لیے ماضی کی حکومتوں نے ملک کے دروازے غیر ملکیوں پر چوپٹ کھول دیے تھے۔ ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ بہت زیادہ غیر ملکیوں کے آجانے سے ہماری ثقافت تحلیل ہوجائے گی۔
وزیراعظم صاحبہ کا سرکاری مؤقف تو یہ ہے کہ غیر ملکیوں کی ڈنمارک آمد سے مزدوروں کی اجرتیں کم ہونے کے ساتھ ملکی تہذیب ”آلودہ“ ہورہی ہے۔ لیکن ان کے وزیرِ امیگریشن میتھیو تاسفے (Mattias Tasfaye) اصل بات زبان پر لے آئے۔ جیلاند پوستن کے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے انتہائی رعونت سے کہا کہ مسلم ممالک سے آنے والے تارکین وطن کی کچھ رسومات جمہوری اقدار کے خلاف ہیں اور حکومت عوامی امنگوں و روایات کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے۔ مسٹر تاسفے کا کہنا تھا کہ مؤثر حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پناہ گزینوں کی تعداد نصف سے کم ہوچکی ہے اور ہم اب اس نصف کو نصف کررہے ہیں۔
جون 2018ء میں سابق وزیراعظم راسموسین نے تجویز دی تھی کہ پناہ کے متلاشیوں کے لیے یورپی یونین سے باہر کیمپ قائم کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین ایک بار ملک میں داخل ہوجائیں تو انسانی حقوق کے علَم بردار مظاہرے شروع کردیتے ہیں اور حکومت کے لیے ناپسندیدہ عناصر کو بھی ملک سے نکالنا مشکل ہوتا ہے۔ انھوں نے جرمنی، ہالینڈ اور آسٹریا کے رہنمائوں سے بھی اس معاملے پر بات کی، اور راسموسین کا کہنا تھا کہ یورپ کے قائدین ان کی تجویز کے حامی تو ہیں لیکن کوئی بھی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔
اس وقت ایک بڑا مسئلہ کیمپ کے لیے ملک کا انتخاب تھا۔ شمالی افریقہ کے ممالک یعنی مصر، الجزائر، تیونس اور مراکش اس کے لیے تیار نہ تھے، اور لیبیا میں خانہ جنگی برپا تھی۔ مشرقِ وسطیٰ کا بھی کوئی ملک یہ بکھیڑا اٹھانے کو تیار نہ تھا، جبکہ صدر اردوان کا کہنا تھا کہ شامیوں کے لیے ہماری سرحدیں کھلی ہوئی ہیں لہٰذا یہاں یورپ کے لیے کیمپ قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارے مہمان یورپ یا کہیں اور جانا چاہیں تو ہم خود یہ سہولت دینے کو تیار ہیں۔
جناب راسموسین اور آسٹریا کے چانسلر سباسشن کرز (Sebastian Kurz) بہت عرصہ پناہ گزین کیمپ قائم کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہے۔ اسی دوران فرانس کے صدر ایمانویل میخواں نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔ کیمپوں کے لیے انھوں نے hotspots کا لفظ استعمال کیا۔ اس سلسلے میں فرانسیسی صدر نے لیبیا، نائیجر اور چاڈ کے رہنمائوں سے گفتگو بھی کی، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے شدید ردعمل پر وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا تھا کہ شام میں اپنے آرام دہ گھر سے نکلنے والوں کے لیے لیبیا یا چاڈ جانا تو گویا کڑاہی سے نکل کر چولہے پر آنے والی بات ہے۔ اردو میں ہم اسے آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کہتے ہیں۔
جب 2019ء کے انتخابات میں اپنی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابی پر محترمہ فریڈرکسن ڈنمارک کی وزیراعظم بنیں تو انھوں نے مہاجر کیمپ سے مایوس ہوکر شامی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے ایک نکاتی ایجنڈے کو ہدف بنالیا اور اس سلسلے میں کئی جہات پر کام شروع ہوا۔
ان کے رفقا نے ملک کے قدامت پسندوں کے تعاون سے پناہ گزینوں کے خلاف سوشل میڈیا پر گھنائونی مہم شروع کردی۔ شامی مردوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ لوگ خواتین کو ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں اور ”مالکان“ کو اپنی غیر مشروط غلامی کا یقین دلانے کے لیے عورتیں برقعے پہنتی ہیں۔ شامیوں نے اپنی خواتین کو تو گھروں اور برقعوں میں بند کردیا ہے جبکہ خود ساحل اور سوئمنگ پول پر ندیدوں کی طرح گوری خواتین کو گھورتے ہیں۔ ان حرکتوں نے مقامی خواتین کو ذہنی کوفت میں مبتلا کردیا ہے۔ اس نوعیت کی من گھڑت خبریں اور تضحیک آمیز خاکے سوشل میڈیا پر عام ہیں۔ ان سب کی تان حجاب پر آکر ٹوٹتی ہے۔
جرائم کے حوالے سے مبالغہ آمیز افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ کسی شامی پر اگر ٹریفک کی خلاف ورزی پر جرمانہ ہو تو اس خبر کو بھی اِس انداز میں شائع کیا جاتا ہے کہ گویا بہت بڑا جرم سرزد ہوا، اور ساتھ ہی شامیوں کے گنوارپن کا ماتم کہ قبائلی فطرت کے حامل ان لوگوں کو تہذیب چھوکر نہیں گزری، گیئر اور بریک کا استعمال تو سیکھ لیا لیکن انھیں گاڑیاں چلانے کے آداب نہیں معلوم۔ ساتھ ہی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی دولت و ثروت کا ذکر دیومالائی انداز میں اس طرح کیا جاتا ہے کہ گویا وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہر شخص کروڑ پتی ہے اور ان رئوسا نے اپنے کنگلے شامی بھائیوں کو ہمارے سر ڈال دیا ہے۔
اس سال کے شروع میں وزارتِ داخلہ نے اعلان کیا کہ شام کی صورت حال اور شواہد کے تفصیلی تجزیے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہاں خانہ جنگی کا زور ٹوٹ چکا اور امن و امان کی صورت حال معمول پر آگئی ہے۔ خاص طور سے دارالحکومت اور دمشق کا پورا صوبہ اب بالکل محفوظ ہے۔ اس تصدیق کے بعد وزارت امیگریشن نے پناہ گزینوں کو ڈنمارک سے واپس جانے کی ہدایت کردی اور پناہ گزیں پرمٹ کی تجدید کے لیے وزارتِ امیگریشن کے دفتر آنے والوں کو خروج کے حکم نامے تھما دیے گئے۔
ستم ظریفی کہ 1951ء میں جب اقوام متحدہ کے زیراہتمام سیاسی و مذہبی امتیاز اور بدامنی کی بنا پر بے گھر ہونے والے افراد کو پناہ دینے کے لیے عالمی عہد نامہ یا Refugee Convention ترتیب دیا گیا تو ڈنمارک اس پر دستخط کرنے والا پہلا ملک تھا، اور اب یہی ملک پناہ گزینوں کے ویزے منسوخ کرنے والا یورپ کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟
اب تک کسی پناہ گزین کو جبری طور پر ڈنمارک سے نہیں نکالا گیا، لیکن ویزا منسوخ ہونے والے افراد کی حیثیت اب غیر قانونی تارکین وطن کی ہوچکی ہے جو نہ ملازمت کرسکتے ہیں اور نہ سرکاری اسکول و جامعات میں تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ بہت سے مکان مالکوں نے ایسے کرایہ داروں سے فلیٹ خالی کرنے کو کہہ دیا ہے۔
ان مصیبت زدوں کی مشکل یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے پاس شامی پاسپورٹ نہیں، اور جن کے پاس یہ دستاویز ہیں بھی تو مدت ختم ہوجانے کی وجہ سے وہ ناکارہ ہوچکی ہیں۔ شام اور ڈنمارک کے درمیان سفارتی تعلقات اُس وقت سے کشیدہ ہیں جب 2005ء میں جیلاند پوستن نے گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ ساری مسلم دنیا میں اس کا شدید ردعمل ہوا اور مشتعل ہجوم نے دمشق میں ڈنمارک کے سفارت خانے کو آگ لگادی۔ ڈنمارک کا مؤقف تھا کہ یہ سب کچھ شامی حکومت کی غفلت سے ہوا ہے۔ میزبان حکومت نے وعدہ کیا کہ عمارت کی مرمت کا خرچ وہ دے گی، لیکن یہ مسئلہ آج تک حل نہ ہوسکا۔ کورونا کی بنا پر گزشتہ سال مارچ سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی رابطہ بالکل ختم ہوچکا ہے اور پناہ گزینوں کے لیے نئے پاسپورٹ اور سفری دستاویز کا حصول ممکن ہی نہیں۔ ایک اور بڑا مسئلہ مہاجرین کے بارے میں بشارالاسد کے شکوک و شبہات ہیں۔ وہ ملک سے ہجرت کرجانے والوں کو بزدل، غدار اور دشمن کا آلہ کار گردانتے ہیں۔ ملک کے خفیہ ادارے اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ ترکی نے شامی پناہ گزینوں کو ورغلانے اور بشارالاسد سے بدظن کرنے کے لیے ایک مربوط تربیتی پروگرام ترتیب دے رکھا ہے اور اس مقصد کے لیے ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے ڈنمارک کے لیے پناہ گزینوں کو جہازوں میں بھر کر واپس شام بھیجنا ممکن نہیں، چنانچہ جن لوگوں کے پرمٹ منسوخ ہوگئے ہیں انھیں جلاوطنی مراکز یا Deportation Centers منتقل کیا جارہا ہے جو عملاً جیل خانے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ شام ان لوگوں کو واپس لینے پر کسی طور راضی نہیں ہوگا، جس کا مطلب ہوا کہ یہ بیچارے ایک لمبا عرصہ ان بیگار کیمپوں میں گزاریں گے جہاں خواتین، مرد اور بچوں کو الگ الگ رکھا گیا ہے، یعنی چھوٹے چھوٹے بچے ماں باپ سے علیحدہ ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی ہسپانوی تارکین وطن بچوں کو والدین سے الگ رکھا تھا۔
شامیوں سے اس بدسلوکی پر یورپ کا ردعمل مِلا جُلا ہے۔ سلیم الفطرت لوگ اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (HRC) اور عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ (HRW)نے وزیراعظم فریڈرکسن سے ”معقولیت“ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری طرف یورپ کے قوم پرست خاص طور سے گیرت وائلڈرز اور فرانس کی قائد حزبِ اختلاف میرین لاپین ڈنمارک کے اس قدم کو بارش کا پہلا قطرہ قرار دے رہے ہیں۔ محترمہ لاپین نے صدر میخواں کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور جوہری ہتھیار سے لیس سپر پاور سے زیادہ جرات مند تو چھوٹا سا ڈنمارک ہے جس نے معیشت اور سماج و ثقافت کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھالیا۔
چند ہی دن قبل برطانیہ اور اس سے پہلے یورپی یونین نے اویغوروں سے بدسلوکی پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یونین کے خارجہ امور کے نمائندے جناب جوزف بوریل نے اویغور مسلمانوں کو ”ذہنی تربیت“ کے لیے کیمپ منتقل کرنے کے فیصلے کو ظالمانہ قدم قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ لیکن اب یورپی یونین کا ایک سرگرم رکن وہی ظالمانہ ہتھکنڈے معصوم و مجبور شامیوں کے خلاف استعمال کررہا ہے۔
……………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔