وزیر خزانہ شوکت ترین سٹی بینک سے منسلک رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں اور معروف کاروباری شخصیت انور مجید کے عزیز ہیں، جو اِن دنوں آصف علی زرداری کے ساتھ نیب میں جعلی بینک اکائونٹس کیس بھگت رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں 2008ء میں انہی کی نگرانی میں اُس وقت کی حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام لیا تھا۔ ان کا مؤقف ہے کہ معیشت درست کرنے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے حوالے سے بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اب ان کے خیال میں آئی ایم ایف کے پاس جانا دوسرا آپشن تھا۔ شوکت ترین کے دور میں پاکستان نے فرینڈز آف پاکستان فورم سے 6 ارب ڈالر حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، جس میں ناکامی کے بعد آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض حاصل کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی مگر اب معیشت کو اس قدر مستحکم کردیں گے کہ آئندہ ہمیں فنڈ سے قرض لینا ہی نہیں پڑے گا۔ ماضی میں شوکت ترین کو جو سب سے بڑا مسئلہ رہا وہ تھا افراطِ زر یا قیمتوں میں اضافے کا۔ مالی سال09-2008ء میں افراطِ زر ملک کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا تھا، اس عرصے میں افراطِ زر 20.29 فیصد اور فوڈ انفلیشن کی شرح 23 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ افراطِ زر کی اس بلند ترین شرح کے باعث ہی شرحِ سود کو 15 فیصد کردیا تھا۔ انہی کے دور میں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ تشکیل دیا گیا جس میں قابلِ تقسیم پول میں صوبوں کا حصہ بڑھا دیا گیا۔ شوکت ترین کو وزارتِ خزانہ کی باگ ڈور ایسے وقت میں دی گئی ہے جب تحریکِ انصاف کی حکومت کو معاشی سیاست کے میدان میں کڑی تنقید کا سامنا ہے، جن ڈھائی سالوں پر وزیراعظم فخر کررہے ہیں اُن میں عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں، معیشت میں نہ تو ٹیکس وصولی بہتر ہوئی ہے اور نہ ہی معیشت میں ڈالر کمانے کی صلاحیت کو پیدا کیا گیا ہے۔ شوکت ترین بچت کی پالیسی کے بجائے معیشت میں سرمایہ کاری کرکے توسیع دینے کے خواہش مند ہیں۔ وزیرِ خزانہ بننے سے قبل انہوں نے اپنے چند اہداف کا اظہار بھی کیا تھا۔ انہوں نے آئی ایم ایف سے متعلق معاہدے پر تحفظات ظاہر کیے، گورنر اسٹیٹ بینک کے فیصلوں پر تنقید کی۔ شوکت ترین کے مطابق جب افراطِ زر 7 فیصد تھا تو اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرحِ سود 13.25 فیصد کردی اور ڈالر کو 168 روپے تک لے گئی جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تو کمی ہوئی مگر بجلی، گیس، پیٹرول اور دیگر اجناس کو بھی مہنگا کردیا گیا۔ شوکت ترین کی یہ تنقید براہِ راست گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر پر تنقید تصور کی جاسکتی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ ایسی شرائط طے کیں جن سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا۔ گزشتہ ڈھائی سال کی پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کیا ہے جبکہ منفی شرحِ نمو سے ایک سال میں ملازمتی مارکیٹ میں آنے والے 45 لاکھ افراد کو روزگار نہیں ملا ہے۔ 2 سال تک ٹیکس وصولی ایک سطح پر منجمد رہی لیکن رواں برس اس میں تقریباً 10 فیصد کا اضافہ نظر آرہا ہے۔ وفاقی بورڈ آف ریونیو میں جو اصلاحات ہونا تھیں وہ نہیں ہوپائیں۔ شوکت ترین زراعت پر ٹیکس جمع کرنے کے بھی حامی ہیں، ماضی کی حکومت نے 5.8 فیصد معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرلیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے تیزی سے بجلی کے پیداواری یونٹس لگائے۔ تاہم معیشت اچانک منفی ہوگئی جس سے بجلی طلب کے مقابلے میں اضافی ہوگئی ہے۔ بجلی کے شعبے میں فی یونٹ قیمت بڑھانے کے بجائے اضافی بجلی کی کھپت کو بڑھانا ہوگا۔ بجٹ میں مختص کیے گئے ترقیاتی فنڈز کو استعمال کیا جائے گا اور ترقی کے لیے پلاننگ کمیشن کو فعال کیا جائے گا تاکہ وہ مؤثر ترقیاتی منصوبے تشکیل دے سکے۔ گزشتہ 2 سال سے زراعت کا شعبہ ترقی نہیں کررہا، پاکستان کو گندم اور چینی بڑے پیمانے پر درآمد کرنا پڑی ہے، اس شعبے میں ترقی کرنا ہوگی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا، اس مقصد کے لیے کسانوں کو مراعات دینا ہوں گی تاکہ وہ اپنی زرعی پیداوار زیادہ سے زیادہ بڑھا سکیں۔ معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور زرِمبادلہ کمانے کے لیے صنعتی ترقی کو بحال کرنا ہوگا۔ وہ موجودہ صنعتی ڈھانچے سے خوش نہیں ہیں۔