دنیا بھر کے ساتھ پاکستان میں بھی کورونا وبا کی ہلاکت خیزی میں تیزی آگئی ہے۔ کورونا کی وبا پر قابو کے لیے حفاظتی اقدامات کے تحت 16شہروں میں فوج کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔ این سی او سی مختلف شہروں میں مکمل لاک ڈائون پر غور کررہی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند کردیئے گئے ہیں، جبکہ خیبرپختون خوا کے 28 اضلاع کے تعلیمی ادارے بند کیے گئے ہیں۔ افواجِ پاکستان کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اپنے اقدامات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا کی تیسری لہر پہلی دونوں لہروں سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہورہی ہے۔ اس وبا کے دوران میں پاکستان میں پہلی مرتبہ دنیا کے مقابلے میں شرحِ اموات 2.16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ وبا کے تیز ترین پھیلائو کی وجہ سے صحت کے نظام پر مسلسل دبائو بڑھ رہا ہے۔ ملک میں اس وقت آکسیجن کی کُل پیداوار کا 75 فیصد سے زائد صحت کے شعبے کے لیے مختص ہے۔ موجودہ صورتِ حال برقرار رہی تو صنعتوں کے لیے مختص آکسیجن بھی صحت کے شعبے کے لیے مختص کرنا پڑے گی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے خبردار کیا تھا کہ کورونا کے مثبت کیسوں کی وجہ سے اسپتالوں پر دبائو بڑھ رہا ہے، کوششوں سے کورونا کے پھیلائو کو کچھ کم کیا ہے، اگر اس وبا کا زور فوری نہ ٹوٹا تو بڑے شہر بند کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ یہ آخری موقع ہے، قوم سنجیدگی دکھائے۔
کورونا کی وبا کے پھیلائو سے دنیا ابھی تک نجات حاصل نہیں کرسکی ہے۔ وبا کے مریضوں اور ہلاکتوں کے ساتھ سب سے زیادہ اثر قوموں کی سماجی اور اقتصادی زندگی پر پڑتا ہے۔ کورونا کے اثرات لامحالہ معاشی زندگی پر پڑے ہیں۔ شادی ہال بند ہیں، اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد احتجاج کررہی ہے۔ کورونا پر قابو پانے کے لیے سماجی فاصلے پر مشتمل حفاظتی تدابیر اور ویکسی نیشن کے سوا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ پاکستان کی معیشت پہلے سے خراب ہے، غربت و افلاس کے خاتمے کا چیلنج ہر حکومت کے سامنے تھا، لیکن ہر حکومت کی پالیسیوں نے ذرائع روزگار محدود کیے ہیں، اور گزشتہ دو سے تین عشروں میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اس تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہر حکومت کے سامنے معیشت کی بحالی سب سے اوّلین ترجیح رہی ہے لیکن سیاسی عدم استحکام اور کوئی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے معاشی ابتری میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں تو کسی قسم کی پالیسی بھی نظر نہیں آتی۔ موجودہ حکومت کے تین برس پورے ہونے والے ہیں، اس مدت میں تین وزرائے خزانہ تبدیل کیے جاچکے ہیں۔ اب نئے وزیر خزانہ شوکت ترین بنائے گئے ہیں۔ ان کا امتحان یہ ہے کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں، مقامی اشرافیہ کے مفادات اور عام آدمی کے حالات کو بہتر بنانے میں کس کو ترجیح دیتے ہیں۔ کورونا کا پھیلائو نئے چیلنج کے طور پر سامنے آگیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ قوم اب تک محدود سماجی و اقتصادی بندشوں کے ذریعے کورونا کا کامیابی سے مقابلہ کرتی رہی ہے، لیکن حالات ہاتھ سے نکلتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت کے پاس معمول کے حالات میں عوام کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے کوئی نظام عمل موجود نہیں ہے تو وہ ہنگامی حالات میں جیسا کہ وبا کے پھیلائو کے بے قابو ہونے کے خطرات بیان کیے جارہے ہیں، کیا حکمت عملی بنا سکے گی؟ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قوم کے پاس ماہرینِ معیشت کی بھی قلت ہے۔ کوئی بھی حکومت ہو، چند نام ہیں جو وزارتِ خزانہ کے اوپر بٹھا دیے جاتے ہیں۔ حالات تو اس قسم کے ہوگئے ہیں کہ بنیادی اشیائے ضرورت، غذائی اجناس، گندم، چینی، بجلی، گیس، پیٹرول پر بدعنوان اور جرائم پیشہ مافیا کی مکمل گرفت ہوچکی ہے۔ حکومتی پالیسی سازی پر آئی ایم ایف کے نمائندوں کا تسلط ہوچکا ہے۔ عام آدمی کے حالات کی بہتری صرف تقریروں اور نعروں تک محدود ہوگئی ہے۔ معیشت کی اصلاح کے لیے پہلی ضرورت آزاد ذہن پر مشتمل ایسے ماہرین اور افرادِ کار ہیں جو مفادات سے بالاتر ہوکر بنیادی فیصلے کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری نے گھر گھر ڈیرے ڈال دیے ہیں، جب کہ دولت مندوں کا ایک ایسا طبقہ طاقتور ہوچکا ہے جو بیرونی طاقتوں کا غلام ہے۔ ہر حکومت نے جو بھی فیصلے کیے ہیں ان سے عوام کے حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہی ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت اپنی مدت کا نصف گزار چکی ہے لیکن وہ معاشی پالیسی کے خدوخال بھی واضح نہیں کرسکی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی سے آزادی اور سودی معیشت کی لعنت سے چھٹکارا پائے بغیر قوم اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہوسکتی، لیکن پاکستان کا طاقتور اور بدعنوان حکمران طبقہ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔