تین سال کی پارلیمانی مدت مکمل کرنے والی حکومت چوتھی بار کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کرنے جارہی ہے۔ معیشت اس سے سنبھل نہیں رہی، امور خارجہ سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے، داخلی امور کی اسے سمجھ نہیں، اس کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت سمجھتی ہے کہ وہ اقتدار میں ہے۔ معیشت سمیت ہر میدان میں حکومت ناکام ہوئی ہے۔ کامیابیوں کے بلند بانگ دعووں کے باوجود وفاقی کابینہ میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ اور محض اٹھارہ دن بعد تیسرے وزیر خزانہ کی چھٹی کردینا اور ان کی جگہ نئے وزیر خزانہ کی مشروط تقرری ظاہر کرتی ہے کہ معاملات ابھی تک حکومت کے قابو میں نہیں آسکے ہیں، جبکہ اس کے اقتدار کی آئینی مدت ختم ہونے میں اب صرف دوسال باقی ہیں۔ نئے وزیر خزانہ شوکت ترین معیشت سنبھال پائیں گے یا نہیں، البتہ جس شرط پر وہ آئے ہیں ان کے خلاف نیب مقدمات ضرور ختم ہوجائیں گے۔ منتخب رکن پارلیمنٹ حماد اظہر دراصل ملک میں ماہرینِ معیشت کے کارٹل کا شکار ہوئے ہیں۔ اطلاعات و نشریات کی اہم وزارت کی مسند شبلی فراز کے بجائے فواد حسین چودھری کے سپرد کردی گئی ہے۔ حماد اظہر وفاقی وزیر برائے توانائی ہوں گے۔ شبلی فراز سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت میں فواد چودھری کے لگائے ہوئے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔ شوکت ترین چونکہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں، لہٰذا انہیں اس منصب پر رہنے کے لیے چھ ماہ کے اندر قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رکن بننا ہوگا۔ بطور وزیر ان کی تقرری صرف چھ ماہ کے لیے ہوئی ہے ۔ نئے وزیر خزانہ بھی ضرور کسی لابی کا حصہ ہیں۔ ان کی تقرری پرگورنر اسٹیٹ بینک کا یہ بیان منظرعام پر آچکا ہے کہ معیشت کی گاڑی بالکل درست سمت میں رواں دواں ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کے اختیارات میں نئی قانون سازی کے بعد بے پناہ اضافہ متوقع ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا بیان اس لحاظ سے بھی قابلِ غور سمجھا جانا ضروری ہے کہ شوکت ترین نے اپنی تقرری سے چند روز قبل ہی ملکی معیشت پر سخت تنقید کی تھی کہ ’’معیشت کی سمت کا پتا نہیں، ہم نے ڈھائی سال میں اپنا گھر ٹھیک نہیں کیا، آئی ایم ایف سے مذاکرات میں غلطی کی گئی، صرف ٹیرف بڑھانے سے کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے، ایکسچینج ریٹ اور شرح سود بڑھانے سے معیشت کا بیڑہ غرق ہوا‘‘۔ ان کی رائے ریکارڈ پر ہے، اس لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ جب وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک دو الگ الگ راستوں پر چلیں گے تو ملکی معیشت کیسے درست ہوگی!
معیشت کے امتحان میں ناکام حکومت امور خارجہ کے شعبے میں ہونے والی تبدیلیوں اور خصوصاً پاک بھارت مذاکرات کی پیش رفت سے بھی پارلیمنٹ کو بے خبر رکھ رہی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بیان دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات میں تیسرے فریق کی ثالثی ضروری ہوگی اور بھارت کو نتیجہ خیز اور بامقصد مذاکرات کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ یہ بیان بلامقصد نہیں ہے، یہ ضرور کسی کا پیغام ہے۔ اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس وقت امریکہ سمیت ہر بڑی قوت جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے، اور پاکستان پر دبائو ہے کہ وہ خطرات کو سمجھے۔ یوایس ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کی جانب سے امریکی کانگریس میں پیش کی گئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت پاکستان پر اشتعال انگیزی کا الزام لگاتے ہوئے اس کے خلاف طاقت استعمال کرسکتا ہے۔ رپورٹ میں جس طرح کے حالات کی نشاندہی کی گئی ہے یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی کانگریس کو بھجوائی گئی ایک اور انٹیلی جنس رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا خطرہ ہے۔ ایک جانب یہ امریکی رپورٹ ہے اور دوسری جانب چین، پاکستان، ایران، افغانستان، روس اور ترکی میں سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں، انہیں روکنے کے لیے امریکہ اور بھارت بھی اپنے مفادات کے حوالے سے نئی چالوں میں مصروف ہیں۔ ملک کے داخلی حالات ان سے الگ کرکے نہیں دیکھے جاسکتے۔ حال ہی میں ایک پیش رفت ہوئی ہے کہ روس کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اگرچہ روسی وزیر خارجہ کا دورہ بہت اہم تھا، لیکن اس دورے کے باوجود پاک روس تعلقات کے حوالے سے کوئی بڑی خبر نہیں ہے۔ روس افغانستان میں پاکستان کے کردار پر کچھ شاکی ہے، وہ افغانستان میں اپنے مفادات بھی دیکھ رہا ہے جس کی روس میں مضبوط جڑیں ہیں اور بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے کافی اثر رسوخ ہے۔ پاکستان نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کا آغاز کیا ہے لیکن بھارت اور افغان رویہ رکاوٹ ہے۔ روس اس خطے میں اپنا کردار مانگ رہا ہے، اسی لیے وہ متعدد اہم کانفرنسیں بھی کروا چکا ہے۔ اس نے حال ہی میں افغانستان سے متعلق ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کروائی لیکن اسے ابھی تک کوئی کردار نہیں مل سکا۔ پاک روس سربراہ رابطے کے بعد ہی کچھ تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ روس کے وزیر خارجہ کے دورے کے موقع پر صدر پیوٹن کو دورئہ پاکستان کی دعوت دی گئی ہے۔ اگر پیوٹن پاکستان آتے ہیں تو یہ اہم پیش رفت ہوگی۔ روس کے وزیر خارجہ پاکستان کے ساتھ پائپ لائن کی تعمیر پر بات چیت کرکے گئے ہیں اور کورونا ویکسین کی تیاری کے حوالے سے مدد کا بھی اعلان کیا ہے۔ تاہم ان کے دورئہ پاکستان کے حوالے سے کوئی بڑی خبر نہیں ہے۔ روس ایران کے ذریعے افغانستان میں اپنا کردار دیکھ رہا ہے، اسے علم ہے کہ بھارت اسے براہ راست مدد نہیں دے سکتا۔ روس کی اس کوشش کے جواب کے لیے چین نے ایران کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے لیے بھی بہتر ہوگا۔ چین نے سی پیک جیسا معاہدہ ایران کے ساتھ کیا ہے۔ چین ایران سے تیل بھی لے گا اور اسے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے میں بھی شامل کرے گا۔ ایران کے ساتھ چین نے 400 ارب ڈالر کے بہت بڑے معاہدے کیے ہیں۔ چین ایران معاہدے کے بعد امریکہ متحرک ہوا ہے۔ صدر جوبائیڈن ایران کے ساتھ ماضی میں کیے جانے والے معاہدے کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ چین کی وجہ سے امریکہ ایران کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کی طرف آرہا ہے، تاہم ایران اپنی شرائط پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ اگر امریکہ کا ایران کے ساتھ معاہدہ ہوا تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔ امریکہ کو علم ہے کہ ایران نیوکلیئر پاور بننے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران امریکہ معاہدے کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب بھی ایران کے ایٹمی قوت بننے کے راستے میں رکاوٹ بنیں گے۔ امریکہ کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے وقت بہت کم ہے، اس پس منظر میں ضرورت یہ ہے کہ تجزیہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟ اب ہمیں یہاں ایک لمحے کے لیے رک کر اپنی سرحدوں سے باہر اور اپنی داخلی سلامتی کی صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں، مگر ہمارے ہاں تو پارلیمنٹ گونگی، بہری اور اندھی بنی ہوئی ہے۔ تین سال ہورہے ہیں پارلیمنٹ میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نے حساس معاملات پر بات چیت تو کیا آج تک ہاتھ نہیں ملایا اور سلام دعا نہیں کی۔