پاک بھارت تناظر میں اصل جنگ سفارتی محاذ پر لڑی جاسکتی ہے۔ بنیادی بات داخلی اور خارجی محاذ پر اپنے بیانیے کو تسلیم کروانا اور رائے عامہ میں اس نکتے کو بیان کرنا ہوتا ہے کہ ہمارا مؤقف درست ہے۔ آج کی دنیا میں جنگیں ہتھیاروں کے بجائے سفارتی محاذ پر لڑی جاتی ہیں۔ دانش ورانہ یا سفارتی انداز اختیار کرکے ہم اپنے علاقائی اور عالمی معاملات پر دنیا کو اپنے ساتھ جوڑتے ہیں تاکہ اپنے مؤقف کی ہر سطح پر پذیرائی حاصل کرسکیں۔ سفارتی عمل براہِ راست اور پسِ پردہ دونوں سطحوں پر جاری رہتا ہے، اور اس کا مقصد اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی مواقع یا سازگار ماحول کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہوتا ہے۔
پاک بھارت تعلقات ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بداعتمادی کے سائے میں سفارتی جنگ آسان نہیں ہوتی، اور خاص طور پر ایسے موقع پر جب دونوں طرف ایسے انتہا پسند یا جنگجو موجود ہوں جو امن سے زیادہ جنگ کو اپنا مؤثر سیاسی ہتھیار سمجھتے ہیں۔ اس لیے سفارتی محاذ کے ساتھ ساتھ اپنی ریاست کے اندر بھی ایک جنگ اُن لوگوں سے لڑنی پڑتی ہے جو داخلی محاذ پر امن کی کوششوں میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ لیکن بنیادی بات دو طرفہ ریاستی سطحوں پر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ ہونا چاہیے کہ دونوں طرف باہمی امن کی خواہش موجود ہے۔ کیونکہ اگر خواہش موجود ہو تو فہم و فراست، تدبر اور افہام وتفہیم یا مؤثر حکمت عملی کی مدد سے امن کا محفوظ راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں مختلف ادوار میں بیک ڈور چینل کی مدد سے سفارت کاری کا محاذ گرم رہا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں کبھی کبھی اچھے نتائج بھی ملے ہیں، لیکن یہ نتائج تواتر کے ساتھ اپنا تسلسل برقرار نہیں رکھ سکے۔ اس کا نتیجہ دونوں طرف سے بداعتمادی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ آخری بار بیک ڈور چینل کا ایک سلسلہ 2018ء میں جاری ہوا، اس معاملے میں باہر کی کچھ قوتوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ مقصد اس کا یہی تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان توازن پر مبنی حکمتِ عملی اختیار کی جائے، اور تعلقات میں جو سردمہری یا بداعتمادی ہے اُسے کم کیا جاسکے۔ مقصد یہ تھا کہ اس عمل کی مدد سے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے تناظر میں جو تعطل موجود ہے اسے ختم کیا جائے اور مذاکراتی عمل کسی نہ کسی شکل میں شروع کیا جائے۔ پاکستان تواتر سے بھارت اور عالمی برادری کو یہ پیغام سیاسی، سفارتی اور عسکری سطح سے دے رہا تھا کہ وہ مذاکرات اور تعلقات میں بہتری کا خواہش مند ہے، اور بقول وزیراعظم عمران خان: اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم تین قدم آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان بیک ڈور چینل کا سلسلہ 2018ء میں کسی نہ کسی شکل میں جاری ہوا، لیکن بھارت کی جانب سے 2019ء میں جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہوا، اور خاص طور پر آرٹیکل 370 اور 35-Aکو بنیاد بنا کر مقبوضہ کشمیر میں جو شدید بحران پیدا کیا گیا اُس نے بیک ڈور چینل پر ہونے والی کوششوں کو پس پشت ڈالنے اور مزید بداعتمادی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حالانکہ پاکستان کو یقین تھا کہ جو کچھ بیک ڈور چینل کی مدد سے پاک بھارت تعلقا ت کو معمول پر لانے کی کوشش ہورہی ہے اس کے کسی نہ کسی شکل میں مثبت نتائج ملیں گے۔ لیکن عملی طور پر 2019ء پاک بھارت تعلقات اوربالخصوص پاکستان کے لیے بھارت کے تناظر میں ایک مشکل برس ثابت ہوا۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں میں ایسے لوگ حکومت، ریاست اور سفارت کے محاذ پر موجود تھے جو سمجھتے تھے کہ ان مشکل حالات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ خود کو اپنے بنیادی فریم ورک یا اصول کے ساتھ جوڑنے کے امکانات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان برے حالات میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کے محاذ پر کسی نہ کسی شکل میں2020ء میں بھی امن کی بحالی کا ایجنڈا سرفہرست رہا۔ دونوں طرف کے لوگ مختلف مقامات پر ملے اور معاملات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے کچھ بااثر ممالک نے بھی اپنا خا ص کردار ادا کیا۔
یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتِ حال کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان جو پسِ پردہ معاملات چل رہے تھے اُن کے کچھ خاطر خواہ نتائج ہمیں آج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ جو پاکستان اوربھارت کے بارڈرز پر کشیدگی تھی اُس میں کمی، یا اس کے خاتمے پر اتفاق خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ دونوں طرف کے جو لوگ بیک ڈور ڈائیلاگ کا حصہ تھے انہوں نے بڑے مثبت انداز میں سازگار ماحول کو یقینی بنانے میں اپنا ابتدائی کردار خوب نبھایا۔ پاکستان نے بھی مقبوضہ کشمیر میں 370 اور 35-Aکے بعد کی صورت حال، اور مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی تبدیلی پر بات چیت کی، اور بھارت نے بھی اس پر مزید بات چیت کا عندیہ دیا۔ یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ اگر بھارت اورپاکستان کے درمیان کسی سطح پر بھی حالات سازگار ہوتے ہیں تو خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرکے حالات کی بہتری کے لیے کچھ بڑے فیصلوں کی طرف پیش رفت کرسکتے ہیں۔ پاکستان بھارت کو پہلے بھی یہ باور کروا چکا ہے اور مزید اس بات پر بھارت کو اعتماد میں لیا جارہا ہے کہ پاکستان کسی بھی سطح پر غیر ریاستی عناصر، دہشت گردوں یا دہشت گردی کی حمایت نہیں کرے گا۔
2020ء میں بیک ڈور چینل کی مدد سے جاری گفتگو کا ایک عملی نتیجہ 2021ء میں کچھ مثبت خبروں کے ساتھ دیکھنے کو ملا ہے۔ مثال کے طور پر سیز فائر معاہدہ ایل او سی پر ایک اہم نکتہ ہے۔ اسی طرح بھارت کی طرف سے ایک مثبت پیغام ہمیں کورونا ویکسین کی فراہمی کے اعلان کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ اسی طرح ایک خوشگوار پیش رفت پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی صورت میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے 23 مارچ کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کو لکھا جانے والا خط تھا۔ سفارتی محاذ پر داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر نریندر مودی کے خط کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھا گیا اور اسی تناظر میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا جوابی مثبت خط بھی ہر سطح پر سراہا گیا۔ اسی طرح اسلام آباد سیکورٹی کانفرنس میں وزیراعظم اور بالخصوص فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک بھارت تعلقات اور خطے میں امن کو ترجیح بنانے پر جو فکر انگیز گفتگو کی اس نے بھی عالمی سفارتی محاذ اور بھارت کی سطح پر بھی پذیرائی حاصل کی۔
حالیہ دنوں میں پاک بھارت تجارت کی بحالی کے تناظرمیں پاکستان کی طرف سے جو اعلان ہوا وہ درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا گیا، اور اس کا نتیجہ بدمزگی کی صورت میں سامنے آیا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ پہلے سے جاری بیک ڈور چینل پر مثبت پیش رفت کی وجہ سے اس اہم مسئلے پر بھارت کی جانب سے کوئی منفی ردعمل سامنے نہیں آیا، اس پر بھارت کی تعریف کرنی ہوگی۔ پاکستان کیونکہ ہر سطح پر بھارت سے بہتر تعلقات کا خواہش مند ہے اور وہ اسے اپنی کمزوری نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے مفاد سمیت خطے کے مفاد میں بھی اہمیت دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان تواتر کے ساتھ امن کی بحالی اور بہتر تعلقات کا بیانیہ ہر سطح پر پیش کررہا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے اہم بات یہ ہے کہ دونوں طرف سے کشیدگی، بداعتمادی، غلط فہمی یا شکوک و شبہات کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے دونوں ملکوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سازگار حالات کی بحالی کے لیے مثبت پیش رفت کو ہی اپنا ترجیحی ایجنڈا بنائیں۔ بالخصوص بھارت کو تعلقات کی بحالی اور سازگار ماحول کو یقینی بنانے کے لیے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر بڑی پیش رفت دکھانا ہوگی۔ کیونکہ پاکستان اپنی داخلی اور علاقائی پالیسی میں مقبوضہ کشمیر کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اوراس پر کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں، اور یہ بات بھی پاکستان کئی بار کہہ چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو بھی بہتری کا فیصلہ ہو وہ پاکستان اور بھارت سے زیادہ کشمیریوں کے مفادات سے جڑا ہونا چاہیے،کیونکہ وہی بنیادی فریق ہیں اور ہم اُن پر اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرسکتے۔