واشنگٹن پوسٹ نے اپنی خبر کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا: ’’امریکی افغانستان کی جنگ کے متعلق مسلسل جھوٹ بولتے رہے ہیں‘‘۔ یہی بات مَیں نے 2003ء میں American Conservative نامی جریدے میں کہی تھی، جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور کہا تھا:’’ہم جو کچھ کررہے تھے، ہمیں اس کا ذرہ بھر اندازہ نہیں تھا‘‘۔ اس امر کا اعتراف تین ستارہ جرنیل جنرل ڈوگلس لیوٹ کی طرف سے کیا گیا ہے، جس نے امریکی صدر جارج بش اور صدر بارک اوباما کے اَدوارِ حکومت میں افغانستان میں امریکی افواج کی کمان کی۔ امریکہ نے ایک دور افتادہ جنوبی ایشیائی ملک میں تکبر اور جہالت پر مشتمل انتہائی ظالمانہ قوت کے ساتھ حکمت عملی اپنائی۔ افغانستان پر حملہ، امریکہ کے خلاف نائن الیون کے حملوں کا انتقام تھا۔ جیسا کہ اس مضمون نگار نے افغانستان میں تازہ ترین صورت حال کا مشاہدہ کیا۔ اس کے مطابق افغانستان میں اسامہ بن لادن کے دہشت گردانہ تربیتی کیمپوں کی موجودگی محض جھوٹ کا ایک پلندا تھا، کیونکہ نائن الیون کی منصوبہ بندی سرے سے افغانستان میں نہیں کی گئی تھی۔
طالبان ’دہشت گرد‘نہیں تھے۔ وہ ہلکے اسلحے سے مسلح ایسے قبائلی جنگجو تھے، جو ڈاکوؤں اور امریکی نواز افغان خفیہ ادارے کے خلاف لڑرہے تھے، جس کا انتظام کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں تھا۔ طالبان کے سرپرست مجاہدین کی پذیرائی سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ’حریت پسند‘ کہتے ہوئے کی تھی۔ 2003ء میں امریکیوں نے اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کرکے افغانستان کے کمیونسٹوں کی حمایت شروع کردی، جنھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی پائپ لائن کو وسطی ایشیا کے تیل سے بھرپور بحیرئہ کیسپین کے علاقے سے پاکستان کے ساحل تک پہنچانے کی اجازت دیں گے۔ لیکن جب طالبان نے اس گھٹیا امریکی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو قوم پرست، منشیات مخالف تحریک، جس نے افغانستان کی بے حرمتی کے خلاف جنگ کی تھی، کو ’دہشت گرد‘ قرار دے دیا گیا۔
امریکی سرپرستی میں افغانستان میں قائم حکومت، بنیادی طور پر سی آئی اے کے حلیفوں یعنی: جنگجو سرداروں، منشیات کے بڑے بڑے سوداگروں اور کمیونسٹوں کا ایک حصہ تھی۔ کرایے کے فوجیوں کی خدمات حاصل کرنے اور جنگجو سرداروں اور جرائم پیشہ افراد کو مالی رشوتیں ادا کرنے کی خاطر امریکہ نے اربوں ڈالر لٹا دیے۔ اس طرح افغانستان میں جرائم پیشہ، امریکہ کے اتحادی بن گئے۔
جب افغانستان میں طالبان برسراقتدار تھے، اس وقت اندازاً افغانستان میں مارفین اور ہیروئن کی 90 فی صد تجارت کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ جب امریکہ نے کابل پر قبضہ کیا اور یہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی، تو اسی افغانستان سے منشیات کی پیداوار میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوگیا۔ امریکی افواج اور ان کے اتحادی منشیات کی تجارت میں سرتاپاؤں ڈوب گئے۔ آج امریکہ نواز افغانستان کی حکومت، دنیا کی سب سے بڑی منشیات کی سوداگر ہے۔
اُن صحافیوں کی طرح کہ جن کا اصرار یہ تھا: ’’افغانستان کے متعلق سچ بولنا چاہیے‘‘، کو فارغ کردیا گیا یا پھر انھیں نظرانداز کردیا گیا۔ مجھے سی این این نے اس لیے ملازمت سے نکال دیا کیوںکہ میں نے ان جھوٹے دعوؤں کی تردید کی کہ ’’عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں‘‘۔ اور یہ کہ ’’امریکہ ’جنگِ افغانستان‘ جیت رہا ہے‘‘۔ مجھے یہ دعویٰ کرنے کے باعث بعض ریڈیو اور ٹی وی چینلوں پر آنے سے منع کردیا گیا کہ داعش(ISIS) فی الحقیقت مغرب ہی کی اختراع ہے جس کی معاونت ترکی، امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کرتے ہیں۔ مجھے ایسا سچ بولنے کی پاداش میں ’انقلابی‘ قرار دیا گیا۔
یہ مثالیں اس لیے بیان کررہا ہوں تاکہ ان الزامات کی تصدیق ہوسکے، جو واشنگٹن پوسٹ کی طرف سے امریکی حکومت اور فوج پر عائد کیے گئے ہیں کہ: ’’افغانستان کا تمام تر تنازع محض جھوٹ اور نیم دروغ گوئیوں کا پلندا ہے، جسے امریکی حکومت نے اس لیے گھڑا، تاکہ ایک کمزور، پسماندہ قوم کے خلاف ظالمانہ جنگ کی توجیہہ پیش کی جا سکے جس نے اسٹرےٹیجک پائپ لائن کے ہمارے مطالبات سے انکار کی جرأت اور گستاخی کی‘‘۔
خود اسی واشنگٹن پوسٹ نے ان دروغ گوئیوں کو آگے بڑھانے اور فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا، جنھوں نے عراق پر امریکی حملے کا دروازہ کھول دیا تھا۔ آج، واشنگٹن پوسٹ اپنے انھی گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر ان تمام دروغ گوئیوں کا انکشاف کررہا ہے، جن کی بنیاد پر امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور اس جنگ میں ہزاروں امریکی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ پھر امریکیوں نے وسیع پیمانے پر اذیت رسانی کا سلسلہ شروع کیا، ملک میں خوراک کی قلت واقع ہوگئی، وسیع پیمانے پر شہری قتل ہوئے اور جنگ کی دیگر ہولناکیوں نے جنم لیا۔
’پینٹاگان‘ کی اطلاع کے مطابق: ’’امریکہ نے کم از کم ایک کھرب ڈالر افغانستان کی جنگ پر ضائع کیے ہیں، جب کہ کثیر تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں، بے شمار زخمی ہوئے۔ دیہات کے دیہات تباہ کردیے گئے، جانوروں کو ان کے باڑوں میں مشین گنوں سے بھون دیا گیا اور آبادی پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔ امریکی بمباری معمول بن گئی۔ ہم افغانستان کے دیہات پر امریکی بی ون اور بی باون جنگی طیاروں کی شرمناک کارپٹ بمباری کے مناظر اکثر دیکھتے ہیں اور پھر ’اے سی 130‘ ہیلی کاپٹروں کی بلاامتیاز گولیوں کی بارش کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں، جو افغانستان کے قبائلیوں اور شادی بیاہ کی تقریبات پر بوچھاڑ کی صورت میں داغی جاتی ہیں۔ کمیونسٹ روسی تو محض بے رحم تھے لیکن ہم نے بے رحمی کی تمام حدود پھلانگ لی ہیں۔ بیشتر امریکی میڈیا نے افغانستان کے عوام کے خلاف امریکی جنگ کو بہت آگے بڑھایا ہے اور تمام امریکی ظلم وستم اور سنگین دروغ گوئیوں پر ہمیشہ پردہ ڈالا ہے۔ یہ جنگ بہت ہی بڑی قاتل مشین بن چکی ہے، جو سیاست دانوں اور فوجی ٹھیکے داروں کو مالامال کررہی ہے۔ ماضی کے امریکی صدور، جنھوں نے دنیا کی ایک غریب ترین، انتہائی پس ماندہ قوم کے خلاف اس ذلت آمیز جنگ کی پذیرائی کی، اس قابل ہیں کہ ان کا تذکرہ بے عزتی اور حقارت سے کیا جائے۔
دریں اثنا، ہمیں ایک لمحہ توقف کرکے اُن افغان قبائلی جنگجوؤں کے متعلق سوچنا چاہیے جنھوں نے دنیا کی عظیم ترین فوجی طاقت کو گزشتہ 18 برس سے محض ’اے کے 47 ‘ بندوقوں اور اپنے غیرمتزلزل اور ناقابل تسخیر حوصلے سے روکے رکھا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے پُرخلوص معافی کے خواست گار ہوں اور ان کے ملک کی اَزسرنو تعمیر کریں۔ ایک سابق امریکی فوجی کی حیثیت سے مَیں بہادر ترین افغان عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔
ترجمان القران، ایرک مارگولس| جنوری 2020ء| اخبار اُمت
(ترجمہ: ریاض محمود انجم)