تحریک لبیک کا احتجاج اور ریاستی تشدد

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا اور ٹی ایل پی کا مقصد ایک ہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی نہ کی جائے، لیکن طریقہ کار اور حکمت عملی مختلف ہے۔ وہ تحریک لبیک کے سربراہ کی گرفتاری، تحریک لبیک پر پابندی، احتجاج کو ریاستی طاقت کے ذریعے کچلنے میں ناکامی کے بعد قوم سے خطاب کررہے تھے۔ اگر حکومت اور تحریک لبیک کے مقاصد ایک ہیں، حکمتِ عملی اور طریقہ کار میں اختلاف تھا تو تحریک لبیک کو دہشت گرد قرار دے کر عجلت میں پابندی عائد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
حکومت کی جانب سے اتنی عجلت میں اٹھایا جانے والا انتہائی قدم ناقابلِ فہم ہے۔ پُرامن احتجاج ہر سیاسی و مذہبی گروہ کا حق ہے۔ یہ بات درست ہے کہ احتجاج کو پُرامن رکھنا جہاں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے، وہیں منتظمین اور احتجاج کی اپیل کرنے والی جماعتوں کے قائدین بھی اس سے بری نہیں ہوسکتے۔ حکومت نے اپنی حماقت، عجلت اور بیرونی ڈکٹیشن کی وجہ سے ایک حساس مسئلے کو سلجھانے کے بجائے بگاڑ دیا ہے۔ اس انتہائی قدم کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اول دن سے حکومت کی نیت صحیح نہیں تھی۔واضح رہے کہ 2020ءمیں فرانس کی حکومت کی سرپرستی میں خاتم الانبیا، محسنِ انسانیت، سیدنا محمد مصطفیٰ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہوئی تھی جس کے خلاف پوری مسلم دنیا میں سخت اور شدید ردعمل ہوا تھا۔ یہ ردعمل آج بھی موجود ہے۔ مسلم حکمرانوں کی کمزوری کی وجہ سے فرانس کی حکومت پر اس ردعمل کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس عمل کا جواب دینا مسلم امہ کا فرض ہے۔ اس سلسلے میں طاقتور آواز مولانا خادم حسین رضوی کی جانب سے بلند ہوئی۔ اُن کا مطالبہ یہ تھا کہ ریاستی سطح پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی ہے اس لیے اس کا جواب بھی حکومتی اور سرکاری سطح پر دیا جانا چاہیے تھا۔ اپنے مطالبے کو منوانے کے لیے تحریک لبیک نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ حکومت نے پارلیمانی سطح پر اس کا جواب دینے کے لیے تحریک لبیک سے تحریری معاہدہ کیا اور اس حوالے سے تین معاہدے موجود ہیں۔ حکومت کا خیال یہ تھا کہ تحریک لبیک وقت گزر جانے کے بعد اس معاہدے کو بھول جائے گی، لیکن تحریک کی قیادت نے حکومت کو وعدہ یاد دلایا اور خبردار کیا کہ حکومت نے اپنا عہد پورا نہیں کیا تو وہ دوبارہ احتجاج شروع کریں گے۔ معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومت اور تحریک لبیک کے رہنماؤں کے درمیان بات چیت اور مذاکرات کا عمل جاری تھا کہ حکومت نے حماقت، عجلت اور بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک لبیک کے امیر کو اچانک گرفتار کرلیا۔ حکومت کی توقع کے برعکس پورے ملک میں بالخصوص صوبہ پنجاب کے شہروں میں احتجاج شروع ہوگیا۔ اس احتجاج کو پُرتشدد تصادم کی شکل کس نے دی، اس کی تحقیق اور تفتیش ضروری ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی احتجاجی تحریک کا پُرامن رہنا خود تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حکومتوں کے آلہ کار پُرامن تحریکوں کو پُرتشدد بناتے ہیں تاکہ ایسی تحریکوں کو کچلنے کا جواز ہاتھ آجائے۔ وزیراعظم نے بھی اپنے بیان میں اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ احتجاج کی آڑ میں شرپسند عناصر کے فائدہ اٹھانے کی اطلاعات حکومتی اداروں کے پاس موجود ہیں۔ اس وجہ سے اس بات کی تحقیق اور تفتیش ضروری ہے کہ احتجاج کو پُرتشدد کس نے بنایا۔ حکومت کی بدنیتی اس بات سے ظاہر تھی کہ ابتدا میں ذرائع ابلاغ میں خبروں کو نشر نہ کرنے کی ہدایت دی گئی۔ حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ اسے پارلیمان میں قرارداد کی صورت میں پیش کیا جائے گا۔ یہ بہت اہم نکتہ تھا۔ پارلیمان کے ذریعے متفقہ حکمت عملی اختیار کی جاسکتی تھی۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمارے دین و ایمان کا انحصار ہے۔ ضرورت بھی اس بات کی تھی کہ مغربی دنیا کے سامنے متفقہ مطالبہ لایا جائے۔ لیکن حکومت ایک مذہبی جماعت سے مذاکرات کی اہلیت نہیں رکھتی تو وہ پارلیمان میں قوم کے نمائندوں کو کیسے جمع کرسکتی تھی! ایک طرف موجودہ حکومت اور اس کے سربراہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر انہوں نے سب سے موثر آواز بلند کی اور اہم خطاب کیا، لیکن ایک بار تقریر کرکے رہ گئے۔ جب کہ فرانس کی حکومت سمیت کفر کی تمام طاقتیں ایک گستاخِ رسول کی پشت پر کھڑی ہوگئی ہیں۔ ہمارے حکمراں عوام اور علما کی بہ نسبت مغربی حکمرانوں سے براہِ راست رابطہ رکھتے ہیں، اس لیے ان کے پاس ان کی اسلام دشمنی کی خبر زیادہ ہے۔ اس لیے ان کا فرض بنتا ہے کہ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے اپنے فرض کو ادا کریں۔ تمام آثار یہ ظاہر کررہے ہیں کہ تحریک لبیک پر پابندی کا حکم بیرونی دباؤ پر ہوا ہے۔ ہمارے حکمراں مغرب اور امریکہ کی طرف سے آنے والی ہر فردِ جرم کو تسلیم کرلیتے ہیں۔ مغربی حکومتوں کی طرف سے گستاخیِ رسول کی سرپرستی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ اور عالم مغرب کے اسلام دشمن ایجنڈے کی مزاحمت کے بغیر قومی سلامتی کا بھی تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے تمام امور اسی مسئلے سے براہِ راست جڑے ہوئے ہیں۔