غلطی ہائے مضامین

روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے؟
خیر و برکت کا مہینا آن پہنچا۔ اس ماہِ مبارک میں شیطان قید کردیا جاتا ہے۔ کہاں قید کیا جاتا ہے؟ صاحبو! یہ جدید زمانہ ہے، سارے شیاطین اکٹھا کرکے ’’رمضان نشریات‘‘ میں بند کردیے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نشریات میں سے رمضان تو غائب ہوتا ہے، ہر قسم کی شیطنت البتہ حاضر رہتی ہے۔ ایک طرح کی شیطنت یہ بھی ہے کہ ’رمضان‘ کا تلفظ ’’رَمْ ضان‘‘ کیا جاتا ہے، یعنی میم پر جزم لگا دیا جاتا ہے، جب کہ ’ر‘ اور ’م‘ دونوں پر زبر ہے۔ لغت میں ’رَمَضَ‘سے بننے والے جتنے الفاظ ہیں ان کے معانی محنت، مشقت، تکلیف اورسختی کی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً: جلانا، زمین کی تپش سے پاؤں کا جلنا، سخت دھوپ پڑنا، پیاس کی تیزی سے پرندے کے جوف کا گرم ہونا، کسی چیز کا گرم ہوکر جل اُٹھنا، یا کسی شخص کا غصے سے جل جانا،کوئی چیز باریک کرنے کے لیے دو ہموار پتھروں کے درمیان رکھ کر کوٹنا وغیرہ۔ رمضان کا مہینا اللہ نے جسم و روح کی آلائشوں کو چھان پھٹک کر صاف کردینے کے لیے محنت و مشقت کرنے کا مہینا بنایا ہے، مگر ’رمضان نشریات‘ میں اسے کھیل تماشے کا مہینا بناکر رکھ دیا جاتا ہے۔ بیش تر نشریات سے خیر و برکت کی جگہ گھروں میں نحوست ہی برستی محسوس ہوتی ہے۔ بعض ٹی وی چینل تو چن چن کر صرف منحوس چہروں ہی کا جمگھٹ پیش کرتے ہیں۔
عربی لفظ ’صوم‘ کی جگہ ہمارے ہاں لفظ ’روزہ‘ رائج ہوا۔ یہ لفظ فارسی سے آیا ہے۔ اقبالؔ کا مشہور شعر ہے:
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تُو باقی نہیں ہے
اسی طرح ’صائم‘ کے لیے فارسی اور اردو میں ’روزہ دار‘ استعمال ہوتا ہے۔ اردو کے محاوروں اور روزمروں میں بھی لفظ ’روزہ‘ کثرت سے مستعمل ہے۔ روزہ رکھنا، روزے سے ہونا، روزہ کھولنا، روزہ توڑنا، روزہ ٹوٹنا، روزہ خراب ہونا،روزہ کھانا وغیرہ۔ روزہ کھانے والے کو فارسی ہی میں نہیں، اُردو میں بھی ’روزہ خور‘ کہتے ہیں۔ دہلی کی ٹکسالی زبان میں ایک محاورہ استعمال ہوتا تھا ’روزہ اُچھلنا‘۔ یہی محاورہ لکھنؤ میں ’روزہ چڑھنا‘ کہلاتا تھا۔ وطن عزیز پاکستان میں کسی پر روزہ اُچھلتا ہے نہ روزہ چڑھتا ہے۔ یہاں تو لوگوں کو ’روزہ لگتا‘ ہے۔ مراد ہے روزے کی حالت میں جھنجھلانا یا طبیعت کا چڑچڑا پن دکھانا۔ غالبؔ کا ایک قطع ہے بعنوان: ’روزہ‘۔ ذرا ان کا عذر بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
افطارِ صوم کی جسے کچھ دست گاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
مرزا نوشہ نے یہ نہ بتایا کہ جس شخص کے پاس ’روزہ کھول کے کھانے کو‘ کچھ نہ تھا، آخر وہ ’روزہ کھا جانے‘ کو کہاں سے کچھ لے آیا؟ اس قطعے سے یہ بھی پتا چلا کہ مرزاجی کو تنگ دستی صرف ’کھانے‘ ہی کی تھی۔’پینے‘ کی دست گاہ انھیں خوب حاصل تھی۔ اس کا گلہ نہیں کیا۔ گلہ تو اکبرؔ نے کیا تھا:
ہمیں یہ مولوی آرام سے جینے نہیں دیتے
خدا کھانے کو دے دیتا ہے، یہ پینے نہیں دیتے
غالبؔ کے قطعے میں لفظ ’اِفطار‘ آیا ہے۔ اس لفظ میں پہلے الف پر کسرہ یعنی زیر ہے۔ ٹیلی وژن ہی پر نہیں، عام بول چال میں بھی اکثر لوگ الف پر زبر کے ساتھ’ اَفطار‘ بولتے ہیں۔ یہ غلط تلفظ ہے۔ اسے اِنکار اور اِظہار کی طرح پہلے الف پر زیر کے ساتھ بولنا چاہیے۔ اسی سے لفظ اِفطاری بنا ہے، جس سے مراد وہ چیزیں یا وہ پکوان ہیں جن کو اِفطار کے وقت کھاتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان آتے ہی افطار کے وقت کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ پس اِفطار کے لیے غالبؔ والی مشکل آج ہر شخص کو درپیش ہے۔ کورونا کی وجہ سے پچھلے برس کی طرح شاید اس سال بھی افطار پارٹیاں محدود ہوجائیں۔ محلّوں کی مساجد میں جمع ہوکر اہلِ محلّہ کے اجتماعی افطار کی روایت بھی محلّہ بہ محلّہ دم توڑتی جارہی ہے۔ ایسے میں آج کے دور کا مرزا غالب ؔبھی:
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے؟
اِفطار کا ایک مطلب ’روزہ نہ رکھنا‘ بھی ہے۔ فقہ اور فتویٰ کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ:
’’مریض اور مسافر کے لیے افطار کی اجازت ہے‘‘۔
مراد اس سے یہی ہے کہ ’روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے‘۔ ورنہ فرض روزہ رکھ لینے کے بعد دن دِہاڑے افطار کرلینے پر تو روزہ توڑنے کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ ساٹھ روزے مسلسل رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا لازم ہوجائے گا۔ ذرا سی اِفطاری اتنی بھاری پڑ سکتی ہے۔ عیدالفطر کا مطلب بھی ’روزہ کھولنے کی عید‘ ہے۔ بعض مسلمان گھرانوں میں اب بھی جب بچوں کو روزہ رکھوایا جاتا ہے تو ان کا روزہ کھلوانے کی باقاعدہ تقریب منعقد ہوتی ہے، جسے ’روزہ کُشائی‘ کی تقریب کہا جاتا ہے۔ اس تقریب میں اعزہ و اقارب کو دعوتِ اِفطار دی جاتی ہے۔ اب ایسی تقاریب کی جگہ ’’برتھ ڈے سرمنی‘‘ نے لے لی ہے۔ بحرؔ نے بڑھاپے میں ایسی ہی تقریب کی ’دعوت طلبی‘ کی تھی:
زاہدو! دعوتِ رنداں ہے شراب اور کباب
کبھی مے خانے میں بھی روزہ کُشائی ہو جائے
صبح روزہ شروع ہونے سے قبل بوقتِ سحر جو کچھ کھایا پیا جاتا ہے، اُردو میں اسے ’سحری‘ کہتے ہیں۔ رنگینؔ کا شعر ہے:
اُٹھتے ہی پچھلے پہر رات کو کھا کر سحری
شوق سے رکھیو تو کل میں ترے واری روزہ
ماہِ رمضان میںکی جانے والی ’غلطی ہائے مضامین‘ میں سے ایک عام غلطی کا تعلق بھی سحری کے وقت سے ہے۔ اخبارات و جرائد میں، نشریاتی اداروں سے اور رفاہی و تجارتی اداروں کی جانب سے تقسیم کیے جانے والے نقشہ ہائے سحر و افطار میں روزہ داروں کوتلقین کی جاتی ہے کہ سحری کھا کر روزہ رکھنے کی نیت اس طرح کی جائے:
’’وَ بِصَومِ غَدِِّ نَوَیتُ مِن شَہرِرَمَضَان‘‘
’’اور میں کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں ماہِ رمضان کے‘‘۔
اول تو نیت صرف دل کے ارادے کا نام ہے۔ حدیث کی کتب میں عموماً پہلی حدیث یہی ہوتی ہے کہ:
’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔
ہماری روزمرہ بول چال میں بھی یہ محاورہ عام ہے کہ:
’’نیتوں کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے‘‘۔
کیوں کہ دلوں کے بھید بس اُسی کے علم میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا زبان سے کہے ہوئے الفاظ کو ’’نیت‘‘ نہیں قرار دیا جا سکتا، اعلان ضرور کہا جاسکتا ہے۔ زبان سے اعلان کرنا ضروری ہو تو اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ آج میں روزے سے ہوں یا آج میرا روزہ ہے۔
دوم یہ الفاظ قرآن و حدیث کے نہیں ہیں۔ عربی کے کسی ماہر نے بھی یہ الفاظ ترتیب نہیں دیے۔ یہ کسی عجمی کی تخلیق ہیں۔ دُعا کا آغاز ’’و‘‘ یعنی ’’اور‘‘ سے ہورہا ہے۔ قاعدے کے لحاظ سے اور سے پہلے کوئی اور بات بھی ضرور چاہیے۔ مثلاً ’’میں سحری کھا چکا ہوں اور میں کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں ماہِ رمضان کے‘‘۔ پھر ’’کل کے روزے کی نیت‘‘ کیا معنی؟ ’’آج کے روزے کی نیت‘‘ کیوں نہیں ؟ قمری حساب سے تو مغرب کے بعد ہی نئے روزے کی تاریخ شروع ہوگئی۔ شمسی کلینڈر کے مطابق بھی رات بارہ بجے سے تاریخ بدل چکی ہے۔ سحری کتنی جلدی بھی کھائیں، رات بارہ بجے کے بعد ہی کھا رہے ہوں گے۔یوں بھی سحری بالکل آخری وقت میں کھانا مستحب ہے۔
٭٭