’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے تازہ شمارے (نمبر 15) میں جناب ریاض احمد چودھری کی تالیف ’’حیاتِ اقبال‘‘ پر منیر ابنِ رزمی کا تبصرہ شائع ہوا ہے۔ بلاشبہ مبصر کے بہ قول: ’’ریاض احمد چودھری کا شمار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سینئر ترین اخبار نویسوں میں ہوتا ہے۔ [وہ] نہایت مہذب اور نستعلیق مزاج۔۔۔ذکاوت اور تیز فہمی کے عناصر [سے مالا مال]۔۔۔ لفظوں کی تہذیب اور ان کے استعمال میں نزاکت کو حد درجہ ملحوظ رکھتے ہیں‘‘۔۔۔۔ کوئی شک نہیں کہ چودھری صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں، مگر رزمی صاحب کی یہ بات محلِ نظر ہے کہ ”وہ بزمِ اقبال میں کسی ستائش کے بغیر ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔‘‘ عرض ہے کہ بزمِ اقبال کی نظامت کا منصب (سرکاری طور پر) ’’اعزازی سیکرٹری‘‘ کا ہے، نہ کہ ’’ڈائریکٹر‘‘ کا۔۔۔۔ خیر، یہ جو ستائش والی بات ہے، بے شک انھیں ستائش کی تمنا نہ ہوگی، مگر صلے کے بغیر تو کام نہیں چلتا، اور چودھری صاحب ’’صلہ‘‘ بصورت ماہ بہ ماہ بہت اچھی معقول تنخواہ پارہے ہیں۔ ستائش نہ ہوگی تو کوئی حرج نہیں۔
یہ کتاب ’’حیاتِ اقبال‘‘ ہمیں بھی دیکھنے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اس میں بہت سی غلطیاں اور تسامحات ہیں، چھوٹی موٹی خامیاں تو ہوتی ہی ہیں اور ماسوا کلام الٰہی، بے عیب کوئی کتاب نہیں ہے، مگر اس میں چند بنیادی نقائص ہیں، مثلاً: ترتیبِ زمانی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ قائدِاعظم کے نام اقبال کے خطوط نقل کرنے کے بعد الٹی چھلانگ لگاکر وہ ’’شکوہ‘‘ (1911ء)، اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ (1913ء) کا تذکرہ کرتے ہیں۔ حوالے نہیں دیے گئے۔ تدوین ٹھیک طریقے سے نہیں ہوسکی۔ حیاتِ اقبال کے مختلف پہلوئوں کے بیان میں تناسب کا خیال نہیں رکھا گیا۔ مبصر نے ان کے اسلوب کی تعریف کی ہے، بجا، مگر خلافِ واقعہ بیانات تو نہیں ہونے چاہئیں، مثلاً: مسجدِ قرطبہ کے تذکرے میں ایسے بے بنیاد بیانات شامل کیے ہیں (ص174۔176) جن کی بار بار تردید ہوچکی ہے۔ کتاب کے جو عنوانات رزمی صاحب نے نقل کیے ہیں، ان میں سے ایک ہے: ’’افغانستان میں اقبال کی آہ و بکا‘‘۔۔۔۔ تبصرہ پڑھنے والوں کو اندازہ نہیں ہوگا کہ اقبال کیوں کر ’’آہ و بکا‘‘ کیا کرتے تھے۔۔۔۔ کتاب کے صفحہ51 پر حسبِ ذیل واقعہ نقل کیا ہے:
اقبال ایک نہایت ظریف الطبع اور خوش مزاج شخصیت تھے۔ 1933ء میں افغانستان کے دورے پر گئے تو وہاں ان کی ملاقات، کابل میں 15برس سے مقیم عبدالمجید اتاشی سے ہوئی۔ اقبال اتاشی پر بہت مہربانی کرتے اور اکثر مذاق کرلیتے تھے۔ ایک دن عبدالمجید نے کہا: دکتور صاحب، کیا اچھا ہو کہ آپ بھی، جیسا کہ لوگ انگلستان سے یادگار کے طور پر بیویاں لے آتے ہیں، افغانستان کا تحفہ ایک افغان خاتون سے شادی کرکے لے جائیں۔ اس پر اقبال کو بہت دل چسپی ہوئی تو مسکراتے ہوئے عبدالمجید سے کہنے لگے: کیا کوئی افغان خاتون مجھ سے شادی کرنا پسند کرے گی؟ مجید: واہ صاحب، آپ جیسے پادشاہِ سخن اور مشہور زمانہ اور یکتائے روزگار کے سامنے سیکڑوں اکابرین اپنی صبیات (بیٹیاں) پیش کردیں گے۔ اقبال: مجید صاحب، یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ مجید: صاحب اگر آپ کا حکم ہو تو میں اس بارے میں کوشش کروں۔ اقبال ہنس کر: مجید صاحب، اگر میں نے افغانی خاتون سے شادی کرلی تو مجھ سے کیسا برتائو کرے گی؟ مجید: برتائو اچھا ہی کرے گی۔ ہاں، منہ نہار آپ کو جگا کر حکم دیا کرے گی: او ڈاکٹر، او ڈاکٹر، برخیز و برائے من چائے تیار کن۔ اقبال دل چسپی سے ہنسے اور کہا: کیا وہ سچ مچ مجھ سے یہ کہے گی کہ اٹھ اور میرے لیے چائے تیار کر؟ مجید: واللہ، وہ ضرور یہ کہے گی اور اس کو ایک وقت بھی چائے نہ ملی تو وہ آپ کی وہ درگت بنائے گی کہ آپ کو نانی یاد آجائے گی۔ ہنس کر فرمانے لگے: مجید! کیا یہ سچ ہے؟ مجید: واللہ ایں درست است۔
جب کبھی تفریح کو دل چاہتا تو اقبال، مجید سے فرماتے: وہ افغان خاتون اور کیا کہے گی؟ مجید: واللہ، بسا اوقات وہ خاتون ناراضگی کے وقت آپ کی تواضع بھی کردے گی۔
ریاض چودھری صاحب نے یہ واقعہ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی کتاب ’’علامہ اقبال کی تابندہ یادیں‘‘ سے نقل کیا ہے۔ ندیم شفیق چند ماہ پہلے فوت ہوگئے۔ خدا ان کو بخشے، انھوں نے یہ واقعہ بلاتحقیق ہی اپنی کتاب میں شامل کردیا تھا۔ اور ہمارے بزرگوار نے بھی بلاتحقیق ہی اسے نقل کردیا ہے۔
علامہ اقبال کی سیرت اور شخصیت پر مطبوعہ کسی کتاب یا مضمون میں یہ واقعہ کہیں نہیں ملتا۔ سید سلیمان ندوی سفرِ افغانستان میں اقبال کے ہم رکاب تھے۔ انھوں نے ’’سیر افغانستان‘‘ کے نام سے پورے دورۂ افغانستان کی روداد قلم بند کی ہے۔ اس میں بھی یہ واقعہ نہیں ہے۔ بذاتِ خود یہ واقعہ علامہ اقبال کے مزاج اور طبیعت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کے منصب سے فروتر ہے کہ وہ ایک افغان خاتون سے خیالی شادی کرکے چسکے لے لے کر ایسی باتیں کریں۔ پھر عبدالمجید اتاشی پتا نہیں کون صاحب تھے۔ ’’سیر افغانستان‘‘ میں کہیں ان کا نام نہیں آیا۔ تعجب ہے کہ وہ بھی اقبال سے اتنے بے تکلف ہوگئے جیسے اقبال ان کے لنگوٹیا تھے اور وہ اپنے لنگوٹیا یار سے کہہ رہے ہیں: وہ خاتون آپ سے چائے بنوائے گی اور اگر اسے ایک وقت چائے نہ ملی تو وہ آپ کی وہ درگت بنائے گی کہ آپ کو نانی یاد آجائے گی۔
چودھری صاحب نے ص 265 پر ایک اور(حسبِ ذیل) بے بنیاد بیان شامل کیا ہے: ’’مسعودالحسن لکھتے ہیں: میں 1930ء میں لاہور آیا تو داتا گنج بخش کے مزار کے قریب رہائش اختیار کی۔ علّامہ اقبال اُن دنوں اکثر نمازِ فجر سے قبل داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے، جہاں میری ان سے ملاقات رہتی تھی۔ میں نے علّامہ صاحب کے ارشاد کے مطابق ان کے لیے انگریزی میں کچھ کام کیا اور ان کی تقاریر لکھنے میں بھی مدد کی جن میں خطبۂ الٰہ آباد بھی شامل ہے۔‘‘۔۔۔۔ لیجیے صاحب، ہمیں اندازہ ہی نہ تھا کہ علّامہ اقبال کن مشکلات سے گزرے۔ انگریزی تو وہ ٹھیک طریقے سے لکھ نہیں سکتے تھے، مسعودالحسن ان کی مدد کو آئے۔ اگر وہ علّامہ کی مدد نہ کرتے تو خطبۂ الٰہ آباد وجود میں نہ آتا۔۔۔۔ پھر نماز فجر سے قبل داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری، یہ ایک انکشاف ہے۔ کسی بھی سوانح نگار یا اقبال کے ملفوظات میں کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ یوں بھی بعید ہے کہ اقبال سحری کے وقت اُٹھ کر داتا دربار جاتے ہوں اور ان کی صحت بھی ایسی نہ تھی۔
اقبال زیادہ تر گھر ہی پر نماز ادا کرتے تھے۔ قریبی مساجد میں جانے کی شہادت نہیں ملتی۔ اُن دنوں علّامہ میکلوڈروڈ پر رہتے تھے۔ (یہ مکان محکمۂ آثار قدیمہ کی تحویل میں ہے، اور اقبال اکادمی نے یہاں اپنی مطبوعات کا ذخیرہ کررکھا ہے۔) وہاں سے چل کر لکشمی چوک، نسبت روڈ، گوالمنڈی، بانسانوالہ بازار، سرکلر روڈ، بھاٹی اور داتا دربار۔ اقبال کے لیے اتنا لمبا فاصلہ طے کرنا اور وہ بھی سحری کے وقت، ناممکن۔ ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کی افتادِ طبع رکھنے والے اقبال پر یہ ایک تہمت ہوگی۔ راقم مسعودالحسن کے حدودِ اربعہ سے واقف نہیں، نہ چودھری صاحب نے بتایا کہ وہ کون تھے؟ البتہ یہ معلوم ہے کہ انھوں نے علّامہ کی زندگی پر دو جلدوں پر مشتمل انگریزی میں ایک کتاب لکھی ہے اور اسی میں داتا دربار جانے والی حکایت ٹانکی ہے۔
ایک اور بات مجھے بہت بری لگی۔ مؤلّف نے ’’انتساب‘‘، پنجاب کے وزیرِاعلیٰ سردار عثمان احمد خان بزدار کے نام کیا ہے۔ اسی صفحے پر نہایت مبالغے کے ساتھ بزدار صاحب کی تعریف و توصیف بھی کی ہے۔ اگلے صفحے پر ان کا ’’پیغام‘‘ بھی شامل ہے۔ اگلے صفحات میں جناب مجیب الرحمان شامی اور پنجاب یونی ورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر کے پیغامات شامل ہیں، جن میں ریاض احمد چودھری صاحب کی توصیف کی گئی ہے، جس کا معنی ہے کہ یہ دونوں فاضل حضرات بھی کتاب میں خلافِ واقعہ بیانات اور غلطیوں کی کی تصدیق کررہے ہیں۔ انتساب اور پیغامات والے صفحے اعلیٰ درجے کے آرٹ پیپر پر شائع ہوئے ہیں۔