امت ِمسلمہ اورمغربی تہذیب کا چیلنج

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ ہم اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ یہ پاکستان کے جوہری پروگرام کا گلا گھونٹنے اور پاکستان کی مالی خودمختاری پر شب خون مارنے کے مترادف ہے جس کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی ’’گو آئی ایم ایف گو‘‘ تحریک چلائے گی اور قومی مجلسِ مشاورت منعقد کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ ملک کی تمام جماعتوں کو اس سلسلے میں سیاسی اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہوکر لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ٹیپو سلطان بنیں گے، مگر عملاً وہ بہادر شاہ ظفر کے راستے پر چل رہے ہیں۔ سراج الحق نے کہا کہ حکومت نے اسٹیٹ بینک کو اس طرح آئی ایم ایف کے حوالے کیا ہے کہ اب عملاً اسٹیٹ بینک کا گورنر یہاں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی طرف سے وائسرائے ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کا گورنر ہماری پارلیمنٹ اور عدالت کو جواب دہ نہیں ہوگا، اس پر ہمارے ملکی قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا، اور آڈیٹر جنرل پاکستان بھی اس کا آڈٹ نہیں کرسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب سرکاری ملازمین، یہاں تک کہ مسلح افواج کی تنخواہیں اور دفاعی انتظامات کے لیے رقوم دینے کا فیصلہ بھی اسٹیٹ بینک ہی کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس صورتِ حال کے خلاف قومی سطح کی تحریک چلائیں گے۔
جماعت اسلامی کے امیر کا یہ مربوط اور جامع مؤقف قوم کے دل کی آواز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا مؤقف جماعت اسلامی کا امیر ہی اختیار کرسکتا ہے، ورنہ ملک کی تین بڑی جماعتیں نواز لیگ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی تو خود آئی ایم ایف کی جیب میں پڑی ہوئی جماعتیں ہیں۔ چنانچہ سراج الحق صاحب کو اس جامع اور جرأت مندانہ مؤقف پر جتنی داد دی جائے کم ہے، لیکن ہمیں اس سلسلے میں اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان یا امتِ مسلمہ کا اصل چیلنج آئی ایم ایف نہیں ہے۔ امتِ مسلمہ کا اصل چیلنج امریکہ اور اُس سے بھی آگے بڑھ کر جدید مغربی تہذیب ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک زمانے میں جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے ’’گو امریکہ گو‘‘ تحریک شروع کی تھی۔ اس تحریک کی سطح ’’گو آئی ایم ایف گو‘‘ سے بلند تھی، مگر امریکہ بھی امتِ مسلمہ کا اصل چیلنج نہیں ہے۔ امت کا اصل چیلنج مغربی تہذیب ہے۔ دینِ اسلام کے پیروکاروں اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کی حیثیت سے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں مغربی تہذیب کی مونچھیں نہیں کاٹنی، ہمیں اس کا سر کاٹنا ہے۔ آئی ایم ایف مغربی تہذیب کی مونچھ ہے اس کا سر نہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں انبیا و مرسلین اور مجددین کی سنت پر ایک طائرانہ نظر ڈال لینی چاہیے۔
انبیا و مرسلین نے ہمیشہ دو کام کیے۔ ایک یہ کہ انہوں نے بتایا کہ حق کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ اپنی قوم کو بتایا کہ ان کے زمانے کا باطل کون ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ صرف باطل کی نشاندہی کرکے نہیں رہ گئے، بلکہ انہوں نے باطل کو عملاً چیلنج بھی کیا۔ سیدنا ابراہیم ؑ کے پاس نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ لاکھوں پیروکار تھے۔ وہ صرف ’’ایک فرد‘‘ تھے، مگر ایک فرد ہونے کے باوجود انہوں نے نمرود کو چیلنج کیا۔ انہوں نے نمرودیت کی کسی شاخ، کسی گوشے پر حملہ نہیں کیا۔ انہوں نے نمرود کی حکومت، فوج یا دربار کو نشانہ نہیں بنایا… انہوں نے نمرود اور اس کے کفر پر حملہ کیا۔ سیدنا موسیٰؑ بھی ایک فرد تھے۔ ان کے پاس بھی نہ حکومت تھی، نہ فوج تھی، نہ ریاست تھی، نہ پیروکاروں کی کثیر تعداد تھی۔ وہ تھے اور ان کے بھائی سیدنا ہارونؑ تھے، مگر فرد ہوکر بھی سیدنا موسیٰؑ نے فرعون اور اس کی طاقت کو چیلنج کیا۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کے بندوبست کے کسی ایک حصے کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ فرعون اور اُس کی اصل پر حملہ کیا۔ سیدنا ابراہیم ؑ نے چونکہ نمرود کی اصل پر حملہ کیا تھا اس لیے اُس نے سیدنا ابراہیم ؑ کو زندہ جلا دینے کی سازش کی، اور اگر اللہ تعالیٰ نے ایک معجزے کے ذریعے سیدنا ابراہیم ؑ کو نہ بچایا ہوتا تو نمرود نے سیدنا ابراہیم ؑ کو زندہ جلا ڈالنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ موسیٰ ؑ نے چونکہ فرعون کی ذات اور اُس کے کفر پر حملہ کیا اس لیے اُس نے بھی سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم کو جان کے خطرے سے دوچار کیا، اور اگر اللہ تعالیٰ ایک معجزے کے ذریعے حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو نہ بچاتا تو فرعون نے سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم کو فنا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے عہد کے باطل اور اُس کے بنیادی تصورات کو چیلنج کیا۔ آپؐ نے کفر اور شرک پر بھرپور حملہ کیا۔ چنانچہ آپؐ کے زمانے کا باطل بھی آپؐ کی جان کے درپے ہوگیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حق کی بالادستی کی جدوجہد حکومت، ریاست اور فوج کے بغیر تن تنہا اور بعدازاں چند رفقا کے ساتھ کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک معجزے کے ذریعے بچایا، ورنہ مکہ کے کفار اور مشرکین آپؐ کے گھر کا محاصرہ کرکے کھڑے ہوگئے تھے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو سیدنا ابراہیم ؑ نے بھی باطل تہذیب کو مٹایا، سیدنا موسیٰ ؑ نے بھی باطل تہذیب کو زیرو زبر کیا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی باطل کے پورے تہذیبی تجربے کو فنا کیا۔
برصغیر میں مغل سلطنت اسلام سے ہٹ تو نہیں گئی تھی، مگر اس کے مزاج میں ایک حد تک باطل پرستی درآئی تھی۔ اکبر نے تو دینِ الٰہی کے نام سے ایک نیا دین بھی ایجاد کر ڈالا تھا۔ جہانگیر کے زمانے میں دربار کے اندر ایسی چیزیں رائج تھیں جو خلافِ اسلام تھیں، چنانچہ مجدد الف ثانیؒ نے کسی ریاست، حکومت اور فوج کے بغیر ایک فرد ہوتے ہوئے بھی جہانگیر کو چیلنج کیا۔ انہوں نے جہانگیر سے کہاکہ تمہارے دربار میں سجدۂ تعظیمی رائج ہے جو خلافِ اسلام ہے، اس لیے کہ ایک مسلمان کا سر خدا کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ گائے کا ذبیحہ حلال ہے مگر تم نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ جہانگیر بادشاہِ وقت تھا، وہ ایک درویش اور فقیر کی باتیں سن کر ناراض ہوگیا اور اس نے مجدد الف ثانیؒ کو جیل میں ڈال دیا۔ لیکن بالآخر اس پر مجدد الف ثانیؒ کی عظمت ظاہر ہوئی تو اُس نے مجدد الف ثانیؒ کو رہا کردیا اور ان کے دونوں مطالبات کو تسلیم کرلیا۔
اقبال مجدد تو نہیں تھے مگر مجددانہ فکر کے وارث ضرور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی بے مثال شاعری میں جدید مغربی تہذیب کو کھل کر چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے مغربی تہذیب کی مونچھیں یا ہاتھ پائوں کاٹنے کے بجائے اس کا سر کاٹنے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کا سب سے اہم اردو مجموعہ ’’ضربِ کلیم‘‘ ہے، اور اقبال نے اس مجموعے کے نام کے نیچے یہ فقرہ لکھنا ضروری سمجھا:
’’یعنی جنگ دورِ حاضر کے خلاف‘‘
اقبال کے اس فقرے میں دورِ حاضر سے مراد مغربی تہذیب ہے، اس لیے کہ دورِ حاضر جدید مغربی تہذیب کا پیدا کردہ ہے۔ اقبال کو جدید مغربی تہذیب سے ایسی نفرت تھی اور وہ اس کے زوال کے ایسے آرزومند تھے کہ جب مغربی تہذیب کا سورج نصف النہار پر تھا تو اقبال اس کے بارے میں کہہ رہے تھے:
دریارِ مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
بلاشبہ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کرنے والی تھی، مگر اقبال مغربی تہذیب کی اصل سے آگاہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا:
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کے زمانے میں مغرب کے علم و دانش اور تعلیم نے ایک طوفان اٹھایا ہوا تھا، اور مغرب انہی چیزوں کی وجہ سے دنیا کا امام بنا ہوا تھا، مگر اقبال ایک وجد کی کیفیت میں فرما رہے تھے:
دانشِ حاضر حجاب اکبر است
بت پرست و بت فروش و بت گر است
دنیا مغربی تہذیب کے علم کی ’’رسائی‘‘ پر اش اش کررہی تھی، مگر اقبال مغرب کی دانش کو حجابِ اکبر یا سب سے بڑا پردہ کہہ رہے تھے۔ وہ فرما رہے تھے کہ یہ دانش بت پرست ہے، بت فروش ہے اور بت بنانے والی ہے۔ اقبال نے مغرب کی گردن پر حملے کرتے ہوئے مزید فرمایا:
محسوس پر بِنا ہے علومِ جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
……٭٭٭……
تعلیم پیر فلسفۂ مغربی ہے یہ
ناداں ہے جس کو ہستیِ غائب کی ہے تلاش
اقبال کہہ رہے تھے کہ مغربی علوم صرف حواس پر کھڑے ہیں، ان کا وحی کی روایت سے کوئی تعلق نہیں، چنانچہ یہ علوم مسلمانوں کے عقائد کے لیے سخت خطرناک ہیں۔ اقبال کے نزدیک مغربی تعلیم کا فلسفہ اُس شخص کو ’’نادان‘‘ کہتا ہے جو ہستیِ غائب یعنی خدا کی تلاش کرتا ہے۔
مغرب پوری دنیا کو ’’وحی پرستی‘‘، ’’عشق پرستی‘‘ اور ’’دل پرستی‘‘ کے بجائے عقل پرستی سکھا رہا تھا، اور اقبال اپنی شاعری میں مغرب کے تصورِ عقل کا مذاق اڑا رہے تھے، اسے حقیر ثابت کررہے تھے، وہ کہہ رہے تھے:
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
……٭٭٭……
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
……٭٭٭……
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
……٭٭٭……
عقل بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات
……٭٭٭……
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
نشانِ راہ ہے منزل نہیں ہے!
……٭٭٭……
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک
……٭٭٭……
تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور
ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اعراف
مولانا مودودیؒ کے مجددِ وقت ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔ مولانا نے انبیا اور مجددین کی سنت کے مطابق دو کام کیے۔ انہوں نے ایک طرف یہ بتایا کہ حق کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے، دوسری جانب انہوں نے اپنے زمانے کے دو باطل نظاموں یعنی سوشلزم اور سرمایہ داری کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ ان کے خلاف بے مثال فکری اور عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ مولانا نے جدید مغربی تہذیب کے خلاف اتنی سخت زبان استعمال کی کہ اتنی سخت زبان تو انہوں نے سوشلزم کے خلاف بھی استعمال نہیں کی۔ مولانا نے جدید مغربی تہذیب کو ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ قرار دیا (تجدید و احیائے دین۔ صفحہ 114)۔ مولانا نے جدید مغربی تہذیب کو ’’تخمِ خبیث‘‘ اور ’’شجرِ خبیث‘‘ قرار دیا۔ (تنقیحات، صفحہ 45)
یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ کراچی میں ادارۂ معارف اسلامی مولانا نے اپنی جیبِ خاص سے رقم صرف کرکے قائم کیا تھا۔ مولانا نے ادارۂ معارف اسلامی کراچی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ادارے کے تین اہداف کی نشاندہی کی۔ مولانا نے فرمایا:
’’(1) سب سے پہلا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفۂ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے اس کو توڑا جائے۔
(2) جو دوسرا کام کرنا ہے وہ یہ کہ اسلامی نقطہ نظر سے تمام علوم کو نئے اسلوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے، تاکہ وہ ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔
(3) تیسرا کام ہمارے سامنے یہ ہے کہ ایک نصاب مرتب کیا جائے جو اس طرز پر تعلیم کے قابل کتابیں تیار کرے۔‘‘
(تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار۔ صفحہ 18، 19، 25)
مولانا کی تصانیف کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مولانا نے جدید مغربی تہذیب کو چار بنیادوں پر یکسر رد کیا ہے۔ یعنی
(1) الٰہیات
(2) تصورِ علم
(3) تصورِ تخلیق
(4) زندگی کی حتمی قدر کا تعین
مولانا مودودی نہ صرف یہ کہ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے تصادم سے آگاہ تھے، بلکہ وہ اس تصادم کے ’’مضمرات‘‘ سے بھی پوری طرح آگاہی رکھتے تھے۔ مولانا نے ایک جگہ لکھا:
’’مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا اُن میں بعض تو وہ تھیں جن کی کوئی مستقل تہذیب نہ تھی۔ بعض وہ تھیں جن کے پاس تہذیب تو تھی مگر ایسی مضبوط نہ تھی کہ کسی دوسری تہذیب کے مقابلے پر اپنے خصائص کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی۔ بعض وہ تھیں جن کی تہذیب اپنے اصول میں اس آنے والی تہذیب سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ ایسی تمام قومیں بہت آسانی کے ساتھ مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ گئیں اور کسی شدید تصادم کی نوبت نہ آئی۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ مسلمان ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک ہیں۔ ان کی تہذیب اپنا ایک مکمل ضابطہ رکھتی ہے جو فکری اور عملی اعتبار سے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ مغربی تہذیب کے اساسی اصول کلیتہً اس تہذیب کے مخالف واقع ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں، اور ان کے تصادم سے مسلمانوں کی اقتصادی اور عملی زندگی کے ہر شعبے پر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے‘‘۔
(تنقیحات، صفحہ 10، ایڈیشن 19)
مولانا نے ایک اور جگہ فرمایا:
’’اس کا (یعنی مغرب کا) نظریہ اسلام کی ضد ہے۔ اس کا راستہ اُس راستے کے عین مخالف سمت میں ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ اسلام جن چیزوں پر انسانی اخلاق و تمدن کی بنیاد رکھتا ہے اُن کو یہ تہذیب بیخ و بن اکھاڑ دینا چاہتی ہے، اور یہ تہذیب جن بنیادوں پر انفرادی و اجتماعی نظام کی عمارت تعمیر کرتی ہے اُن پر اسلام کی عمارت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹھیر سکتی۔ گویا اسلام اور مغربی تہذیب دو ایسی کشتیاں ہیں جو بالکل مخالف سمتوں میں سفر کررہی ہیں، جو شخص ان میں سے کسی ایک کشتی پر سوار ہوگا اسے لامحالہ دوسری کشتی کو چھوڑنا پڑے گا، اور جو بیک وقت دونوں پر سوار ہوگا اس کے دو ٹکڑے ہوجائیں گے‘‘۔
مولانا کے ان خیالات سے ظاہر ہے کہ اسلامی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کا تصادم جزوی نہیںکلی ہے، چنانچہ مغربی تہذیب کی مونچھیں کاٹنے سے کچھ نہ ہوگا، ہمیں اس کی گردن ہی کاٹنی ہوگی۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ ہماری ہر چیز مغرب سے آئی ہوئی ہے۔ ہمارا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہے، ہمارا معاشی نظام مغرب کی عطا ہے، ہمارا عدالتی نظام مغرب کے اصولوں پر چل رہا ہے۔ ہم مغرب کی فلمیں دیکھ رہے ہیں، مغرب کی موسیقی سن رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں اورخواب بھی مغرب سے آرہے ہیں۔ اس صورت میں اسلام ہرگز بھی ہمارا تہذیبی تجربہ نہیں بن سکتا۔ چنانچہ ہمیں آج نہیں تو کل ’’گو مغربی تہذیب گو‘‘ کی تحریک شروع کرنی ہوگی۔