پی ڈی ایم کا داخلی بحران مسلم لیگ (ن) میں مفاہمت اور مزاحمت کی کش مکش

مسلم لیگ (ن) اِس وقت پی ڈی ایم سمیت خود اپنی جماعت کے داخلی محاذ پر بڑے بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف نوازشریف اور مریم نواز ہیں، تو دوسری جانب شہباز شریف اور حمزہ شہباز ہیں۔ ایک سطح پر اسے خاندان کی سیاسی جنگ بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن دوسری طرف لوگ اسے مفاہمت اور مزاحمت کے درمیان جنگ بھی قرار دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جو کچھ مریم نواز نے کیا اُس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں ایک گروپ ایسا ہے جو سمجھتا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں شہبازشریف کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یعنی مفاہمت کی جانب پیش قدمی کرنا ہوگی۔ اگرچہ بہت سے سیاسی تجزیہ نگار بار بار مسلم لیگ (ن) میں سے ’ش‘ کی بات کرتے ہیں، لیکن مسئلہ ’ن‘ یا ’ش‘ کا نہیں بلکہ اُس لڑائی کا ہے جو نوازشریف اور مریم نواز نے چھیڑی ہوئی ہے۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو کچھ پیپلز پارٹی نے کیا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ جو لوگ بھی سیاسی حالات کاادراک رکھتے ہیں اُن کو اندازہ تھا کہ یہ دونوں سیاسی قوتیں ایک دوسرے کو سیاسی طور پر استعمال کرکے اقتدار کی سیاست میں حصے داری چاہتی ہیں۔ اس لیے اب مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے خلاف جو سیاسی ماتم کررہی ہے وہ اس کی سیاسی ناتجربہ کاری یا سیاسی مجبوریاں تھیں کہ وہ پیپلزپارٹی کے سیاسی کارڈ یا سیاسی چالوں کو سمجھنے سے قاصر رہی۔ مسلم لیگ (ن) کو ایک سیاسی دھچکہ پیپلز پارٹی سے لگا ہے، اور اس پر مسلم لیگ (ن) کا شدید ردعمل جائز ہے، لیکن مستقبل میں کچھ ایسا ہی زخم مسلم لیگ (ن) کو مولانا فضل الرحمٰن سے بھی لگ سکتا ہے۔ کیونکہ اگر پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کو اپنے حق میں استعمال کرسکتی ہے تو یہی کام مولانا فضل الرحمٰن بھی کرسکتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) کی تنقید اپنی اتحادی جماعتوں پر جائز ہے؟ یقیناً نہیں۔ کیونکہ خود مسلم لیگ (ن) بھی پسِ پردہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے سیاسی معاملات طے کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے، یہ عمل اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ سے عملی طور پر مفاہمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ اتحادی سیاست کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اتحادکے مقاصد سے زیادہ اپنے جماعتی یا ذاتی مفادکو اہمیت دیتی ہیں۔ بہرحال پیپلز پارٹی کے سیاسی کارڈ کے بعد اب بہت حد تک مسلم لیگ (ن) جوابی سیاسی حکمت عملی کے تحت خود کو حقیقی حزبِ اختلاف اور سیاسی سول بالادستی کی جنگ کے بیانیے سے جوڑ رہی ہے۔ اس کے بقول وہ پیپلز پارٹی کے بغیر بھی یہ سیاسی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ پی ڈی ایم میں رہتی ہے یا اُس کے ساتھ چلتی ہے تو اسے یقینی طور پر اپنی مزاحمت کی سیاست ترک کرکے مفاہمانہ انداز اپنانا ہوگا، بصورتِ دیگر پیپلز پارٹی کا مفاہمتی کارڈ زیادہ غالب ہوگا۔ لیکن اگر مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپنی حکومت مخالف تحریک چلاتی ہے تو اس صورت میں اُس کا بڑا انحصار مولانا فضل الرحمٰن پر ہوگا، اور اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کچھ چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر متبادل قسم کی حزبِ اختلاف کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔ یعنی مستقبل میں ایک جھلک یہ دیکھنے کو مل سکتی ہے کہ کون حقیقی حزبِ اختلاف ہے اور کون اسٹیبلشمنٹ کے سہارے خود کو حزب اختلاف کے طور پر پیش کررہا ہے۔
سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر علیحدہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اور پی ڈی ایم نے پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کی تقرری پر اتحاد سے وفاداری نہ کرنے کے الزام میں شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے عملی طور پر پیپلزپارٹی کے بارے میں فیصلہ کرلیا ہے کہ ہمیں اُس سے علیحدہ شناخت کے طور پر اپنے اتحاد کو چلانا ہے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی نے اشارہ دیا ہے کہ اب وہ مریم نواز یا نوازشریف کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) میں شہبازشریف یا حمزہ شہباز سے رابطہ کرے گی۔ پیپلزپارٹی کی حکمت عملی بھی مسلم لیگ (ن) کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی نظر آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم یا مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو تو شوکاز نوٹس جاری کردیا، لیکن مسلم لیگ (ن) یہ بتانے سے قاصر ہے کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ اُس نے پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر اپنے اپنے سینیٹرز بلامقابلہ منتخب کروا لیے۔
مسلم لیگ (ن) کو اگر اپنی جماعتی سیاسی طاقت کی بنیاد پر ’’بیانیے کی جنگ‘‘ لڑنی ہے تو اس کے راستے میں بڑی رکاوٹ اس کا اپنا جماعتی داخلی بحران ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) متحد ہے اوراس میں کوئی بڑی تقسیم نہیں، لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے جڑے اہم راہنمائوں میں حکمتِ عملی کی بنیاد پر ایک بڑی تقسیم اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو یا مفاہمت کے معاملے پر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں پارٹی میں نوازشریف اور شہبازشریف کے حامیوں کے درمیان سیاسی حکمت عملی یا مزاحمت اور مفاہمت کے درمیان واضح فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ شہبازشریف اور اُن کے بیٹے حمزہ شہباز واضح طور پر اورکھل کر نوازشریف اور مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف رکھتے ہیں جو ان کے خیال میں ٹکرائو پر مبنی ہے۔ فی الحال نوازشریف اور مریم نواز پیپلزپارٹی کی جانب سے استعفے نہ دینے کے معاملے پر خاصے برہم نظر آتے ہیں۔ لیکن اوّل تو یہ بات بہت حد تک یقینی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا کارڈ کھیل کر سیاسی خودکشی نہیں کرے گی، لیکن اگر اس نے یہ کارڈ کھیلنے کی کوشش کی تو اسے خود اپنی جماعت کے اندر سے مزاحمت دیکھنے کو ملے گی، کیونکہ مسلم لیگ (ن) میں ایک بڑا دھڑا استعفوں کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کرے گا۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے محاذ پر شہبازشریف اور حمزہ شہباز زیادہ سرگرم نظر آئیں۔ ایک دلچسپ صورتِ حال یہ بھی بنی ہے کہ پیپلز پارٹی جو مفاہمت کی سیاست کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، وہ بھی مسلم لیگ (ن) میں شہبازشریف اور حمزہ شہباز سے سیاسی پینگیں بڑھا کر ان کے ساتھ چلنے کی خواہش مند ہے، تاکہ ان حالات میں مفاہمت کا کارڈ ہی آگے بڑھایا جاسکے۔
اگر واقعی مسلم لیگ (ن) سمیت سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی بڑی سیاسی تحریک چلانی ہے تو اس کے لیے پہلے ان کو اپنے داخلی نظام کی کمزوریوں کا ضرور تجزیہ کرنا چاہیے۔ ایک کمزور سیاسی و جماعتی ڈھانچے اور مختلف سطحوں پر تضادات کی موجودگی میں کسی بڑی تحریک کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں جب نوازشریف اورمریم نواز کھل کر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو، اور پارٹی کے صدر شہبازشریف مفاہمت کی سیاست کو بنیاد بنانا چاہتے ہیں، ان کی تحریک میں سیاسی حکمت عملی کا یہ تضاد خود ان کی سیاسی ناکامی کے لیے کافی ہے۔ مریم نواز اپنے والد نواز شریف کے متبادل کے طور پر خود کو پیش کرتی ہیں اوران کی مقبولیت بھی کافی ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ اگر کسی کو نوازشریف کے بعد پارٹی کے کسی لیڈر سے بات کرنی ہے تو اسے مجھ سے بات کرنا ہوگی اورمیں ہی فیصلے کا اختیار رکھتی ہوں۔یہ سوچ یقینی طور پر شہباز شریف کو قبول نہیں ہوگی۔
مریم نواز نے اپنی مقبولیت کے باوجود جذباتیت پر مبنی سیاست اور فوری ردعمل دینے کی حکمت عملی سے اپنی جماعت کو فائدہ کم اورنقصان زیادہ پہنچایا ہے۔ اسی طرح نوازشریف اور مریم نواز کی اداروں اور ان کے سربراہان پر براہِ راست تنقید پر اُن کی اپنی پارٹی سمیت پی ڈی ایم میں شامل کئی جماعتوں کے تحفظات ہیں۔ ان کے بقول مریم نواز کا یہ انداز پاپولر کارڈ تو ہوسکتا ہے لیکن اس سے سیاسی طور پر ان کو بھی اور ان کے اہم اتحادیوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب اگر پیپلزپارٹی سے مسلم لیگ (ن) فاصلے رکھتی ہے یا اُسے پی ڈی ایم سے علیحدہ کرنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں حکومت گرانا یا عمران خان کو گھر بھیجنا کم از کم پارلیمنٹ سے تو ممکن نہیں ہوگا۔ جہاں تک عوامی جدوجہد یا ایسی تحریک جو حکومت کی رخصتی کا سبب بن سکے، اس کا امکان بھی سولو فلائٹ میں ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں حکومت کا جانا اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اسٹیبلشمنٹ کچھ تبدیل کرنا چاہے۔
مسلم لیگ (ن) اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ پوری پی ڈی ایم کو اپنی سیاسی ڈکٹیشن کی بنیاد پر چلاسکتی ہے تو یہ بھی ممکن نہیں۔ پہلے ہی مولانا فضل الرحمٰن کو گلہ ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں لیکن بڑے فیصلے یا اس اتحادکی سیاسی اجارہ داری میں پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) پیش پیش ہیں اور ان کو بہت سے امور میں سیاسی طور پر تنہا رکھا جاتا ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کو باہر نکال کر بھی پی ڈی ایم کو اپنے ایجنڈے پر چلانا مسلم لیگ (ن) کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ کیونکہ جو لب ولہجہ نوازشریف اورمریم نواز کا ہے اس پر سوائے فضل الرحمٰن کے باقی پی ڈی ایم کی ساری قیادت خاصے فاصلے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے دس جماعتی اتحاد میں شامل جماعتیں ٹکرائو کے اس بیانیے کو مسلم لیگ (ن) میں نوازشریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کا بیانیہ کہتی ہیں۔
عملی طور پر مسلم لیگ (ن) مفاہمت اور مزاحمت کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک کی بڑی کامیابی سیاسی سطح پر موجود دو مضبوط جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا باہمی اشترا ک تھا۔ لیکن اب یہ باہمی اشتراک کمزور ہوا ہے اور اپنی اہمیت بھی کھورہا ہے، عملی طور پر پی ڈی ایم نہ صرف تقسیم ہوگیا ہے بلکہ یہ ایک مردہ حیثیت میں رہ گیا ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے سیاسی آپشن محدود ہیں اور اسے تنِ تنہا کوئی بڑی جنگ لڑنی ہوگی، لیکن یہ جنگ داخلی تضاد کو ختم کیے بغیر جیتنا ممکن نہیں ہوگا، اورآنے والے دنوں میں جماعتی سطح پر مزاحمت اورمفاہمت کے درمیان خود مسلم لیگ (ن) میں ٹکرائو ہوگا،اور اس ٹکرائو کی صورت میں دیکھنا ہوگا کہ کون سا گروہ برتری حاصل کرتا ہے۔اگر واقعی مریم نواز باہر جانے کی حکمت عملی اختیار کرتی ہیں توان کا باہر جانا دراصل مسلم لیگ (ن) میں مفاہمت کے حامل گروہ کی کامیابی ہوگی۔
nn