بلوچستان کی سیاست میں بلوچ قوم پرستوں کے تضادات اتنے ہمہ گیر تھے کہ اس سے کوئی بچ نہ سکا، اور انہوں نے ایک دوسرے کو گرانے میں پوری قوت صرف کردی۔ 1954ء سے لے کر 1970ء کا عرصہ ان کے لیے ایک اہم دور تھا۔ جب تضادات نے ان کے گرد گھیرا ڈالا تو وہ خزاں رسیدہ پتّوں کی طرح بکھر گئے۔ یہ انجام بھی بڑا عبرت ناک تھا۔ بلوچستان کے 3 سرداروں کا عروج تھا اور ان کے اثرات تھے۔ نواب اکبر خان بگٹی، نواب خیر بخش خان مری اور سردار عطاء اللہ مینگل، یہ تینوں بلوچ قوم پرستوں کے آئیڈیل لیڈر تھے۔ نواب خیر بخش خان مری کمیونسٹ رجحان کے حامی تھے، نواب بگٹی لبرل، آزاد خیال اور قوم پرست تھے، وہ کمیونسٹ رجحان کے حامی نہ تھے۔ سردار مینگل ایک بلوچ قوم پرست رہنما تھے۔ نوجوان زیادہ تر نواب مری سے متاثر تھے۔ ان نوجوانوں کے لیے وہ چی گویرا تھے۔ 1972ء کے بعد ان تینوں کی راہیں دھیرے دھیرے جدا ہوتی گئیں۔ نواب مری افغانستان چلے گئے، سردار مینگل لندن چلے گئے، نواب بگٹی کوئٹہ میں رہے۔ نواب کے دورِ گورنری نے ان پر منفی اثرات زیادہ مرتب کیے۔ 1980ء میں یہ تینوں ایک بار اکٹھے ہوئے اور تینوں نے مل کر فوٹو سیشن کیے۔ یہ دن ان کی قوم پرست سیاست کا آخری باب تھا جو بند ہونے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ نواب مری پارلیمانی سیاست سے نکل گئے تھے اور افغانستان میں جنرل نجیب کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی تمام خواہشات اور خواب خزاں کے پتّوں کی طرح ہوا میں بکھر گئے۔ 1988ء میں نواب بگٹی اور سردار عطاء اللہ مینگل اکٹھے ہوکر الیکشن لڑ رہے تھے۔ سردار مینگل اُن دنوں لندن میں تھے، سردار اختر مینگل قیادت کررہے تھے اور انتخابات کے دوران نواب بگٹی کے قریب آگئے تھے۔ ان دونوں کا ملاپ قوم پرست سیاست کا ایک اور بڑا المیہ تھا، کیونکہ یہ دونوں میر غوث بخش بزنجو کو شکست دینے کے لیے متحد ہوئے تھے۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے ایک انتہائی سخت خط اختر مینگل کو دیا، انہوں نے نواب بگٹی کی موجودگی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ خط پڑھ کر سنادیا۔ بلوچ قوم پرستوں کو یقین نہیں آیا کہ سردار مینگل ایسا خط غوث بخش بزنجو کو لکھ سکتے ہیں! جب سردار عطاء اللہ مینگل لندن سے کوئٹہ آئے تو ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ یہ خط میں نے لکھا تھا تو قوم پرستوں کے لیے بڑا صدمہ تھا۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سربراہ تھے۔ بی ایس او کے تمام سابق طالب علم لیڈر اس پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوگئے تھے۔ نواب بگٹی نے اُس وقت تک کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی۔ یوں ڈاکٹر حئی بلوچ کی صدارت میں یہ عجیب و غریب معاہدہ ہوا تھا۔ اس پر سردار اختر مینگل اور نواب بگٹی میں زبردست کشمکش پیدا ہوگئی۔ معاہدے میں طے ہوا تھا کہ پہلے نصف عرصے میں سردار اختر مینگل حکومت کریں گے، اور دوسری مدت میں نواب بگٹی کی پارٹی وزارتِ اعلیٰ لے گی۔ اکبر بگٹی اور سردار عطاء اللہ مینگل میں کشمکش پیدا ہوگئی اور ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔ پورے ملک میں حکومتوں کو توڑ دیا گیا۔ یوں دونوں قوم پرستوں کی سیاست کا آخری باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ یہ قوم پرست سیاست کا ایک اور المناک انجام تھا جو تاریخ میں رقم ہوگیا۔ ان دو قوم پرست سرداروں نے ایک المناک باب رقم کیا، ان دونوں نے میرغوث بخش بزنجو کو قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر عبرت ناک شکست دی۔ یہ میر غوث بخش کی سیاست کا ایک المناک باب تھا۔ بی ایس او کے نوجوانوں نے اپنے سیاسی گرو کو شکست سے ہم کنار کیا۔ یہ میر غوث بخش بزنجو کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا اور وہ اس کو برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے بی ایس او کے نوجوانوں سے ملنا بھی چھوڑ دیا تھا اور BSO کی سرپرستی شروع کردی تھی۔
یہ قوم پرست سیاست کا ایک المناک باب تھا جس کے اثرات دور تک گئے۔ میر غوث بخش بزنجو کو کینسر ہوگیا اور انہوں نے کراچی میں وفات پائی۔ اس خبر کے بعد میں رات کو نواب بگٹی کے پاس گیا اور اُن سے پوچھا کہ کیا آپ جنازے میں جائیں گے؟ نواب بگٹی نے کہا کہ میری بہن فوت ہوئی تو میر صاحب نے تعزیت بھی نہیں کی، میں نہیں جائوں گا۔ ان سے کہا کہ آپ نواب ہیں، ضرور جائیں اور اپنا ہاتھ بلند رکھیں۔ نواب صاحب کچھ دیر خاموش رہے، پھر جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ حکومتِ بلوچستان نے میر صاحب کی میت کے لیے ہیلی کاپٹر فراہم کیا۔
بلوچستان میں قوم پرست سیاست کا باب المیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے گھائو بڑے گہرے ہیں جو مندمل نہ ہوسکیں گے۔ وہ کشمکش جو سردار اختر مینگل اور نواب بگٹی کے درمیان ہوئی، بڑی دلچسپ اور عبرت آموز بھی ہے۔ سردار اختر مینگل نے نواب بگٹی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو کمبل چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن کمبل ہمیں نہیں چھوڑ رہا ہے۔ نواب بگٹی نے کہا کہ ہم اپنے بلوچی کمبل پر بیٹھے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کشمکش بڑی تیز ہوگئی تھی۔ میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ اختر مینگل بھی زیادہ دیر حکومت نہ کرسکیں گے۔ صدر غلام اسحٰق خان نے صدارتی حکم کے ذریعے حکومتوں کو ختم کردیا تو نگراں وزیراعلیٰ نواب بگٹی کے داماد میر ہمایوں مری کو بنایا گیا۔ میاں گل اورنگزیب گورنر بلوچستان تھے۔ سردار اختر مینگل اپنی پارٹی کے ممبر وحید بلوچ کو جو بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر بھی تھے، بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنانا چاہتے تھے۔ سردار اختر مینگل نے گورنر سے ملاقات کی اور وہ آمادہ ہوگئے تھے۔ نواب بگٹی کو علم ہوا تو انہوں نے گورنر بلوچستان سے ملاقات کرکے اس فیصلے کو رکوا دیا۔ نواب بگٹی نے اس موقع پر کہا کہ اگر وائس چانسلر کسی کو بنانا ہے تو اسے بنایا جائے (انہوں نے کوئٹہ کے ایک مشہور ٹرانسپورٹر کا نام لیا) اور کہا کہ وہ بہتر منتظم ثابت ہوسکتا ہے، اور خوب قہقہہ لگا کر ہنسے۔
نواب بگٹی سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ایک شام پہنچا تو نواب صاحب کا موڈ بہت اچھا تھا۔ انہوں نے ملتے ہی مجھ سے ایک سوال تاریخ کے حوالے سے پوچھا، میں نے فوراً جواب دے دیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے کمال کردیا، یہ سوال میں نے حمیدہ کھوڑو سے کیا تو وہ جواب نہ دے سکی۔ اس دن اتفاق سے تاریخ کی کتاب میرے مطالعے میں تھی اس لیے جواب دے دیا۔ اس رات نواب بگٹی کا موڈ بہت اچھا تھا اور ہشاش بشاش تھے۔ لطیفے بھی خوب سنارہے تھے۔ نواب بگٹی نے اپنے گھریلو ملازم سے کہا کہ میرے چھوٹے بیٹے سلال بگٹی کو بلائو۔ سلال بگٹی کی عمر اُس وقت کوئی 8 یا 10 سال ہوگی۔ اُس سے بلوچی میں کہا کہ میری ٹیبل پر ایک کتاب پڑی ہے اس کو لے آئو۔ کچھ دیر بعد وہ کتاب کے ساتھ آگیا۔ نواب نے کہا کہ یہ کتاب امام شامل کی ہے جس نے زارِ روس سے گوریلا جنگ کی تھی۔ انہوں نے یہ کتاب مجھے مطالعے کے لیے دی۔ جس مصنف نے کتاب لکھی وہ روسی حکومت کی جانب سے اس جنگ میں شریک تھا۔ اس کتاب میں امام شامل کی اہم تصاویر موجود تھیں۔ بعد میں روسی حکومت نے امام شامل کو جلاوطن کردیا اور انہوں نے سعودی عرب میں پناہ لی۔ نواب بگٹی ان کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ مجھ سے کہا کہ امام شامل نے حیرت انگیز مزاحمت کی، اور ان کی عورتوں نے روسی فوج کی مزاحمت اس طرح کی کہ اپنے چھوٹے بچے بھی انہیں روکنے کے لیے پھینکے۔ حاجی مراد امام شامل کا کمانڈر تھا، اس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ اس فلم کو دیکھا، حاجی مراد پر ناول بھی میرے پاس موجود ہے۔
ٹالسٹائی اس جنگ میں شریک تھا۔ حاجی مراد پر اس نے ناول لکھا۔