اب ایک طرف کورونا کے پھیلاؤ کا خطرہ درپیش ہے اور دُوسری طرف اچھی شخصیتوں کے اُٹھ جانے کا المیہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں جناب گوہر صدیقی اٹھاسی سال دارِفانی میں گزار کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ وہ ریاست پٹیالہ سے 1947میں ہجرت کر کے شاہ جیونہ آئے تھے۔ فسادات میں اُن کے والد اور قریبی رشتےدار شہید ہوئے تھے۔ اِس علاقے کے نامور سیاست دان کرنل عابد حسین نے مہاجرین کی آبادکاری میں سرگرم حصّہ لیا تھا۔ صدیقی صاحب نے اوائل عمری میں تاریخ کے مطالعے سے یہ بھید پا لیا تھا کہ معیاری تعلیم ہی قوم کو عظیم بناتی ہے، چنانچہ اُنہوں نے یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہو کر پرائمری اسکول میں پڑھانا شروع کیا اور کالجوں کی بلندی تک جا پہنچے۔ 64سال تک شعبہ تدریس سے وابستہ رہے اور اِس دوران اسّی ہزار گریجویٹس تیار کیے۔
تعلیم و تدریس کے ساتھ اُن کا عشق فزوں تر ہوتا گیا اور اُنہوں نے اعلیٰ معیار کے 24تعلیمی ادارے قائم کیے جن میں ہزاروں طلبہ تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ جھنگ میں کیڈٹ کالج کا قیام ہے جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات بھی تعلیم حاصل کرتی ہیں جو پاکستان کے ہر علاقے سے آتی ہیں۔ اُن کا بڑا بیٹا صہیب فاروق نیوی میں پائلٹ تھا۔ اُس سے کہا ملازمت سے استعفیٰ دے کر کیڈٹ کالج کا انتظام و اِنصرام سنبھالو جہاں ہزاروں کیڈٹ تیار ہوں گے۔ اُنہوں نے والد کی خواہش کا احترام کیا اور آج وہ ایک وسیع و عریض کیڈٹ کالج چلا رہے ہیں جس کی خوشبو دُور دور تک پھیلتی جا رہی ہے۔ جناب گوہر صدیقی نے 1990اور 1995کے درمیان تین ایسے ادارے قائم کیے جو تعلیم و تدریس کی دنیا میں ایک خاموش انقلاب لا رہے ہیں۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کے مطابق اعلیٰ معیار کی نصابی کتابیں ’آفاق‘ تیار کر رہا ہے۔ اسلامی معیار کے ہزاروں تعلیمی ادارے ’غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ‘ چلا رہا ہے۔ اساتذہ کی عمدہ تربیت کی ذمےداری ’اسلامی نظامتِ تعلیم‘ کے سپرد ہے۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی مدتوں یاد رہے گا کہ وہ اوائل جوانی ہی میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہو گئے جس نے اُنہیں فرقہ واریت سے بلند کر دیا اور اُنہیں امیر جماعتِ اسلامی مولانا مودودی کی مجلسِ شوریٰ میں برسوں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے تنظیمِ اساتذہ میں کلیدی کردار اَدا کیا اور پنجاب یونیورسٹی کی سینیٹ میں دو بار برادرِ مکرم ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے ساتھ گریجویٹس کی نمائندگی کی۔ اللہ تعالیٰ جھنگ کے سرسید کے درجات بلند فرمائے اور اُن کے پس ماندگان کو اُن کی وراثت کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا کرے!
(الطاف حسین قریشی-روزنامہ جنگ کراچی 2 اپریل)