حیات اقبال
بتصرہ نگار: منیر ابنِ رزمی
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
’’حیاتِ اقبال‘‘ ریاض احمد چودھری کی فروری 2021ء میں شائع شدہ تازہ ترین تالیف ہے، جسے بزمِ اقبال 2 کلب روڈ، لاہور نے شائع کیا ہے۔ اقبال پر اب تک سیکڑوں کتب کی اشاعت ہوچکی ہے۔ میں جو فکرِ اقبال کی خوشہ چینی میں کسی شمار میں نہیں بلکہ طویل ترین قطار کی آخری صف میں ہونا بھی دستارِ فضیلت سمجھتا ہوں، میرے لیے یہ اپنی جگہ پر اعزاز ہے کہ مذکورہ بالا کتاب کے پس ورق کو میرے اظہار سے آراستہ کیا گیا ہے۔ ریاض احمد سے ٹیلی فون پر ہی گفتگو ہوتی رہی ہے اور چیچہ وطنی میں پہلی بار بین الاقوامی علامہ اقبال کانفرنس کے انعقاد پر پروفیسر مظفر حسین وڑائچ کی معرفت شناسائی ہوئی۔ مندوبین تک کتابوں کے تحائف بزمِ اقبال لاہور کی جانب سے موصول ہونے کے بعد ربط و ضبط مضبوط ہوا۔
ریاض احمد چودھری کا شمار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سینئر ترین اخبار نویسوں اور دانشوروں میں ہوتا ہے۔ نہایت مہذب اور نستعلیق مزاج پنجابی نژاد ہیں۔ خلاقِ ازل نے فیاضی کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں ذکاوت اور تیز فہمی کے عناصر ودیعت کررکھے ہیں۔ لفظوں کی تہذیب اور ان کے استعمال میں نزاکت کو حد درجہ ملحوظ رکھتے ہیں۔ جو بھی ان کے حلقۂ اثر میں آتا ہے اسے نہیں چھوڑتے اور نہ وہ ان کو چھوڑ سکتا ہے۔ پیری و صد بیماری کے باوجود وہ کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرے۔ حالانکہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر سے کب کے آگے نکل چکے ہیں، مگر لگتا ہے کہ پاکستان اور اس کے نظریے سے وفاداری کا احساس انہیں شگفتہ گل نوبہار کی طرح جواں نہیں بلکہ نوجوانوں جیسا پُرجوش اور متحرک و فعال کردار بنا دیتا ہے۔ عصری موضوعات پر ان کے پُرسوز تجزیے قوتِ پرواز کو ولولہ ٔ تازہ عطا کرتے ہیں۔ یہ بات سولہ آنے کھری ہے کہ پاکستان کی تعمیرنو کے لیے اقبال کا کلام ’کلید‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال کو پڑھے اور سمجھے بغیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ’نظریاتی شخصیت‘ سے آگاہی ممکن نہیں۔
ریاض احمد چودھری بزمِ اقبال میں ستائش کے بغیر ڈائریکٹر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ اور اس کی نظریاتی شناخت کا گہرا شعور اور ادراک رکھتے ہیں۔ حیاتِ اقبال ان کی تازہ ترین تالیف ہے۔ اس کی تازگی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کتاب اقبال کو صحیح تاریخی، نظریاتی اور سیاسی تناظر میں پیش کرتی ہے۔ اقبال کے نظریۂ خودی کو عام فہم اور نہایت آسان زبان میں بیان کرتی ہے جو آج کے زمانے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں اور تعلیم یافتہ لوگوں میں پاکستان سے محبت کے رشتوں کو مستحکم کرنے کے لیے اقبال کا مطالعہ ہر اعتبار سے ضروری ہے، اور ’’حیاتِ اقبال‘‘ کے ذریعے یہ کام سب سے بہتر انداز میں سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف دردِ دل سے لکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ اقبال کا نورِ بصیرت عام ہو۔ یہ تحقیق کے لیے نہیں تفہیم اور تعلیم کے لیے مرتب ہوئی ہے۔ ریاض احمد چودھری اس پیرانہ سالی میں نوجوانوں سے بڑھ کر متحرک ہیں جو ہم جیسے سال خوردہ اور کرگس مزاج شاہینوں کو عزم و استقلال کے نئے امکانات سے روشناس کراتے ہیں۔
190صفحات کی اس بیش قیمت کتاب کی فہرستِ مضامین دیدۂ بینا کو سرور دیتی ہے: قائداعظم اور اقبال کی ملاقاتیں، اقبال کا تصور انفرادی و اجتماعی، اقبال کے شعر میں خودی کا تصور، تعلیمی تصورات، علامہ اقبال اور سید مودودی (ویسے یہ اتنا بڑا اور زرخیز طبع موضوع ہے کہ اس پر الگ سے ایک کتاب کی اشاعت ناگزیر ہے، کاش! کوئی مردِ حر آگے بڑھ کر قدم اٹھائے)، علامہ اقبال اور سید گیلانی (موجودہ تحریک آزادیِ کشمیر میں لاکھ سر بجیب حکیموں سے بلند سر بکف مجاہد)، اقبال اور تجدید احیائے دین، افغانستان میں اقبال کی آہ و بکا اور اندلس سے اقبال کی وابستگی، مخدوم علی ہجویری کو علامہ اقبال کا ہدیہ عقیدت، سلطان ٹیپو شہید کے مزار پر حاضری اور مجدد الف ثانی کی تربت پر… ایسے مضمون ہیں جو اقبال کے نظریاتی محاذ پر چراغ کی لو دیتے ہیں اور وہاں ان کی رعنائیِ احساس کی خوشبو بھی رقصاں ہے۔ اس کتاب کی ہر سطر محبت کی خوشبو میں گندھی ہوئی ہے اور ہر جملہ عقیدت کے رنگوں میں ڈھل گیا ہے۔ واہ واہ! میرے دل سے بے ساختہ ریاض احمد چودھری کے لیے لب بام پر آیا ہے۔ جب آپ یہ کتاب خریدنے کے بعد خود پڑھیں گے تو یقیناً اسی مسرت سے نہ صرف ہم کنار ہوں گے بلکہ اپنے محبوب دوستوں کے لیے محبت کے مارچ پاسٹ میں سبقت حاصل کرنے کے لیے تحفہ پیش کرنے کے لیے خود ہی پیش قدمی کریں گے۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ