بلوچستان ،سرکاری ملازمین کا دھرنا،صوبائی حکومت کو مشکلات کا سامنا

بلوچستان حکومت کو 29 مارچ سے جاری سرکاری ملازمین کے دھرنے کی وجہ سے گمبھیر صورتِ حال کا سامنا ہے۔ چالیس سے زائد سرکاری محکموں کے ملازمین کی تنظیموں پر مشتمل گرینڈ الائنس کے تحت مرد و خواتین ملازمین نے وزیراعلیٰ ہائوس کے قریب ہاکی چوک پر یعنی ریڈ زون پر دھرنا دے رکھا ہے۔ احتجاج میں اسکولوں و کالجوں کے اساتذہ، لیکچرار، پروفیسر، کلرکس، پیرامیڈیکس، ڈاکٹر، سول سیکرٹریٹ کے اہلکاروں و افسروں سمیت تعلیم، صحت، زراعت سمیت تقریباً سبھی صوبائی محکموں کے درجۂ چہارم سے گریڈ 19تک کے ملازم افسران شریک ہیں، جنہوں نے حکومت کے سامنے 19 نکاتی مطالبات پیش کررکھے ہیں، جس میں سرفہرست تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافے کا مطالبہ ہے۔ ملازمین کے احتجاج نے قلم چھوڑ تحریک کی صورت اختیار کر رکھی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھائی کا عمل معطل ہوگیا ہے، سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈیز بند ہیں، سرکاری دفتری امور بھی ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ صوبے کی تمام سیاسی جماعتیں جو اسمبلی میں حزبِ اختلاف اور پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ ہیں، ملازمین کا ساتھ دے رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن دھرنے میں شرکت اور تقاریر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت میں شامل جماعتوں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی ملازمین کے مطالبات پر کان دھرنے پر زور دیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی جو رکن اسمبلی بھی ہیں، دھرنا شرکاء کے پاس گئے اور تقریر کی۔ اتوار4 اپریل کو رکشہ یونین کی اپیل پر رکشہ ریلی نکالی گئی۔ پیر 5 اپریل کو ٹرانسپورٹروں کی مدد سے صوبے کی قومی شاہراہوں پر ملازمین نے آمد و رفت بند کردی۔
دراصل یہ دھرنا اور احتجاج ماہ فروری میں اسلام آباد میں ہونے والے ملازمین کے احتجاج کا تسلسل ہے۔ بلوچستان حکومت غافل نہ ہوتی تو دھرنے سے قبل ہی ملازمین کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ جاتی۔ بلاشبہ حکومت مشکل میں ہے۔ اگرچہ سیکرٹریٹ ملازمین یا کسی قدر محکمہ پولیس کے اندر بھی تنخواہیں اچھی ہیں، مگر دوسرے محکموں کے ملازمین کی تنخواہیں ان کے اخراجات و ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے بجٹ 2020-21ء میں بھی اضافہ نہ کیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا یہ کہنا ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران پنشن بل30 ارب سے بڑھ کر 40 سے 50 ارب روپے ہوگیا ہے اور پانچ سال میں100 سے 120 ارب ہوجائے گا۔ ملازمین کے مطالبات کی منظوری کے بعد خزانے پر 10 سے 15 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ حکومت تعلیم، صحت، سڑکوں، ڈیم، سماجی بہبود اور زراعت کے لیے کچھ نہیں کرسکے گی، صرف تنخواہیں اور پنشن الائونس دیتی رہے گی۔ وزیراعلیٰ درست کہتے ہوں گے، مگراس وقت حالت ایسی ہے کہ ملازمین کے لیے کچھ کرنا پڑے گا، ورنہ یہ بحران مزید بڑھ جائے گا۔
بلوچستان میں زراعت، کان کنی اور ماہی گیری ہی سب سے اہم پیداواری شعبے ہیں، مگر ان شعبوں میں روزگار اور ملازمتیں بڑھانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے، اس لیے لوگ سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومتیں اور عوامی نمائندے بھی سیاسی حمایت کے بدلے ملازمتیں دیتے ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ کئی محکموں میں ضرورت سے زائد ملازمین تعینات ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر بلوچستان میں ایک کروڑ بیس لاکھ کی آبادی کے لیے سوا دو لاکھ سے ڈھائی لاکھ ملازمین تعینات ہیں جن کی تنخواہوں پر صوبے کے بجٹ کا 70سے 80فیصد خرچ ہوتا ہے۔ بلوچستان میں آمدن کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صوبے کی اپنی آمدن بمشکل30ارب روپے ہے۔ بجٹ سازی میں صوبائی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ رواں مالی سال کے 465 ارب روپے کے صوبائی بجٹ میں بھی87 ارب روپے کا خسارہ شامل ہے۔ ملازمین کے مسائل کے حل کے بارے میں صوبائی حکومت اچھے اقدامات بھی کرچکی ہے۔ چناچہ لمحۂ موجود میں تدبیر اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہے۔ احتجاجی ملازمین کے خلاف انتقامی کارروائی یا طاقت کا استعمال حالات کی خرابی پر منتج ہو سکتا ہے۔لہٰذا اگر فی الواقع حکومت کی مجبوریاں بھی ہیں تو گفت و شنید کے ذریعے گرینڈ الائنس کی قیادت کو قائل کیا جائے۔