کپتان ناراض حفیظ شیخ سے نہیں تھے بلکہ اُن سے تھے کہ جنہوں نے ماہرِ معیشت کو وزارتِ خزانہ سونپنے کا مشورہ دیا تھا۔ شاید اسی لیے اس طرح انہیں برطرف کیا گیا، جیسے شہنشاہ اکبر نے اپنے اتالیق کو حج پہ روانہ کردیا تھا۔ جیسے ظہیرالدین بابر نے اپنے پسندیدہ نجومی شریف کو کنواہ کی جنگ کے بعد کابل بھیج دیا تھا۔ عظیم نثر نگار اور مورخ ہیرلڈلیم بابر کو بادشاہوں کا بادشاہ کہتا ہے۔Prince of all princes ۔۔۔ صداقت شعار، اپنے رفقا پہ ہمیشہ مہربان، حتیٰ کہ ان کی گستاخیوں کو نظرانداز کرنے والا۔ معلوم تاریخ کے عظیم ترین فاتحین میں سے ایک۔ اپنے آپ پہ جو ہنس سکتا تھا۔ بے تکلف اپنی حماقتوں کا ذکر اپنی خودنوشت میں کرتا ہے بلکہ ان خطاؤں کا بھی، جنہیں اہلِ تقویٰ بھی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مزاج کا معاملہ ہے۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے۔ افغانستان کے سابق وزیرِاعظم گلبدین حکمت یار سے 1980ء میں ملاقات ہوئی۔ اب تک اسی خوش دلی سے برقرار ہے۔ خان صاحب سے 1996ء میں۔ 1990ء میں ایک بار گلبدین نے ازراہِ کرم یہ کہا:وہ راز بھی تمہیں بتا دیے ہیں، جو کبھی کسی سے کہے نہ تھے۔ سپردم بہ تُو مایۂ خویش را توُدانی حسابِ کم و بیش را۔ خان صاحب تو خیر کچھ چھپا ہی نہیں سکتے۔ سلطان محمد فاتح سے پوچھا گیا ’’آپ کی خیرہ کن کامیابیوں کا راز کیا ہے؟‘‘ جواب ملا: ”میری داڑھی کے بالوں کو بھی معلوم ہوجائے کہ میں کیا چاہتا ہوں تو قصوروار ہوں گا“۔ سلطان مسلم تاریخ کے معزز ترین فاتحین میں سے ایک ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے قسطنطنیہ فتح کرنے والے پورے لشکر کو بہشتِ بریں کی نوید دی تھی۔ سرکارﷺ کا فرمان یہ ہے: رازداری سے کام لیا کرو۔ خان ظفرمند رہا مگر کمزوریاں بھی کمال۔ اپنی فضیلت کا گمان مستقل سر پہ سوار۔ موزوں مشاورت میسر ہو نہیں سکتی۔ مصاحب کو ظلِ الٰہی کا مزاج ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ ایک دلدل۔ فقط حکمران ہی نہیں، کبھی کبھی تو پورے لشکر ہی ڈوب جاتے ہیں۔ محمود غزنوی کے جانشین اور بھائی مسعود غزنوی کی طرح۔ مامون الرشید کے سوتیلے برادر امین کی طرح۔ امین زبیدہ کا لاڈلا فرزند، نجیب الطرفین، جودو سخا کا خوگر اور ذہین و فطین۔۔۔ مگر ہمارے کپتان کی طرح اپنی فضیلت کے خمار میں گم۔ مامون الرشید کو تو ورنہ خراسان کا چھوٹا سا خطہ ہی ملا تھا۔ وہ بھی گوارا نہ ہوا۔ اسی خمار میں جان دے دی۔ اسی خمار میں بھٹو نے جان دی سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا، مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ یوں بھی اقتدار کے مزاج میں ارتکاز ہوتا ہے۔ ایک گدڑی میں دو فقیر سو سکتے ہیں، دو بادشاہ ایک محل میں نہیں۔ ظہیر کاشمیری کا مصرع یہ ہے:
موسم بدلا، رت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے
مارگلہ کے دامن میں بہار اتر آئی ہے۔ بے باک تو ابھی کوئی نہیں لیکن تیور لشکروں کے کڑے ہیں۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
(ہارون رشید،روزنامہ 92۔۔۔6اپریل2021ء)