ایک مولوی صاحب نے لوگوں کو ڈرانے اور عبرت حاصل کرنے کے لیے ہر جمعہ پر دوزخ کے متعلق تقریریں کرنا شروع کردیں۔ انداز ایسا نرالا اور شیریں بیان تھا کہ بعض لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ مولوی صاحب مسلسل اسی موضوع پر تقریریں کرتے جارہے تھے۔ اگلے جمعہ کی تقریر میں جب مولوی صاحب نے پھر اسی موضوع پر لب کشائی کرنا شروع کردی تو ایک جاہل آدمی کھڑا ہوکر کہنے لگا: ’’مولوی صاحب آپ کے منہ سے کوئی خیر کی خبر نہیں نکلتی‘‘۔ مولوی صاحب کا پروگرام تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے ان لوگوں کی اصلاح ہوجائے۔
دوسرے مہینے مولوی صاحب نے جمعہ کی تقریر میں گمراہوں، سیاہ کاروں، بدکاروں، ظالموں اور سرکشوں کے متعلق گفتگو کرنا شروع کردی، نہ صرف ان کے ’’حق‘‘ میں تقریریں کیں بلکہ دامن پھیلا کر ان کے لیے دعائے خیر بھی کرتے۔ ہر جمعہ کو مولوی کا یہی معمول دیکھ کر لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ وہ کہنے لگے: حضرت صاحب آپ نے تو ستم ظریفی کی حد کردی، وعظ و نصیحت کا یہ کون سا طریقہ اختیار کر رکھا ہے؟ مولوی صاحب نے جواب دیا: اگر تم لوگ ان باتوں کی حقیقت سمجھ جائو تو یہ اعتراض نہ کرو۔ میں نے ان میں بھلائی دیکھی ہے اور مجھے ان سے فائدہ ہے، ان سرکش لوگوں نے اللہ کی زمین پر اس قدر ظلم وستم اور شر پھیلایا کہ میں ان سے یکسر بے زار ہوگیا اور میں نے برائیاں ترک کرکے نیکی کی راہ اختیار کرلی۔ جب کبھی میں ہوائے نفس سے مجبور ہوکر دنیا کی طرف لپکا، ان ظالموں سے زخم پہ زخم کھایا۔ حتیٰ کہ میرے دل سے دنیا کی ہوس ختم ہوگئی اور میں سیدھے راستے پر آکر رجوع الی اللہ ہوگیا۔ پھر جب کبھی میں بھول کر دنیا کے جنگل کا رخ کرتا ہوں تو یہ بھیڑیے میرا پیچھا کرکے مجھے سیدھے راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ میرے محسن ہیں، مجھ پر واجب ہے کہ میں ان کے لیے دعا کروں۔ جس طرح راہِ راست سے بھٹکے ہوئے انسان کو دکھ درد اللہ تعالیٰ کے دروازے پر لاکھڑا کرتے ہیں اور آرام و سُکھ میں لوگ اللہ کی یاد سے غفلت برتنے لگ جاتے ہیں، یہ دشمن میرے حق میں دوا کی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ میں ان سے بھاگ کر گناہ سے بچ جاتا ہوں، میرا یہ عمل خدا کے فضل اور اس کی رحمت کا سبب بن جاتا ہے، اور وہ دوست احباب تمہارے اصلی دشمن ہیں جو تمہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذکر سے دور کرکے اپنی باتوں اور فضول کاموں میں مشغول رکھیں۔
درسِ حیات: جو راہِ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں ان سے ہمیں عبرت حاصل کرکے اپنی اصلاح کرنی چاہیے، نہ کہ ان کے ساتھ مل کر اپنی تباہی کا سبب بننا چاہیے۔
(مولانا جلال الدین رومیؒ۔ ”حکایات ِرومیؒ“)