آئی ایم ایف کے بورڈ نے6 ارب ڈالرکے قرضہ پروگرام کے تحت 50کروڑ ڈالر کی تیسری قسط جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ منظوری حکومت کی جانب سے سخت شرائط قبول کرنے کے بعد دی گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے اسٹاف کی سطح کے معاہدے کی توثیق کی ہے جو حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے نمائندوں کے مابین گزشتہ ماہ طے پایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کے باوجود حکومت نے آئی ایم ایف کے حکم پر سخت فیصلے کیے ہیں تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کیا جا سکے۔ پیشگی شرائط کے طور پر جو اقدامات کیے گئے ہیں اُن میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ،140ارب روپے کے ٹیکس لگانے اور اسٹیٹ بینک کو بے مثال خودمختاری دینا شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس اپریل میں آئی ایم ایف نے دوسرے جائزے کی منظوری کے لیے بورڈ کا اجلاس ملتوی کردیا تھا کیونکہ حکومت نے منی بجٹ لانے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا وعدہ پورا نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں یہ پروگرام معطل ہوگیا تھا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت 140 ارب روپے کے ٹیکس لگانے پر راضی ہوگئی ہے۔ 140 ارب روپے انکم ٹیکس کی چھوٹ کی واپسی آئی ایم ایف کی پیشگی شرط تھی۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے علاوہ جو غیرمعمولی فیصلہ کیا گیا ہے، اس کے تحت نیپرا کے قانون میں ترمیم کرکے بجلی کے نرخوں کا تعین کرنے کے لیے حکومت کے اختیارات میں کمی بھی کی گئی ہے۔ گویا حکومت اپنے اختیارات سے دست بردار ہوکر اداروںکو براہِ راست کنٹرول دے رہی ہے۔ اسی طرح کا خطرناک فیصلہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے نام پر آئی ایم ایف کی براہِ راست حکومت قائم کرنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان تباہ کن فیصلوں اور اقدامات کے مقابلے پر سیاسی سطح پر کسی قسم کا کوئی ردعمل موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک اور توانائی کے نرخ متعین کرنے والے اداروں کے کنٹرول کرنے کے عزائم کے خلاف چند ماہرینِ معاشیات نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک ماہرِ معاشیات نے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے قانون کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کا ’’فنانشل وائسرائے‘‘ بنایا جارہا ہے۔ ایک اور سخت ردعمل ممتاز ماہرِ معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے دیا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آر ڈی ننس منظور ہوا تو ملک ٹوٹ سکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک آر ڈی ننس کے نتائج وعواقب بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر یہ آر ڈی ننس منظور ہوا تو خدانخواستہ ملک ٹوٹ جائے گا، ریاست مفلوج ہوجائے گی، ریاست کے پاس پولیس اور فوج کی تنخواہ دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔ ایسی ہی شرط لگاکر سلطنتِ عثمانیہ توڑی گئی تھی۔ جدید دور میں ایسا آرڈی ننس کہیں بھی منظور نہیں ہوا، لیکن تاریخ میں سلطنتِ عثمانیہ میں ایسا ہی ہوا تھا۔ وہاں یہ شرط لگائی گئی تھی، جس کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ ٹوٹ گئی، کیونکہ ان کے پاس جنگ لڑنے کو پیسے نہیں تھے، اندرونی بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ پیسوں کا جو کنٹرول تھا اُن کے مرکزی بینک کے پاس تھا۔ سیاسی دائرے میں آئی ایم ایف کے احکامات کے خلاف آواز اٹھانے والی ایک ہی قوت ہے اور وہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ہیں، جو تسلسل سے آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے حکم پر اپنی معاشی خودمختاری سے دست بردار ہوچکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی تمام مشینری آئی ایم ایف کی ایما پر کام کررہی ہے اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت کا آزادانہ فیصلوں پر اختیار ختم ہوگیا ہے، اور اسٹیٹ بینک کا کنٹرول آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے بل پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق بل درحقیقت عالمی مالیاتی اداروں کی خواہش ہے، لیکن ہم اپنی آزادی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سپرد نہیں کریں گے۔ اس بل کے مطابق اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ڈپٹی گورنر کے خلاف تحقیقات نہیں ہوسکیں گی۔ حکومت کا اسٹیٹ بینک پر کنٹرول مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف نے آج تک کسی ملک سے ایسا قانون منظور نہیں کرایا۔ اسٹیٹ بینک کی حیثیت بدلنا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پرانی خواہش ہے جس کے خلاف ماضی میں مزاحمت کی جاتی رہی ہے، بل پاس ہوگیا تو اسٹیٹ بینک سے کوئی کچھ نہیں پوچھ سکے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے بہت عرصے سے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہ بل آئی ایم ایف نے تیار کیا ہے‘‘۔
آئی ایم ایف کی شرائط کوئی نئی نہیں ہیں۔ تمام ماہرینِ معاشیات کو اس کا علم ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے جو سفارشات پیش کرتے یا شرائط عاید کرتے ہیں، ان میں کسی بھی ملک کا بھلا نہیں ہوتا، عالمی مالیاتی اداروں کا ایجنڈا عالمی سرمایہ دارانہ طاقتوں کے سیاسی ایجنڈے کا بھی تابع ہوتا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ طاقتوں کا امام امریکہ ہے جسے افغانستان میں بدترین شکست ہوئی ہے۔ وہ اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکی احکامات، آئی ایم ایف کی شرائط، ایف اے ٹی ایف کے مطالبات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ واشنگٹن کے مالیاتی اداروں کی حکمرانی سے بچنے کے لیے اپنی سیاسی جدوجہد کو ایک ایجنڈے پر مرتکزکیا جائے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست صف بندی، اتحاد واشتراک اور قومی مسائل سے لاتعلق ہے۔ ملک میں غیر جمہوری قوتوں کے خلاف نمائندہ سیاسی بالادستی کی جنگ چل رہی ہے، لیکن نظر یہ آتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں صرف اپنے مفادات کی اسیر اور ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ آئی ایم ایف اور امریکہ کے ایجنڈے کے خلاف وسیع تر ڈائیلاگ کیا جائے، اور عوام کو منظم اور متحرک کیا جائے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں کسنے کی ذمے داری ان سیاسی طاقتوں پر بھی عاید ہوتی ہے جو عوام کی نمائندگی کے نام پر حکومت میں رہیں لیکن عوام کی نمائندہ قیادت کی طاقت کو کمزور کیا۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کا تعلق امریکی وار آن ٹیرر سے بھی ہے، اس کا بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان واحد مسلمان جوہری طاقت ہے۔ پاکستان کی جوہری صلاحیت کے بارے میں عالمی طاقتوں کے عزائم کسی سے چھپے نہیں رہے۔ اسٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ وہ جوہری صلاحیت سے دست بردار ہوجائے۔ ان شرائط کی منظوری کے بعد معاشی تباہی کا ایک نیا دور آئے گا۔