آخرکار نریندر مودی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں پہل کرتے ہوئے ایک معنی خیز قدم اُٹھا ہی لیا۔ یہ قدم 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر لکھا جانے والا خط ہے، جس میں پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس خط کی ٹائمنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ اس دن کی مناسبت سے لکھا گیا جسے دوقومی نظریے پر عمل درآمد کی طرف عملی پیش رفت کا آغاز قرار دیا جاتا ہے، جب 1940ء میں برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے منٹو پارک میں مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ بعد کے سات سال اسی سنگِ میل کی سمت سفر کرتے گزرے اور پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ پاکستان کے ساتھ خوش گوار تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کے لیے اس دن کے انتخاب کی وہی اہمیت ہے جو واجپائی کی لاہور میں مینارِ پاکستان آمد کی تھی۔ سخت گیر ہندو جماعت کے قائد نے اس قدم کے ذریعے پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ اب نریندر مودی نے دوبارہ واجپائی کی راہ پر پہلا قدم رکھ کر برصغیر کے مسائل کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ دوئم یہ کہ اس خط میں نریندر مودی نے یہ وضاحت کی ہے کہ ایک پڑوسی ملک کے طور پر انڈیا پاکستان کے عوام کے ساتھ خوش گوار تعلقات چاہتا ہے، ایسا ممکن بنانے کے لیے دہشت گردی اور دشمنی سے خالی اور اعتماد سے بھرپور ماحول کی ضرورت ہے۔
نریندر مودی کا یہ خط پاک بھارت پیس پروسیس کی ابتدا ہے۔ نریندر مودی واجپائی کی طرح جس سخت گیر بھارتی حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں اسی کے خوف اور ردعمل کا بہانہ بناکر کانگریس نے مدتوں تک کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کوئی بامعنی مذاکرات کرنے سے گریز کیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اپنی خواہش اور کوشش کے باوجود اس سمت میں کوئی ٹھوس قدم نہ اُٹھا سکے، اور جب انہوں نے شیخ عبداللہ کو پاکستان بھیج کر یہ قدم اُٹھانے کی کوشش کی تو شیخ عبداللہ ابھی پاکستان میں تھے کہ نہرو کسی پراسرار دبائو میں جان سے گزر گئے۔ نہرو کے جانشین لال بہادر شاستری بھی جب تاشقند معاہدہ کرکے لوٹے تو وہ بھی کشمیر پر سودے بازی کے الزام میں سخت گیر ہندوئوں کے شدید دبائو میں تھے، اور تاشقند سے لوٹنے کے چند ہی دن بعد اسی دبائو میں ان کی جان بھی چلی گئی۔ یوں کشمیر کا مسئلہ بھارت کے دو حکمرانوں نہرو اور شاستری کو کھا چکا ہے۔ یہی حال پاکستان میں بھی کئی حکمرانوں کا ہوا۔ ایوب خان کے کمزور ہونے کا آغاز بھی اُس وقت ہوا جب وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے’’تاشقند کے راز‘‘ افشاء کرنے کا نعرہ لگایا۔ نہرو اور ساشتری کے انجام کے بعدکانگریس نے کشمیر پر مفاہمت کا معاملہ ہمیشہ کے لیے ہی گول کردیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا خاموش اور خفیہ دبائو اور پریشر گروپ جب خود طاقت میں آیا تو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب کسی مجبور ی سے بے نیاز یہ پریشر گروپ پاک بھارت تعلقات بالخصوص کشمیر کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ لے گا، کیونکہ انتہا پسند ہندوئوں کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی پر غیر محب وطن ہونے کا اسٹیکر چسپاں کرنا ناممکن ہے۔ واجپائی نے اس اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی، مگر یہ ’’ٹریڈ اورینٹڈ پیس پروسیس‘‘ تھا، اور کشمیر اس سفر میں بہت دور اور آخری ترجیحات میں تھا، اس لیے پاکستان میں میاں نوازشریف کمزور ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ کارگل کے بعد یہ امن بس اُلٹ کر رہ گئی۔ اُس دور کے لوگ ہی بتا سکتے ہیں کہ واجپائی اور نوازشریف کشمیر پر کس قسم کے حل کے قریب پہنچے تھے؟ اگر کوئی مسودہ تھا تو اس کے مندرجات کیا تھے؟جنرل پرویزمشرف کے دور میںایک امریکن کشمیری فاروق کاٹھواڑی نے بڑی محنت سے ایک فارمولا تیار کیا۔اس میں دنیا بھر کے قانونی ماہرین اور دانشوروں کی رائے سامنے رکھنے کے علاوہ دنیا بھر کے تنازعات کے حل کے ماڈل سموئے گئے۔پرویزمشرف من موہن اس سمت میں آگے بڑھتے چلے گئے، مگر بھارت کی فوج نے کشمیر پر کوئی بڑی رعایت دینے سے انکار کیا۔پرویزمشرف اس راہ پر چلتے رہے اور ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے بقول ایک مسودہ بھی تیا ر کر لیا گیاجس پر دستخط ہونے میں چند ماہ باقی تھے، مگر وکلا تحریک نے جنرل پرویزمشرف کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی اور پھر دوبارہ اُن کے قدم زمین پر نہ جم سکے۔گمان غالب ہے کہ جب بھارتی فوج نے کشمیر میں زمین پر نظر آنے والے اقدامات اُٹھانے سے گریز کیا تو جواب میں پاکستان کی ہیئتِ مقتدرہ نے بھی اس پیس پروسیس کو ڈی ریل کرنے میں ہی عافیت سمجھی، اور یوں یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔
نوازشریف اور پرویزمشرف کے انجام کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ کوئی بھی ایسا پیس پروسیس جو کشمیر سینٹرک نہ ہو، نہ صرف یہ کہ کامیاب نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کے حکمران کو ہی ڈبو دیتا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی حکمران کا اصل امتحان اُس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے مقام پر پہنچتا ہے۔ یہ پاکستانی حکمرانوں کے لیے ایسی جادونگری ہے جہاں پیچھے مڑ کر دیکھنے اور ذرا سی لغزش دکھانے والے پتھر کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مودی کے خط کے بعد عمران خان تنی ہوئی رسّی کے سرے پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہ وہی مقام ہے جہاں نوازشریف اور پرویزمشرف اپنے اپنے وقتوں میں کھڑے تھے۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران جب بھی بہتر تعلقات کے لیے کسی راستے پر آتے ہیں تو اس کے پیچھے بے پناہ بین الاقوامی دبائو ہوتا ہے، اس لیے دونوں اس دبائو سے بچنے کے لیے دائو پیچ کھیلتے ہیں، اور یوں سفر منزل پر ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس میں حکمرانوں کے اقتدار بھی چلے جاتے ہیں۔ دبائو ہی نہیں، ترغیبا ت اور تحریصات بھی قدم قدم پر موجود ہوتی ہیں۔ اس لیے عمران خان کے لیے تنی ہوئی رسّی پر سفر کا آغاز ہوگیا ہے، اب یہ ان کی قائدانہ صلاحیت اور مہارت کا امتحان ہے کہ وہ اس راہ میں کشمیریوں کے لیے کیا حاصل کرتے ہیں۔ اسی پر برصغیر، پاک بھارت تعلقات اور عمران خان کے مستقبل کا انحصار ہے۔