ہلکے پھلکے شگفتہ ٹی وی ڈراموں کی خالق حسینہ معین جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں، جمعہ کی صبح اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ وہ تقریباً اسّی برس جیتی رہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے تاریخِ عمومی میں ماسٹرز کرنے کے بعد انھوں نے درس و تدریس کے پیشے کو اپنایا اور کراچی کے ایک ممتاز اسکول میں استانی ہوگئی تھیں۔ اپنی ریٹائرمنٹ تک وہ اسی پیشے سے وابستہ رہیں۔ انھوں نے پی ٹی وی کے لیے ڈرامہ لکھنا شروع کیا، اور ناظرین میں مقبول و ہردلعزیز ہوتی چلی گئیں۔ ان کے ڈرامے ’’انکل عرفی‘‘، ’’بندش‘‘، ’’کرن کہانی‘‘، ’’دھوپ کنارے‘‘، ’’شہزوری‘‘، ’’پرچھائیاں‘‘، ’’تنہائیاں‘‘ اور دوسری بہت سی ڈرامہ سیریلز ناظرین میں اتنی مقبول ہوئیں کہ ان کا ڈرامہ جب اسکرین پہ دکھایا جا رہا ہوتا تھا تو گلیاں اور سڑکیں سنسان ہوجاتی تھیں۔ وہ اپنی نوعیت کی منفرد ڈرامہ نگار تھیں۔ ان کے ڈراموں میں بہت سے نئے چہروں کو پیش کیا گیا جو بعد میں پی ٹی وی کی دنیا کا اثاثہ ثابت ہوئے۔ حسینہ معین نے شادی نہیں کی تھی۔ تنہائی کی زندگی گزارنے کے باوجود ان کے مزاج میں شگفتگی، رکھ رکھائو اور وضع داری تھی، اور شہر کی ادبی و علمی تقریبات میں ان کی موجودگی سے رونق تھی۔ جس زمانے میں یہ خاکسار کراچی یونیورسٹی کا طالب علم اور اسٹوڈنٹس یونین کے رسالے ’’الجامعہ‘‘ کا ایڈیٹر تھا، حسینہ معین کے ڈراموں کا ملک میں طوطی بول رہا تھا، اسی رسالے کے لیے انٹرویو کرنے اُن کے گھر نارتھ ناظم آباد گیا تھا۔ ہمراہ یونین کے صدر محمود احمد اللہ والا بھی تھے۔ ان سے مل کر اور باتیں کرکے ہم دونوں ہی بہت متاثر ہوئے تھے۔ وہ نہایت منسکر مزاج، ٹھیر ٹھیر کر لیکن اپنا مافی الضمیر سلیقے سے بیان کرنے والی خاتون لگیں۔ گفتگو میں انگریزی فقرے بھی خوبصورتی سے ادا کرتی تھیں۔ ان سے جو تعلق اس ملاقات میں پیدا ہوا وہ ہمیشہ قائم رہا۔ دو ایک سال قبل جب میں علمہ یونیورسٹی میں ڈین میڈیا سائنس تھا، انھیں اپنی یونیورسٹی کی ایک تقریب میں مدعو کیا۔ وہ بخوشی آنے پر تیار ہوگئیں۔ تقریب میں شرکت کے بعد چائے کی میز کی طرف جاتے ہوئے جب میں نے اُن سے پرانی یادوں کو تازہ کرنا چاہا تو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر منصور جو خود بھی ادیب و شاعر اور مطالعہ کتب کے شائق ہیں، کہنے لگے کہ آپ کا حسینہ صاحبہ سے اتنا پرانا تعلق ہے تو آپ نے ان پر کوئی خاکہ کیوں نہیں لکھا؟ یہ ایک ایسی بات تھی جس کا اثر حسینہ صاحبہ پر تو جانے کیا ہوا ہو، لیکن میرے دل میں یہ بات کھب گئی اور میں شرمسار سا ہوا۔ کیوں کہ میرے جاننے والے مشاہیر اور ادیبوں و عالموں میں جن سے میرا ذرا سا بھی تعلق رہا ہو، شاید ہی کوئی ایسا ہو جس پر میں نے شخصی خاکہ قلمبند نہ کیا ہو۔ حسینہ معین صاحبہ پر میں نے کوئی خاکہ کیوں نہیں لکھا؟ اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نے تبھی سوچا تھا کہ ان پر کچھ نہ کچھ لکھوں گا ضرور۔ لیکن یہ کب معلوم تھا کہ جب لکھ رہا ہوں گا تو وہ دنیا سے جا چکی ہوں گی، اور اُن کی موت ہی میری تحریر کا سبب بنے گی۔ سدا رہے نام اللہ کا۔ اس کا بھی ایک قلق اندر رہ جائے گا۔
اب جب حسینہ معین مرحومہ پر لکھنے بیٹھا ہوں تو بہت سی یادیں ذہن میں جاگ اٹھی ہیں، اور مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب میں پہلے پہل ’’عقاب‘‘ رسالے سے وابستہ تھا، اور ٹیلی وژن کی سرگرمیوں کی کوریج کے لیے کراچی کے ٹی وی اسٹیشن پر میرا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اُن دنوں حسینہ صاحبہ کی ڈرامہ سیریل ’’بندش‘‘ ناظرین میں مقبول ہورہی تھی۔ ’’بندش‘‘ کی جب آخری قسط ٹیلی کاسٹ ہوگئی تو ایک دن ’’عقاب‘‘ کے ایڈیٹر طارق محمود میاں نے مجھ سے کہا کہ ’’آپ ’’بندش‘‘ کی آخری قسط کیوں نہیں لکھتے؟‘‘ میں ان کی بات کو مذاق سمجھا اور عرض کیا کہ آخری قسط تو ٹیلی کاسٹ ہوچکی ہے۔ وہ بولے جہاں پہ حسینہ معین نے ڈرامے کو ختم کیا ہے، وہاں سے آپ ڈرامے کو آگے لے جائیں اور ایک نئے موڑ پر ختم کردیں۔ مجھے ڈرامہ لکھنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن یہ کام مجھے دلچسپ معلوم ہوا، اور میں نے ’’بندش‘‘ کی آخری قسط لکھ ڈالی جو اس سرخی کے ساتھ چھپی کہ ’’بندش کی آخری قسط جو ٹیلی کاسٹ نہ ہوسکی‘‘۔ یہی شرارت ناچیز نے اُن کی ڈرامہ سیریل ’’اَن کہی‘‘ کے ساتھ کی۔ البتہ تب میں روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں تھا اور ریڈیو، ٹی وی اور فلم کا صفحہ ’’عکس و آواز‘‘ مرتب کرتا تھا (یہ صفحہ بھی میں نے ہی محمد صلاح الدین مدیر جسارت سے اصرار کرکے شروع کروایا تھا)۔ ’’اَن کہی‘‘ کے پروڈیوسر محسن علی تھے، جن کا شمار پی ٹی وی کے بہترین پروڈیوسروں میں ہوتا تھا۔ ’’اَن کہی‘‘ کی لکھی ہوئی میری آخری قسط ’’جسارت‘‘ میں شائع ہوئی تو محسن علی مرحوم نے ملاقات پر مجھ سے کہا کہ یہ قسط پڑھ کر میں نے حسینہ کو فون کیا اور کہا کہ یہ قسط تم نے کب اور کیوں لکھی؟ جس پر حسینہ معین نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ چوں کہ اس قسط میں پچھلی بار کی طرح میرا نام نہیں تھا اس لیے جس نے بھی اس آخری قسط کو پڑھا، یہی سمجھا کہ حسینہ معین کی تحریر کردہ ہے۔ یہ جان کر کہ قسط میری تحریر کردہ ہے، محسن علی بہت حیران ہوئے اور انگریزی میں فرمایا کہ تم میں جب ڈرامہ لکھنے کی صلاحیت ہے تو تم ڈرامہ کیوں نہیں لکھتے! اس طرح بات آئی گئی ہوگئی۔ یہ الگ بات کہ حسینہ معین صاحبہ سے اس موضوع پر کبھی کوئی بات نہیں ہوئی، لیکن وہ میری بہت قدر کرتی تھیں۔ علمہ یونیورسٹی میں آکر انھوں نے میری عزت افزائی کی اور رخصت ہوتے ہوئے یہ فرمایا کہ تمہارے بلانے پر میں آنے پر مجبور ہوئی ورنہ میری صحت اب کہیں آنے جانے کے قابل نہیں۔ اُن کی اس بات کا میرے دل پر بہت اثر ہوا۔ اس ملاقات پہ میں نے اس تاسف کا بھی اظہار کیا کہ اب ٹی وی چینلوں پر آنے والے ڈراموں کا معیار پست سے پست تر ہوتا چلا جارہا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب آپ اور امجد اسلام امجد جیسے ڈرامہ نگار ڈرامے نہیں لکھ رہے۔ حسینہ معین نے میری بات سے اتفاق کیا، لیکن کہا تو یہ کہا کہ بدذوقی کو عام کرنے میں ٹی وی چینلوں ہی کا ہاتھ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارتی ڈرامے پاکستانی ڈراموں سے اثرات قبول کرتے تھے، اور اب یہ حال ہوگیا ہے کہ ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ جیسی ڈرامہ سیریل سے ہمارے ڈرامے متاثر ہونے لگے ہیں، اور وہی خاندانی سازشیں اور سیاستیں ڈرامے کا موضوع بننے لگی ہیں۔
حسینہ معین ڈرامہ نگار کی حیثیت سے جب تک لکھتی رہیں، تنقید اور اعتراضات کا مرکز بھی بنی رہیں۔ مثلاً اُن کے ڈراموں میں پیش ہونے والی ہیروئنوں پہ یہ اعتراض اٹھایا جاتا تھا کہ وہ بہت خودسر، سرکش اور برخود غلط ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر لڑکیوں پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی اعتراض اُن کے سامنے میں نے بھی اپنے انٹرویو میں اٹھایا تھا، جس کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری لڑکیوں کی شخصیت دبی رہے اور وہ معاشرے میں سر اٹھا کے چلنے کے قابل نہ ہوسکیں؟ اپنے گھر میں رہیں تو باپ اور بھائی کے سامنے کچھ نہ بول سکیں؟ اور شادی ہو تو شوہر اور ساس سسر کے آگے سرجھکا کر زندگی گزار دیں؟ میں اپنے ڈراموں کے ذریعے لڑکیوں میں اعتماد پیدا کرنا چاہتی ہوں، اپنی شخصیت اور صلاحیتوں پر اعتماد۔ ان کی بات میں بڑی حد تک وزن تھا، اور کیا شبہ ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کا مزاج بنانے، اور ان کے شعور کی آبیاری میں حسینہ معین کے ڈراموں کا بھی بہت دخل رہا ہے۔
حسینہ معین ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے شہر کان پور میں 20 نومبر 1941ء کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم وہیں پائی۔ پاکستان بنا تو اُن کا خاندان ہجرت کرکے راولپنڈی اور بعد ازاں لاہور منتقل ہوکر وہیں مقیم ہوا۔
پھر1950ء کی دہائی میں ان کا خاندان کراچی آبسا۔ 1960ء میں حسینہ معین نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین سے گریجویشن اور 1963ء میں کراچی یونیورسٹی سے تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز کیا۔ ان کے لکھنے لکھانے کی ابتدا ایک مقامی اخبار سے ہوئی، جس میں وہ ’’بھائی جان‘‘ کے عنوان سے ہفتہ وار کالم لکھتی تھیں۔ پھر انھوں نے ریڈیو پاکستان کے لیے ڈرامے لکھنے شروع کیے۔ 1969ء میں کراچی ٹیلی وژن کے اسکرپٹ ایڈیٹر افتخار عارف نے انھیں ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے لکھنے کی دعوت دی۔ وہ ابتدا میں نروس تو بہت ہوئیں لیکن ہمت کرکے عید کے موقع پر پیش کرنے کے لیے ایک ڈرامہ ’’عید کا جوڑا‘‘ لکھ ڈالا، جس کو کنور آفتاب احمد نے پروڈیوس کیا۔ اس کے مرکزی کرداروں میں نیلوفر علیم اور اداکار طلعت حسین شامل تھے۔ یہ ڈرامہ ناظرین میں بہت مقبول ہوا، اور یوں حسینہ معین ٹیلی وژن کی ہو رہیں۔ ان کی ٹیلی وژن ڈراموں کے لکھنے کی خدمات پر حکومت نے انھیں 1987ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔
حسینہ معین نے فلموں کے لیے بھی لکھنے کا تجربہ کیا اور پاکستان و بھارت کی کئی فلموں کے اسکرپٹ لکھے۔ لیکن جو کامیابی انھیں ٹیلی وژن پر ملی ویسی فلموں میں حاصل نہ ہو سکی۔ البتہ راج کپور کی بھارتی فلم ’’حنا‘‘ کے لیے مکالمے لکھے جو باکس آفس پر کامیاب ہوئی اور اسے آسکر ایوارڈ کے لیے غیر ملکی زبانوں کی فلم کے طورپر چنا گیا۔
حسینہ معین اب اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے حصے کا جتنا کام تھا، اسے مکمل کرلیا تھا۔ انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ شہرت و مقبولیت اور کامیابیاں ان کے ہمرکاب رہیں۔ اب وہ اپنے رب سے جا ملی ہیں۔ خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی لغزشوں سے صرفِ نظر کرے اور ان کی روح کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)
زندگی کے ہر ڈرامے کا یہی ڈراپ سین ہونا ہے۔ یہی ہوتا ہے۔ یہی ہوتا رہے گا۔ رہے نام اللہ کا۔