معروف کالم نگار عبیداللہ چھجن ایڈووکیٹ نے بروز پیر 22 مارچ 2021ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھو‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اہلِ سندھ کو درپیش جس اہم اور سنگین ترین مسئلے کی جانب اپنے زیر نظر کالم میں توجہ مبذول کروائی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’ہائے ری غربت! صوبہ سندھ میں تین ماہ کے دوران دو سو سے زائد افراد نے خودکشی کرکے اپنی زندگی کا چراغ گل کر ڈالا ہے۔ زندگی انسان کو ایک مرتبہ ملتی ہے۔ انسان کی زندگی قیمتی اور انمول شے ہے، جو ایک بار ملنے کے بعد دوبارہ اس فانی دنیا میں آنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے میڈیا کے اندر ایک افسوس ناک خبر زیرگردش ہے اور تواتر کے ساتھ نشر کی جارہی ہے کہ پورے ملک خصوصاً صوبہ سندھ میں ہر سمت موت کا رقص جاری ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران دو سو سے زائد قیمتی انسانی جانیں خودکشی کے واقعات میں موت کے منہ میں جاچکی ہیں، جن میں نہ صرف مرد و زن بلکہ جوان العمر افراد بھی شامل ہیں۔ میں اوائل میں قبل ازیں یہ لکھ چکا ہوں کہ انسان کو زندگی صرف ایک مرتبہ ہی ملتی ہے، اور انسان کو ہر شے سے کہیں بڑھ کر اپنی زندگی عزیز اور پیاری ہوا کرتی ہے۔ خودکشی کے واقعات پر ہم بڑے آرام و سکون کے ساتھ یہ تبصرہ کردیتے ہیں کہ ہائے افسوس، صد افسوس! فلاں ولد فلاں نے کس طرح بے وقوفی کرتے ہوئے اپنی جان لے لی اور خودکشی کرلی… لیکن اس موقع پر ہم یہ بات فراموش اور نظرانداز کردیتے ہیں کہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں پر آگ لگی ہوتی ہے۔ کوئی بھی مرد یا عورت خودکشی جیسا انتہائی قدم بلاوجہ ہرگز نہیں اٹھا سکتا، اور ہر ایسے المناک واقعے کے پسِ پردہ بہت ساری مجبوریاں اور درد بھری داستانیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔
جب ہم الیکٹرونک میڈیا کے سامنے بیٹھتے ہیں تو یقیناً روزانہ کی بنیاد پر سندھ بھر میں چہار اطراف سے بھوک، بدحالی، بے روزگاری اور غربت کی آہ و فغان دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ سندھ بھر میں ہر طرف سے روزانہ کئی گبھرو جوان اور سندھ کی پڑھی لکھی بیٹیاں اپنے معصوم بچوں کو بھوک اور بدحالی میں مبتلا دیکھ کر، دلبرداشتہ ہونے کے بعد خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر حد درجہ افسوس ناک صورتِ حال درپیش ہے۔ قتل و خوں ریزی ہو… یا اغوا، لوٹ مار، چوریاں، غریب، لاچار اور بے بس افراد کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر اور زیادتیوں کے بہ کثرت ہونے والے واقعات ہوں… متاثرہ افراد کی دادرسی کرنے والا کوئی بھی محکمہ یا ادارہ نہیں ہے۔ صورتِ حال بدقسمتی سے اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ مظلوم کو تو انصاف نہیں ملتا، اور جرم کرنا اب گناہ میں شمار نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں بس کوئی غریب اور بے بس نہ ہو، کیوں کہ اب ہمارے ہاں غریب ہونا بھی ایک طرح سے گناہ ہی میں شامل ہونے لگا ہے۔ اللہ کسی سفید پوش کو معاشرے کے طاقتور اور زورآور بے لگام افراد کے سامنے بے بس اور لاچار نہ کرے، کیوں کہ اس موقع پر اُس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، اور غریب اپنے نصیب اور قسمت ہی کو کوستا رہ جاتا ہے۔
میں ہمیشہ اور ہر وقت یہی بات کہا کرتا ہوں کہ جس حال میں بھی ہوں، ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کیا کریں، کیوں کہ مایوسی کفر ہے اور ہمارا رب اسے بالکل بھی پسند نہیں کرتا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو آج ہمارے اردگرد جو ابتر صورت حال ہے اور خودکشی کے واقعات میں روزافزوں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اس کے پسِ پردہ دراصل زیادہ تر بے روزگاری کا عامل کارفرما ہے۔ وفاقی حکومت ہو یا پھر صوبائی حکومت… اس نوع کے واقعات ہونے کے بعد آج تک کسی منتخب ایم این اے یا ایم پی اے کے منہ سے اظہارِ افسوس کا کوئی ایک لفظ تک نہیں نکلا ہے۔ حکومتِ سندھ گزشتہ 14برس سے پیپلز پارٹی کے پاس ہے جس کا نعرہ ہے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘… لیکن مجال ہے کہ آج تک اس نے اپنے منشور کے کسی ایک حصے پر بھی غلطی سے کبھی کوئی عمل کیا ہو۔ وفاق میں بھی کبھی مذکورہ نعرے کی حامل، اور کبھی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگانے والی جماعت مسلم لیگ نواز کی حکومت رہی ہے، لیکن ان کے ادوارِ حکومت میں بھی صورتِ حال بد سے بدترین ہی کی جانب گامزن رہی ہے۔ آج وطنِ عزیز پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے، جس نے برسرِاقتدار آنے سے قبل اہلِ وطن کو خوب سبز باغ دکھائے تھے۔ موجودہ حکومت بھی اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کرسکی ہے، اور اُس نے مسلسل یہی راگ الاپ رکھا ہے کہ ہم سابقہ حکومتوں کے، لیے گئے بھاری بھرکم قرضے اتار رہے ہیں اور ان کے خسارے کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ غریب افراد مارے مہنگائی کے فاقہ کشی سے دوچار ہورہے ہیں لیکن موجودہ حکمران غربت کا خاتمہ کرنے کے بجائے غریبوں کو ختم کرنے کی پالیسی پر کارفرما ہیں۔ گزشتہ تین برس سے جب سے وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے، نہ صرف بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ایک طرح سے مہنگائی کا طوفان آگیا ہے، جس نے گزشتہ ساری حکومتوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ روزمرہ استعمال کی عام اشیائے صرف بھی عوام خریدنے سے لاچار نظر آتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی، بدحالی اور بھوک نے عوام کی زندگی اجیرن بنا ڈالی ہے۔ عوام آج جتنے زیادہ بدحال اور پریشان ہیں، پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن اس کے باوجود ہمارے وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ ملک بہتری کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سندھ بھر میں ہر روز جس طرح سے خودکشی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اس کی ذمہ دار نہ صرف حکومتِ سندھ بلکہ موجودہ وفاقی حکومت بھی ہے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ تین سال سے نہ صرف اخبارات میں اشتہارات دے کر مسکین، بے روزگار نوجوانوں سے ہزاروں روپے کی چالان فیسیں بھرواکر اُن سے پیسے بٹورے جارہے ہیں، بلکہ بھاری رقومات لینے کے بعد مختلف حیلے بہانوں سے ٹیسٹ ملتوی کردیے جاتے ہیں، یا پھر چور دروازوں کے ذریعے اقربا پروری کرکے اپنے افراد کو بھرتی کرلیا جاتا ہے، اور میرے قابل تعلیم یافتہ وقاص بٹ جیسے دوست فیل کردہ امیدواروں کی فہرست میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ یعنی ہمارے ہاں نااہل صرف غریبوں کی تعلیم یافتہ اولاد ہی کو گردانا جاتا ہے۔ البتہ اگر آپ کو قابل ترین افراد دیکھنے ہیں تو وہ کسی وزیر، مشیر یا کسی بڑے افسر کے من پسند اور لاڈلے ہوں گے۔ تمام اہم اور بڑی ایسی ملازمتیں جن میں بالائی آمدنی وافر اور بے حساب ہے، وہ ایسے ہی حضرات کے لیے مختص کردہ ہیں۔ (باقی صفحہ 41پر)
مجھے تو اُس وقت بھی بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے جب حسب معمول صبح کے وقت ٹھنڈی سڑک حیدرآباد پر واقع سندھ پبلک سروس کمیشن کے باہر نوجوان شاگردوں اور اُن معصوم طالبات کا ہجوم اور میلہ لگا دکھائی دیتا ہے جو اپنی قیمتی اسناد ہاتھوں میں لیے ہوئے سارا سارا دن قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ یہ امیدوار اعلیٰ ملازمتوں کے حصول کے لیے اپنی توقعات لیے ہوئے یہاں پر آن موجود ہوتے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی قسمت ان کا ساتھ دے گی بھی کہ نہیں؟ لیکن ان بے چارے امیدواروں کے نصیب میں اس دفتر کے سامنے بھی دھکے کھانا ہی ہوتا ہے۔
میں بات کررہا تھا سندھ میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے واقعات کے بارے میں… کبھی تھر کے کیکر کے درختوں سے نوجوانوں کی لٹکتی ہوئی لاشیں ملتی ہیں، اور کبھی سانگھڑ، بدین اور کشمور کندھ کوٹ کے روڈوں پر نوجوانوں کی جانب سے اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر مظاہرے کرنے کی خبریں ملتی ہیں۔ بہت سارے نوجوان بے چارے کوئی امید نہ پا کر خودکشی تک کرلیتے ہیں۔ یہ ساری صورتِ حال بے حد المناک اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے کہ آخر کب سندھ کے نوجوانوں کو میرٹ کی بنیاد پر اُن کے حقوق ملیں گے؟ اور خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کب کمی آئے گی؟‘‘