پڑھنے کا رواج کم ہوگیا ہے۔ لکھنے کا رواج ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ لکھنے والے اگر پڑھتے بھی ہیں تو شاید توجہ سے نہیں پڑھتے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھتے وقت بھی اپنے لکھے پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ بالخصوص املا کی اغلاط اسی وجہ سے سرزد ہوتی ہیں۔ اگر پڑھے ہوئے الفاظ کا املا توجہ سے دیکھا ہوتا تو لکھتے وقت بھی پوری توجہ سے درست املا لکھتے۔ معمولی سی توجہ سے معمولی معمولی غلطیاں دور کی جاسکتی ہیں۔ ان غلطیوں سے بچنے کی کوشش کی جائے تو تحریر کا سقم دور ہوجاتا ہے اور عبارت دل کش معلوم ہونے لگتی ہے۔
مثلاً ’’نہ‘‘ اور ’’نا‘‘ کے محلِ استعمال پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے لوگ ’’توجہ نا دینا‘‘ لکھنے لگے ہیں۔ جب کہ پچھلے دنوں ایک سیاسی تجزیہ نگار نے اپنے مضمون میں ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کا ذکر کئی بار’’نہ دیدہ قوتیں‘‘ لکھ لکھ کر کیا جو ’’ندیدہ قوتیں‘‘ پڑھا جارہا ہے۔ یوں تو اکثر انسانی قوتیں ’ندیدہ‘ ہی ہوتی ہیں۔ سب کچھ اپنے قبضے میں کرلینے کی حرص رکھتی ہیں۔ مگر مضمون نگار کی مراد مخفی قوتوں سے تھی۔ وہ قوتیں جو سرِعام نظر نہیں آتیں یا لوگوں کو دکھائی نہیں دیتیں، چھپ کر کام دکھا جاتی ہیں۔ ایسی قوتوں کو ’نادیدہ‘ لکھنا درست ہے۔ یعنی اَن دیکھی قوتیں۔ جب کہ ’’ندیدہ‘‘ کا لفظی مطلب ہے جس نے نہ دیکھا ہو۔ مجازاً لالچی اور حریص کو ندیدہ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ لالچی شخص جس شے کو لالچ یا حرص بھری نظروں سے دیکھتا ہے، ایسے ہی دیکھتا ہے جیسے اس سے پہلے کبھی اُس نے وہ شے دیکھی ہی نہ ہو۔
’’نا‘‘ اگر بطور سابقہ استعمال کیا جائے تو حرفِ نفی کا کام کرتا ہے۔ مثلاً جو چیز پسندیدہ نہ ہو اُسے ناپسندیدہ کہا جاتا ہے۔ جو شخص لائق نہ ہو اُسے نالائق کہتے ہیں، اور جو کام خوش گوار نہ لگے وہ ناخوش گوار قرار پاتا ہے۔ بحرؔ الٰہ آبادی کا محبوب خواندہ نہیں تھا۔ اس وجہ سے اُس کے خلاف بحرؔ نے جو شعر ارشاد کردیا وہ غریب اُسے بھی نہ پڑھ پایا۔ شعر کچھ یوں تھا:
پڑھ کے خط کیا جانے کیا پٹی پڑھائے اُس کو غیر
وہ صنم ناخواندہ ہے موقع نہیں تحریر کا
جب کہ ’’نہ‘‘ عموماً نہیں کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ بالعموم اُس جگہ جہاں ’نہیں‘ استعمال کرنا روزمرہ کے خلاف ہو۔ مثلاً ’’ایسا نہ کرو‘‘۔ یا ’’کسی کو بُرا نہ کہو‘‘۔ ان فقروں میں ’نہ‘ کی جگہ ’نہیں‘ استعمال کرنا درست نہیں سمجھا جائے گا۔ اگر دو چیزوں کی ایک ساتھ نفی مقصود ہو تو اکثر یہ حرف صرف دوسرے لفظ پر لاتے ہیں، جس سے پہلے کی نفی بھی خودبخود ہوجاتی ہے۔ حالیؔ کا یہ شعر دیکھیے:
پہننے کو کپڑا نہ کھانے کو روٹی
جو تدبیر اُلٹی تو تقدیر کھوٹی
نثر میں بھی یہ جملہ اسی طرح لکھا جائے گا کہ ’’پہننے کو کپڑا ہے، نہ کھانے کو روٹی ہے‘‘۔ یوں لکھنا محاورے کے خلاف ہوگا کہ ’’نہ پہننے کو کپڑا ہے نہ کھانے کو روٹی ہے‘‘۔ ایسے مواقع پر ’نہ‘ کی جگہ ’نا‘ لکھنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ’پہننے کو کپڑا ہے نا کھانے کو روٹی‘درست نہیں۔ جو شخص ’نہیں‘ استعمال کرنے سے باز نہیں رہنا چاہتا وہ یہ جملہ یوں لکھ لیا کرے: ’’پہننے کو کپڑا نہیں، کھانے کو روٹی نہیں‘‘۔
اسی طرح ’’ناکہو‘‘ اور ’’ناسنو‘‘ لکھنا بھی غلط ہے۔ ’’نہ سنو‘‘ اور ’’نہ کہو‘‘ لکھنا چاہیے۔ چچا غالبؔ بھی یہی سمجھا گئے ہیں۔ کہتے ہیں:
نہ سنو گر بُرا کہے کوئی
نہ کہو گر بُرا کرے کوئی
مگر ’ہے‘ کے ساتھ ’نہ‘ کا استعمال اکثر مقامات پر فصاحت کے خلاف ہوتا ہے۔ یہ کہنا تو درست ہوگا کہ:
’’ایسے عالم فاضل شخص کے سامنے مجھ سے نہیں بولا جاتا ہے‘‘۔
مگر یوں کہنا فصیح نہ ہوگا کہ:
’’ایسے عالم فاضل شخص کے سامنے مجھ سے نہ بولا جاتا ہے‘‘۔
اگر آپ کسی فطری مجبوری کے سبب ’ہے‘ کے ساتھ ’نہ‘ استعمال کیے بغیر نہ رہ پاتے ہوں تو یہی جملہ یوں کہہ لیجیے:
’’اے بابو! ایسے عالم فاضل شخص کے سامنے مجھ سے نہ بولا جائے ہے‘‘۔
قانونی دستاویزات میں نہ جانے کب اور کس نے یہ فقرہ لکھ دیا جو آج تک دُہرایا جا رہا ہے کہ:
’’اب اس پر میرا کوئی دعویٰ نہ ہے‘‘۔
یہاں ’’نہ‘‘ کی جگہ ’’نہیں‘‘ لکھا جانا چاہیے۔ ’نہیں‘ لکھ دینے سے دعویٰ نہ ہونے کے دعوے پر یقین بھی آنے لگتا ہے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ میں ’نہ‘ کے ساتھ ’ہی‘ کا غلط استعمال بھی رواج پا گیا ہے۔ مثلاً ایک خبر کے متن میں یہ جملہ دیکھا:
’’… لیکن انھوں نے اس خبر کی نہ تصدیق کی نہ ہی تردید کرسکے‘‘۔
اوّل تو یہاں دو مرتبہ ’نہ‘ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ فضول خرچی ہے۔ جیسے بعض خواتین ایک چوٹی باندھ کر بھی ’نہ‘ کرسکتی ہیں، مگر فضول خرچی کرتے ہوئے دو، دو چُٹیاں باندھ کر ’نہ، نہ‘ کرتی رہتی ہیں۔ دوم یہ کہ محولہ بالا فقرے میں ’ہی‘ کو لفظ ’تردید‘ کے بعد لانا چاہیے۔ ’’ہی‘‘ حرفِ حصر میں شمار ہوتا ہے، یعنی تخصیص کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس خبر میں خاص طور پر یہ بتانا مقصود تھا کہ تصدیق تو کی نہیں ’’تردید بھی‘‘ نہ کرسکے۔ لہٰذا درست جملہ یوں ہوگا:
’’… لیکن انھوں نے اس خبر کی تصدیق کی نہ تردید ہی کرسکے‘‘۔
البتہ جن محاوروں اور کہاوتوں میں حرفِ عطف کے طور پر ’نہ‘ کا استعمال کیا گیا ہے، وہاں ایک ہی فقرے میں دو مرتبہ ’نہ‘ کا استعمال جائز سمجھا گیا ہے۔ جیسے:’’نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے‘‘۔ ’’نہ باسی بچے نہ کتا کھائے‘‘۔ ’’نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘‘۔ وغیرہ
رادھا کا ذکر آیا ہے تو اس شریمتی کے نہ ناچنے کا بھی ذکر ہوجائے۔ ڈاکٹر شریف احمد قریشی اپنی کتاب ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ میں اس کہاوت کا پس منظر یوں بتاتے ہیں:
’’ایک رات کرشن جی نے اپنی محبوبہ رادھا سے ناچنے کے لیے کہا۔ رادھا نے معذرت طلب کی۔ مگر کرشن جی ناچنے کے لیے مسلسل اصرار کرتے رہے۔ رادھا جی کو جب یہ محسوس ہوا کہ کرشن جی کسی طرح ماننے والے نہیں ہیں، تو اُنھوں نے کرشن جی سے کہا، ٹھیک ہے! میں ناچوں گی، آپ پہلے نو من تیل کا چراغ جلوائیے، کیوں کہ میں ایسی ویسی نہیں ہوں، آپ کی محبوبہ ہوں۔ اس لیے میری بھی کچھ حیثیت ہے۔ کرشن جی یہ کہہ کر خاموش ہوگئے کہ، نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی‘‘۔
’نا‘ کا استعمال اردو میں تاکید اور تائید کے لیے بھی ہوتا ہے۔ مثلاً:
’’ہے نا حیرت کی بات!‘‘
’’دیکھو! کتنا حسین منظر ہے۔ ہے نا!‘‘
یا جیسے غالبؔ نے آپ کو اصرار کر کرکے دعوت دی ہے:
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
خوبانِ کشورِ پنجاب کسی کام کو تاکید کے ساتھ منع کرنا چاہیں تو ’’ایسا نہ کرو نا‘‘ کہنے کی جگہ ’’ایسا نہ نہ کرو‘‘ کہا کرتے ہیں۔ یہ فقرہ سن کر ہمیں ہر بار یہ مشہور ریاضیاتی شعر یاد آجاتا ہے:
دو منفیوں کی ضرب کا مثبت جواب ہے
تم بھی خدا کے واسطے کہہ دو نہیں نہیں
بعض لوگ ’نا‘ کو، بالخصوص اصرار اور تاکید والے ’نا‘ کو، نون غنّہ کے ساتھ ’ناں‘ لکھتے ہیں۔ ’’ہے ناں؟‘‘
ان بعض لوگوں میں ہم خود بھی شامل تھے۔ مگر جب سے معلوم ہوا ہے کہ ’ناں‘ کو شامل کرنے سے اردو کی ہر لغت نے ’ناں‘ کردیا ہے، تب سے ہم نے بھی ناں لکھنا چھوڑ دیا ہے۔
’’ناں‘‘ کے موضوع پر ایک بڑا دلچسپ و لذیذ قصہ یاد آتا ہے: ’’مجھ سے ناں نہ کی جاوے ہے‘‘۔ مگر یہ قصہ کبھی اور سہی۔
nn