عوام کی اجتماعی سوچ کی عکاس اور ترجمان ہے
گلگت بلتستان اسمبلی نے متفقہ طور پر عبوری صوبے کی قرارداد منظور کی ہے۔ اس قرارداد کا متن یوں ہے:۔
۔’’گلگت بلتستان کا یہ مقتدر ایوان عوام کی دیرینہ خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت، وزیراعظم پاکستان و دیگر ریاستی اداروں کے حکامِ بالا سے پُرزور مطالبہ کرتا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ قرار دے کر قومی اسمبلی، سینیٹ اور دیگر وفاقی اداروں میں مناسب نمائندگی دی جائے۔ عبوری صوبہ قرار دینے کے سلسلے میں آئینِ پاکستان میں مناسب ترامیم کا بل منظور کرایا جائے، اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ مذکورہ ترامیم سے اقوامِ متحدہ کی مسئلہ کشمیر سے متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں پاکستان کا اصولی مؤقف برقرار رہے۔ یہ مقتدر ایوان اس بات کا بھی اعادہ کرتا ہے کہ گلگت بلتستان مقبوضہ کشمیر میں اپنے بھائیوں کی جدوجہدِ آزادی میں اخلاقی اور سیاسی حمایت حسبِ سابق جاری رکھیں گے‘‘۔
قرارداد پر وزیراعلیٰ خالد خورشید، قائدِ حزبِ اختلاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنما امجد حسین، پی ٹی آئی کے وزرا راجا محمد اعظم خان اور لیفٹیننٹ کرنل (ر) عبیداللہ بیگ، مسلم لیگ (ن) کے غلام محمد، مجلس وحدت المسلمین کے نمائندے اور وزیر حکومت محمد کاظم، جے یو آئی (ف) کے رحمت حق کے دستخط ہیں۔ یہ متفقہ قرارداد وزیراعلیٰ نے ایوان میں پیش کرکے منظوری حاصل کی۔ وزیراعلیٰ خالد خورشید نے ایک ٹویٹر پیغام میں قرارداد کی منظوری پر مسرت کا اظہار کیا اور اسے نہ صرف تاریخی کہا بلکہ اپوزیشن کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اسمبلی سے باہر کچھ تنظیموں نے اس فیصلے کی مخالفت میں احتجاج کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور ہونے والی یہ قرارداد خطے کی بدلتی ہوئی جیو اسٹرے ٹیجک صورتِ حال میں قطعی متوقع تھی۔ اس قرارداد میں جہاں مسئلہ کشمیر کی نزاکتوں کا خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے، وہیں یہ اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے گلگت بلتستان کے عوام کی متفقہ آواز بھی ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام نے پہلے ہی ایک طویل مدت سرزمینِ بے آئین میں بسر کی ہے۔ سرزمینِ بے آئین ہی کیا، یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ سرزمین کے طور پر نہ پہچانا جانا بھی علاقے کا مقدر رہا۔ 2009ء میں اس علاقے کا ’شمالی علاقہ جات‘ کا مہمل نام بدل کر اسے گلگت بلتستان کا نام دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی علاقے کے جمہوری حق کے خدوخال بھی پہلی بار واضح ہوئے۔ اس علاقے کے عوام براہِ راست حقِ رائے دہی کو ترستے رہے ہیں۔ بہت دیر کے بعد اس علاقے کے لوگوں کو رائے دہی کے استعمال کا حق ملا ہے، اب وہ اس حق کو مزید مستحکم اور وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش عوام کی جبلت اور زمینی حقائق کے عین مطابق ہے۔ عبوری صوبے کا مطلب ہی عارضی انتظام ہے۔ مسئلہ کشمیر کے تین اہم اور بنیادی، اور ایک بارہواں کھلاڑی بھی موجود ہے۔ کشمیری عوام پاکستان اور بھارت تنازعے کے تین بنیادی فریق ہیں، جبکہ بعد کے حالات نے چین کو بھی ایک فریق بنادیا ہے، کیونکہ مہاراجا ہری سنگھ کی ریاست کا کچھ علاقہ چین کے کنٹرول میں بھی ہے۔ چار میں سے تین فریق کشمیری، پاکستان اور چین اس ریاست کو متنازع سمجھتے ہیں۔ وہ اس ریاست سے متعلق تمام فیصلوں کو عبوری رکھے ہوئے ہیں۔ صرف بھارت نے کشمیر کے مسئلے کی یک طرفہ اور مضحکہ خیز تشریح گھڑ رکھی ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد بھارت نے اپنے زیر قبضہ جموں وکشمیر اور لداخ کا اسٹیٹس تبدیل کردیا ہے، مگر دنیا نے اس مؤقف کو من وعن تسلیم نہیں کیا، اور اس پر بھارت کو چین کے ہاتھوں کئی چرکے سہنا پڑے ہیں۔
عبوری انتظام کا ایک اور ثبوت چین پاکستان سرحدی معاہدہ بھی ہے جسے عبوری کہا گیا ہے۔ معاہدے میں یہ بات صراحت سے درج ہے کہ آنے والے وقت میں کشمیر کا اختیار جس طاقت کے پاس ہوگا اسے معاہدے پر نظرثانی کا حق حاصل ہوگا۔ گویا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی صورت میں خطے کا کنٹرول اگر کشمیری عوام کو ملتا ہے تو وہ چین کے ساتھ اس معاہدے پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ بارڈر کے بجائے ’کنٹرول لائن‘ اور ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ کی اصطلاحات کا سات عشروں سے مستعمل ہونا بھی ایک عبوری انتظام ہی ہے۔ اسی طرح آزادکشمیر کے معاملات کو چلانے کے لیے جو آئین تیار کیا گیا ہے اُسے’’انٹرم کانسٹی ٹیوشن‘‘ یعنی عبوری آئین کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان صوبہ بن کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی حاصل کرتا ہے تو اس کا عبوری ہونا مسلمہ ہے، اور خود گلگت بلتستان اسمبلی نے اس باریکی اور حساسیت کو پیش نظر رکھنے کی درخواست کی ہے۔ یہ قرارداد گلگت بلتستان کے عوام کی اجتماعی سوچ کی عکاس اور ترجمان ہے۔ اس قرارداد میں وفاق میں حکومت کے خلاف منقار زیر پا جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کی مقامی شاخوں کے نمائندوں کے دستخط اس کا وزن بڑھاتے ہیں۔ امید اور توقع یہی ہونی چاہیے کہ گلگت میں عبوری صوبے کی حمایت کرنے والی یہ قومی جماعتیں اسلام آباد میں محض نمبر اسکورنگ کی خاطر ’’کشمیر بیچ دیا گیا‘‘کا راگ نہیں الاپیں گی۔ اسلام آباد میں حکومت کو تقسیمِ کشمیر کا ذمہ دار قرار دینے والے بلاول بھٹو اور مریم نواز گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں اس موضوع کو کامیابی سے نظرانداز کرتے رہے۔ ان جماعتوں کی مقامی شاخوں نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی قرارداد پر خود اپنی بنیاد پر دستخط نہیں کیے ہوں گے۔ اب عمران خان کی مخالفت میں ان جماعتوں کو گلگت بلتستان کے عوام کے مطالبے کو کنفیوز نہیں کرنا چاہیے۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر خان جو اکثر اس طرح کے مواقع ضائع نہیں کرتے، اس معاملے پر کنی کترا گئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد پر یہ کہہ کر تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ وہ دوسری سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اپنا مؤقف جاری کریں گے۔ سیاسی جوتشی اس بات کی پیش گوئی کرتے چلے آرہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کا موجودہ اسٹیٹس بھی نظرثانی کی زد میں ہوگا، اور اس لحاظ سے آزادکشمیر قانون سازاسمبلی کے آمدہ انتخابات گلگت بلتستان کی ہی طرح اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔