آصف زرداری کی پنجاب پر سیاسی چڑھائی
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ اب حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کی ’’حکومت گرائو مہم‘‘ میں نئے سیاسی کارڈ کیا ہوں گے، اورکیسے یہ اتحاد حکومت کو انتہائی دبائومیں لاسکتا ہے؟کیونکہ اعتماد کے ووٹ کے بعد فوری طور پر تحریک عدم اعتماد کا معاملہ آگے بڑھ گیا ہے جو موجودہ صورت حال میں حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی ریلیف بھی ہے۔ اب اہم سیاسی معرکہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اس بڑے معرکے میں آصف زرداری کی سیاسی چالیں کس حد تک اپنا اثر دکھاتی ہیں اور کیسے وہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپنا امیدوار جتوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر واقعی آصف زرداری کا سیاسی جادو سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں بھی چل گیا ہے تو یہ حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سینیٹ چیئرمین کی نشست پر سیاسی جنگ جاری ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں مختلف چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی حمایت سے اس مقابلے میں برتری حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ حزبِ اختلاف کا مؤقف ہے کہ ان کو عددی برتری حاصل ہے اور اگر عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار رہتی ہے تو یوسف رضا گیلانی کی جیت یقینی ہوگی۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر وہ اس اہم محاذ پر شکست کھاتی ہے تو پی ڈی ایم کو اس پر سیاسی برتری حاصل ہوجائے گی اور حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لائے گی، اسے سیاسی سبکی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کیونکہ خفیہ بیلٹ کی بنیاد پر ہونا ہے، اس لیے یقینی طور پر پسِ پردہ جوڑ توڑ کا کھیل دیکھنے کو ملے گا اور عددی برتری کے باوجود سیاسی سرپرائز بھی سامنے آسکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد حکومت یا پی ڈی ایم میں سے کون ووٹ کے تقدس کی پامالی کا نعرہ لگاتا ہے!
آصف زرداری نے پی ڈی ایم کی طرف سے ضمنی و سینیٹ انتخابات کے بائیکاٹ کی حکمت عملی کی عملاً مخالفت کی تھی۔ ان کے بقول بائیکاٹ کی پالیسی ہماری نہیں، اور ہمیںکسی بھی صورت میں سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے، اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اس کا براہِ راست فائدہ ہمارے سیاسی مخالفین کو ہی ہوگا۔ آصف زرداری کے بقول ہمیں بڑی سیاسی مہم جوئی، ٹکرائو کی پالیسی یا سیاست میں الجھنے کے بجائے تحمل سے آگے بڑھنا ہوگا۔ وہ اس پالیسی کے حامی ہیں کہ حکومت کو پہلے مختلف محاذوں پر کمزور کرنا ہوگا اور پھر کسی بڑے حملے کی تیاری کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی۔ اسی بنیاد پر وہ اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر استعفوں کی حکمت عملی کی بھی کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں۔ آصف زرداری کا مؤقف تھا کہ ہمیں تبدیلی کا سفر مرکز کے بجائے پنجاب سے کرنا ہوگا، اگر ہم پنجاب میں عمران خان کی حکومت گرانے میں کامیاب ہوگئے تو نہ صرف عمران خان کو دبائو میں لایا جاسکے گابلکہ مرکزی حکومت کو گرانا زیادہ آسان ہوجائے۔ بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ آصف زرداری کمالِ ہوشیاری سے اپنے سیاسی کارڈ کھیل رہے ہیں، اور وہ کسی بھی بڑی سیاسی مہم جوئی کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ اب پی ڈی ایم کے سیاسی فیصلوں پر آصف زرداری کی بالادستی نظر آرہی ہے۔
اسی نکتے کو بنیاد بناکر اب پی ڈی ایم کا اگلا ہدف پنجاب میں پی ٹی آئی اور عثمان بزدار کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ اس کے لیے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں بشمول پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا بڑا انحصار مسلم لیگ (ق) یا چودھری برادران پر ہے، کیونکہ اگر واقعی پنجاب میں حکومت کو تبدیل کرنا ہے تو یہ کام چودھری برادران کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ ابتدائی طور پر بلاول بھٹو اور چودھری برادران کی باہمی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں بلاول بھٹو نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں سیاسی مدد مانگی، مگر چودھری برادران نے واضح طور پر ان کی سیاسی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ چودھری برادران کے بقول ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور ان کے سیاسی فیصلوں کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔ جہاں تک پنجاب میں تبدیلی کا تعلق ہے تو پہلا سوال یہی اٹھتا ہے کہ تبدیلی کے اس عمل سے چودھری برادران کو کیا حاصل ہو گا؟ کیونکہ اگر چودھری برادران کو حکومت کی تبدیلی سے وزارتِ اعلیٰ نہیں ملنی تو وہ کیوں مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کی حمایت کریں گے؟ شریف برادران کسی بھی صورت میں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ چودھری برادران کو نہیں دیں گے، کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ ایسی صورت میں چودھری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ بن کر نئی سیاسی طاقت حاصل کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی چودھری برادران وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے کافی مطمئن نظر آتے ہیں۔ عمران خان کے بعد پرویزالٰہی ہی عثمان بزدار کی سیاسی طاقت بھی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بھی سمجھتی ہے کہ آصف زرداری کی پنجاب پر سیاسی چڑھائی ان کی پارٹی کے مفاد میں نہیں، اور ہمیں ان معاملات پر زیادہ احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔
پی ڈی ایم نے کچھ عرصے سے اس تاثر کو نمایاں کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب کافی حد تک نیوٹرل ہوگئی ہے اور اس نے عمران خان کی اندھی حمایت واپس لے لی ہے۔ پی ڈی ایم سمجھتی ہے کہ اس خیال کو سیاسی محاذ پر زیادہ مضبوطی سے پیش کرنا ہوگا کہ موجودہ صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ نے خود کو نیوٹرل کرلیا ہے یا اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے متبادل کی تلاش میں ہے، یا ہم ہی ان کے متبادل ہیں۔ پی ڈی ایم کافی حد تک سمجھ چکی ہے کہ براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت سے وہ طاقت یا اقتدار کے کھیل میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ اگر پی ڈی ایم کو کچھ حاصل کرنا ہے تو اسے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کرکے ہی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی سطح پر راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ پی ڈی ایم اسی نکتے کو بنیاد بناکر اب توپوں کا رخ محض عمران خان تک محدود کرنا چاہتی ہے، تاکہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہم اُس کے ساتھ مفاہمت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر پی ڈی ایم کو محسوس ہوتا ہے کہ مفاہمت کا راستہ نہیں نکل رہا اور ہماری تمام حکمت عملی کوئی نتیجہ نہیں دے سکی تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دوبارہ سرگرم ہوا جاسکتا ہے۔ خود مریم نواز کہتی ہیں کہ وزیراعظم نے ایوان سے جو اعتماد کا ووٹ حاصل کیا ہے اس کے پیچھے ایجنسیوں کی مدد شامل تھی۔ اس سے قبل وہ ڈسکہ کے انتخابی معرکے میں حکومت کے ماتحت ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کرچکی ہیں۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کے دعوے کو پی ڈی ایم کا مکمل سچ نہ سمجھا جائے، اور یہ بھی ان معاملات میں اگر یوٹرن لیتے ہیں تو یہ انہونی بات نہیں ہوگی۔
پی ڈی ایم میں نوازشریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن فوری انتخابات کے حامی ہیں۔ جبکہ آصف زرداری اور خود شہبازشریف بھی اس سوچ کے حامی نہیں لگتے۔آصف زرداری نے جو تحریک عدم اعتماد کا فارمولا پیش کیا تھا اس میں بھی حکومت کی تبدیلی یا نئے انتخابات کی جگہ وزیراعظم کی تبدیلی اور سیاسی نظام اسی حکومت کو چلانے سے جڑا ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں پی ڈی ایم میں فیصلہ کن حیثیت آصف زرداری نے حاصل کرلی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آصف زرداری نے کمالِ ہوشیاری سے مریم نواز، نوازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن کومجبور کردیا ہے کہ وہ ان کے فیصلوں کے ساتھ ہی آگے بڑھیں۔اس بات کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیں آنے والے کچھ ہفتوں میں پی ڈی ایم کی اپنی سیاست سے جڑے داخلی تضادات نمایاں طور پر دیکھنے کو ملیں، اور خاص طور پر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن دونوں بڑی جماعتوں کی پالیسی سے زیادہ خوش نہیں۔پی ڈی ایم پہلے بھی کئی یوٹرن لے چکی ہے۔ اسمبلیوں سے استعفے، سینیٹ اور ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ اور لانگ مارچ سمیت کئی معاملات پر وہ اپنا بھرم قائم نہیں رکھ سکی، اورجب بھی حکومت کی مخالفت میں کوئی حتمی فیصلہ کرنا پڑتا ہے تو پی ڈی ایم متفقہ فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے ،اورمعاملات میں طوالت کی وجہ سے اس کی اپنی سیاسی ساکھ پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پی ڈی ایم کو جو لانگ مارچ کرنا تھا اوراس کے بقول یہ لانگ مارچ اُس وقت تک اسلام آباد میںموجود رہے گا جب تک حکومت کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا۔ کیا ایسے لانگ مارچ کا فیصلہ آنے والے کچھ دنوں میں پی ڈی ایم کرسکے گی؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ لانگ مارچ ہوجائے، لیکن یہ ایک دو دن سے زیادہ کا نہیں ہوگا، اور اس کی حیثیت علامتی ہی ہوگی، اوراسے مہنگائی یا معاشی بدحالی کے نام سے بھی جوڑا جاسکتا ہے۔اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ پی ڈی ایم اپنے جلسے مختلف شہروں میں کرکے سیاسی میدان سجاتی رہے گی، اوراسی بنیاد پر حکومت کی مخالفت بھی ہوگی۔لیکن پی ڈی ایم کوئی بڑی عوامی تحریک چلاسکے گی، اس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے، اور یہی حکومت کے لیے بھی امید کا پہلو ہے کہ پی ڈی ایم کسی بڑی سیاسی تحریک کو پیدا کرنے کا نہ تو شوق رکھتی ہے اورنہ ہی اس میں وہ جان ہے کہ وہ ملک گیر تحریک چلاسکے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت پر زیادہ سے زیادہ دبائو بڑھانے کے لیے محاذ آرائی کی سیاست کو زندہ رکھے گی۔ اس کے لیے تواتر سے حکومت پر سیاسی حملے بھی کیے جائیں گے اور یہ تاثر بھی دیا جائے گا کہ بس اب حکومت جانے والی ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اگر اس حکومت کو کمزوریا داخلی سطح پر غیر مستحکم کرنا ہے تو اسے روزانہ کی بنیاد پر مختلف مسائل یا ٹکرائو کی سیاست میں الجھا کر رکھنے میں ہی پی ڈی ایم کا سیاسی مفاد ہے۔