یوسف رضا گیلانی کی غیر متوقع جیت کے نفسیاتی اثرات ابھی تک جاری ہیں
شہرِ اقتدار اسلام آباد میں… جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کے موسم اور لوگوں کا مزاج ہم آہنگ ہے… موسم بدلتے دیر نہیں لگتی، اور یہی کچھ لوگوں کا معاملہ ہے، بلکہ سیاست اور اقتدار کا بھی۔ حکومتی ایوانوں میں کئی روز سے عمومی، اور ہفتے کے روز کے اعتماد کے ووٹ سے ایک رات پہلے تک خصوصی ہلچل اور تھرتھلی مچی ہوئی تھی۔ قریب قریب یقین تو یہی تھا کہ اعتماد کے پورے ووٹ مل جائیں گے، لیکن ایک دھڑکا بہرحال موجود تھا، کیوں کہ حفیظ شیخ کی سینیٹ کی نشست پر جیت کا یقین تھا، مگر انہونی ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی کی غیرمتوقع جیت کے نفسیاتی اثرات ابھی تک جاری ہیں، اسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی لینا پڑا، اور اب انہیں قیاس آرائیوں میں الجھے ہوئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دریا کا سامنا ہے، اس کے بعد انہیں اپنا تختِ لاہور بھی بچانا ہوگا۔ سینیٹ کے انتخاب میں پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے۔ سینیٹ کے الیکشن میں ایم این اے سنبھال نہ پانے پر اب وفاق کا تختِ لاہور خطرے میں ہے۔ پی ڈی ایم نے اگرچہ جارحانہ پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، اسی لیے لانگ مارچ کی بھی تاریخ دے دی ہے، تاہم اسے بھی اپنی چار پائی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹ انتخاب میں اسلام آباد کی ایک جنرل نشست اگرچہ پی ڈی ایم کے ہاتھ لگی ہے، مگر اُسے دعوے کے مطابق ووٹ نہیں ملے، بلکہ کہا جارہا ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کی بینچوں پر 35 ارکان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی قیادت کے حکم کے برعکس ووٹ ڈالا ہے، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو پولنگ بوتھ تک تو پہنچے لیکن اپنا ووٹ ضائع کیا۔ اب پھر وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ان کے ارکان کو آفر مل رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان خود وزیراعظم ہیں، ان کے پاس معلومات ہیں تو کیوں ثبوت کے ساتھ معاملہ ایف آئی اے کے حوالے نہیں کرتے؟ وزیراعظم کی بات تسلیم کرلی جائے تو ارکان کا یہ طرزِعمل ایک بہت بڑا سوال ہے، اورسیاسی بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ صاف پتا چلتا ہے کہ دونوں جانب کی قیادت پر ارکان قومی اسمبلی میں اعتماد کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ جس طرح وزیراعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لیا گیا اُس سے اندازہ ہورہا ہے کہ یہ بحران ختم ہونے کے بجائے بڑھ سکتا ہے۔ یہ طرزِعمل قیادت کے بیانیے کے خلاف بغاوت بھی کہا جاسکتا ہے۔
اب پنجاب میں تبدیلی کی افواہیں ہیں، متبادل وزیراعلیٰ کے لیے بہت سے نام لیے جارہے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’’جب تک میں وزیراعظم ہوں، بزدار ہی وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے‘‘، لیکن حالات ایک بڑے یوٹرن کی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں، کیونکہ وزیراعظم پر دبائو ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ ایسا اس لیے بھی ہونے جارہا ہے کہ اب فیصلہ ہوچکا ہے کہ اقتدار حکومت اور اپوزیشن میں باہم تقسیم کردیا جائے اور اگلے ڈھائی سال کے بعد دونوں فریق انتخابات کی عوامی عدالت میں اعمال نامے کے ایک ہی پلڑے میں نظر آئیں۔ یہ ماحول چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور اگلے عام انتخابات تک جاری رہے گا، اور یہی ماحول ملک کی تمام سیاسی قوتوں کے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے مددگار ہوگا۔ بلاشبہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ایک زبردست معرکہ آرائی ہوگی جو طاقت کے توازن کا بھی فیصلہ کرے گی، تحریک انصاف کے حق میں نتائج نہ آئے تو یہ آفٹرشاک دھماکہ خیز ہوگا، اس کے بعد تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوتی رہے گی۔
قومی اسمبلی میں 180 میں سے 178 کی بڑی برتری کے ساتھ اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے وزیراعظم عمران خان نے کم از کم چھے ماہ کے لیے ایوان کے اندر اپنی حکومت تو بچا لی، اورحفیظ شیخ والی چال کی شکست کا بدلہ بھی سیاسی حریف پی ڈی ایم سے لے لیا، مگر یہ کام کس قیمت پر ہوا؟ کیونکہ نشست کھو دینے کے باوجود اقتدار ہاتھ میں تھا، اعتماد کا ووٹ نہ ملتا تو یہ فرق بھی مٹ جاتا۔ مگر پی ڈی ایم نے کاری ضرب لگا دی ہے جس سے حکومت کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔
قومی سیاست کے نشیب و فراز بھی عجب رنگ دکھا رہے ہیں۔ ایک لمحہ یہ بھی آیا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں کھڑے ارکانِ سینیٹ میں سے 14 ارکان خفیہ بیلٹ کے دوران غائب ہوجاتے ہیں، اور اب سینیٹ انتخاب میں وزیراعظم کے ظہرانے میں 176 ارکان حاضر ہوئے اور ووٹ کے وقت 12 ارکان ’’لاپتا‘‘ ہوگئے، اور اعتماد کی تحریک کے دوران پھر’’ بازیاب‘‘ ہوگئے۔ چھپن چھپائی کے کھیل کو صورتِ خورشید جینے کا نام ہرگز ہرگز نہیں دیا جاسکتا، اس صورت حال پر اگر وزیراعظم حقائق بیان کریں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ
کیا ہے حریفوں نے دور ان کو مجھ سے
حقیقت سے پردہ اٹھائوں میں کیسے
انہیں سب علم ہے مگر خاموش ہیں۔ وزیراعظم اور حکمران جماعت کی سیاست کی ساری کہانی اس شعر میں سموئی ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے مگر پی ٹی ایم کے رکن اسمبلی محسن داوڑ نے سوال اٹھا دیا ہے کہ جتنے ووٹ بتائے گئے اتنے ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے، وزیراعظم کو 172ووٹوں کی ضرورت تھی مگر انہیں 6 ووٹ زیادہ ملے۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف نے واک آئوٹ کیا، اسی لیے کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن کی مکمل عدم شرکت سے اس اجلاس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ دینے والے اُن تمام ارکان کو معاف کردیا جنہوں نے حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ کس نے ووٹ دیا اور کس نے نہیں دیا، وہ ارکان جنہوں نے حکمران جماعت کے امیدوار کے بجائے اپوزیشن کے امیدوار کوووٹ دیا ان کے خلاف اب کسی قسم کی تحقیقات نہیں ہوں گی۔ یہی تو احتساب کا ’’ایبڈو قانون‘‘ کہتا تھا کہ جو ہمارے ساتھ ہیں، ان کے خلاف کوئی مقدمات نہیں ہوں گے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان حکومتی ارکان نے ووٹ دیتے وقت سینیٹ کے لیے نامزد کیے گئے حکومتی امیدوار کو واقعتاً اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق اپوزیشن کے امیدوار کے مقابلے میں بہتر نہ سمجھا ہو، اسی لیے خفیہ بیلٹ کا فائدہ اٹھالیا۔ قابلِ شناخت ووٹ کی صورت میں نتیجہ مختلف ہوتا جیسا کہ وزیراعظم کی جانب سے اعتماد کے ووٹ کے حصول میں نظر آیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل62 اور63 پر عمل درآمد کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ سیاست میں شفافیت اور امانت و دیانت کی اقدار کے فروغ کی خواہش کے جو دعوے ملک کی موجودہ قیادت کی جانب سے کیے جاتے ہیں ان کا تقاضا تھا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان دھمکی آمیز لب و لہجے کے بجائے اس یقین دہانی کے ساتھ کیا جاتا کہ تمام ارکان کو اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کی آزادی ہے، لہٰذا لوگ بے خوف ہوکر اپنی دلی رائے کا اظہار کریں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت کے پندرہ، سولہ ارکان وزیراعظم کے اپنے بیان کے مطابق ضمیر بیچنے کے مجرم اور دارالحکومت سے سینیٹ کی نشست پر حکومت کی شکست کے ذمہ دار ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ اپنا منصب برقرار رکھنے کی خاطر ان ارکان کی حمایت کا حصول وزیراعظم کے لیے لازم ہوگیا۔ اپوزیشن کا مؤقف یہ ہے کہ اعتماد کی تحریک میں عمران خان کے مقابلے میں کوئی تھا ہی نہیں۔ اگر کوئی مقابلے میں ہوتا تب پتا چلتا کہ کس میں کتنا دم ہے، جب آپ اکیلے ہی میدان میں ہوں تو بلامقابلہ منتخب ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت ہی کیا تھی! ،آئین میں وزیراعظم کے لیے اعتماد کے ووٹ اور عدم اعتماد کی تحریک کے لیے وضاحت کے ساتھ آرٹیکلز موجود ہیں، انہی آرٹیکلز کی روشنی میں رہتے ہوئے حکومت کو فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ بہرحال جیسے تیسے بھی ہوا، وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے، لیکن ملک میں یہ سیاسی عمل SEE,SAW کھیل کی مانند ہے۔ کبھی اپوزیشن اوپر ہوتی ہے اور کبھی حکومت۔
یہ سب کچھ تو ہورہا ہے مگر وہ تبدیلی کہیں نظر نہیں آرہی جسے ڈالر بیرونِ ملک سے لانے تھے، قرضے منہ پر مارنے تھے، کڑا احتساب کرنا تھا، آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دینی تھی۔ یہ تبدیلی گم ہوچکی ہے۔ کرپٹ اشرافیہ کے مزے ہیں، جو ستّر کروڑ روپے میں سینیٹ کا ٹکٹ خریدتے ہیں۔ اس کے برعکس اس ملک کے غریبوں کی قسمت میں مہنگائی لکھ دی گئی ہے۔ جنہوں نے قرض معاف کرائے مگر اعتماد کا ووٹ دے دیا وہ سب مطمئن رہیں، تبدیلی ان کے لیے نہیں آئی۔ حکومت میں آنے سے قبل تبدیلی کے بڑے نعرے بلند کیے گئے تھے کہ بینکوں سے قرضے معاف کروانے والوں اور ملک کو لوٹنے والوں کو نہیں چھوڑ اجائے گا، لیکن چن چن کر ایسے لوگوں کو اپنے آس پاس بٹھا لیا گیا اور وزارتیں بھی دی گئی ہیں۔ پارلیمنٹ میں ایک بل بھی پاس کیا گیا کہ جتنے بھی سابق اسپیکر اسمبلی ہیں انہیں تاحیات مراعات دی جائیں گی جس میں خانساماں، ڈرائیور، گاڑی اور الاؤنس کے علاوہ معاوضہ بھی شامل ہے۔
ضمنی انتخابات کے بعد سینیٹ کا انتخاب ہوا، اور اس کے نتائج پر حکومت اس قدر سیخ پا ہوئی کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ایوان میں کھڑے ہوکر الیکشن کمیشن کے سینے میں تیر اتار دیے۔ الیکشن کمیشن پر الزام تراشی اور دشنام طرازی وزیراعظم کے شایانِ شان نہیں تھی۔ الیکشن کمیشن کے پاس اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات ہیں اور چیف الیکشن کمشنر کے پاس سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات ہیں۔ اس تقریر پر الیکشن کمیشن انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کرکے کوئی بھی فیصلہ دے سکتا تھا، مگر اس نے تحمل سے کام لیا اور محاذ آرائی کا در نہیں کھولا، لیکن یہ توہینِ عدالت کا کیس ہے، اس کے نتیجے میں نااہلی بھی ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم سربراہِ حکومت ہیں، انہیں الیکشن کمیشن کی ساکھ اور چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لحاظ رکھنا چاہیے، لہٰذا اعتماد کا ووٹ لیا گیا، مگر اس کے بعد خطاب میں وزیراعظم کی جانب سے الیکشن کمیشن سے متعلق جو گفتگو کی گئی یہ اشارہ ہے کہ حالات ٹکرائو کی جانب جارہے ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن شفافیت دکھانے میں ناکام رہا، ایک ویڈیواور آڈیو سامنے آئی، تو فواد چودھری ایک رات پہلے الیکشن کمیشن گئے لیکن وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔فواد چودھری نے میڈیا کے سامنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ ویڈیو آنے کے بعد الیکشن کمیشن پر سب سے زیادہ ذمہ داری تھی کہ الیکشن کو شفاف ا، الیکشن کمیشن نے اب ویڈیو کیس کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کام پہلے بھی ہوسکتا تھا، اب کہاجائے گا کہ حکومت کے دبائو پر یہ کام ہورہا ہے۔ بہرحال وزیراعظم کا یہ ردعمل بتارہا ہے کہ جنگ اب شروع ہوئی ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ کھل کر بات کریں اور جائزہ لیں کہ ان سے کہاں غلطی ہورہی ہے۔ عمران خان بطور وزیراعظم حکومت کے سربراہ بھی ہیں اور معیشت بہتر بنانے کے علاوہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے بھی انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ملک کی وزارتِ عظمیٰ پھولوں کی سیج نہیں ہے، یہ منصب ذمہ داری قبول کرنے اور سمجھ داری سے کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
ہوسکتا ہے اعتماد کے ووٹ کے لیے وزیراعظم کو اپوزیشن سے غیبی امداد مل گئی ہو، لیکن پنجاب میں تحریک انصاف کو اعتماد کا ووٹ نہیں مل سکتا، گورننس اور کارکردگی کے لحاظ سے تحریک انصاف کی یہ بہت کمزور وکٹ ہے، یہاں اعتماد کا ووٹ لیا گیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب کی وکٹ اڑ سکتی ہے۔