وزیراعلیٰ کی اقربا پروری
وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی میرٹ، اصول و قانون کی پاس داری کرنے والے نہیں رہے۔ وہ احکام بجا لاتے ہیں اور اقرباء پرور بھی ہیں۔ 3 مارچ2021ء کے سینیٹ انتخابات نے ان کی مزید قلعی کھول دی ہے۔ جام کمال حکومت کی چھتر چھایہ میں ایک سرمایہ دار محمد عبدالقادر نے وارد ہوکر خود کو دولت کے بل بوتے پر سینیٹر منتخب کرا لیا۔ ثمینہ ممتاز بھی اسی قبیل کی امیدوار تھیں جو سرمائے کی بدولت سینیٹر منتخب ہوئیں۔ جنرل نشست پر بی اے پی (باپ) کے نومنتخب سینیٹر پرنس آغا عمر احمد زئی جام کمال کے قریبی رشتے دار ہیں۔ جام کمال اقربا پر کرم نوازیاں مزید بھی کرچکے ہیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ نواز، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی سازش کے بعد بلوچستان کے کئی افراد نے نون لیگ کو پیٹھ دکھائی۔ ان میں جام کمال خان بھی شامل تھے۔ حالاں کہ ان سے مسلم لیگ نواز نے کوئی زیادتی بھی نہیں کی تھی، بلکہ انہیں پیٹرولیم اور گیس کی وزارت دے رکھی تھی۔ چناں چہ مارچ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں جام کمال کے سالے حسین اسلام نے بھی کاغذات جمع کرائے تھے، جو بوجوہ قبول نہ ہوئے۔ اس کے بعد اس شخص کو وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کا معاونِ خصوصی لگوایا گیا۔ یوں حالیہ سینیٹ الیکشن میں بھی حسین اسلام کے امیدوار بننے کی بازگشت تھی، مگر ایسا نہ ہوا۔ بہرحال وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنے اس قریبی رشتے دار کو سینیٹ الیکشن سے پہلے کھپاکر چیئرمین سینیٹ کا مشیر بنایا، جس کا نوٹیفکیشن17فروری2021ء کو جاری کیا گیا۔
تضاد بلوچستان نیشنل پارٹی کے اندر بھی دکھائی دیا، جس نے سینیٹ الیکشن سے محض چند گھنٹے قبل شامل ہونے والی نسیمہ احسان کو خواتین کی سینیٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب کرایا۔ نسیمہ احسان رکن بلوچستان اسمبلی سید احسان شاہ کی اہلیہ ہیں۔ یہ خاتون آزاد حیثیت سے سینیٹ انتخاب لڑرہی تھیں۔ سو احسان شاہ اور اختر مینگل کی جماعت کی بات بن گئی اور انہیں پارٹی کی تعلیم یافتہ امیدوار پر ترجیح دے دی گئی۔ سید احسان شاہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے ٹکٹ پر تربت سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد ازاں پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد بلوچ سے بعض اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہوگئے اور پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے اپنی جماعت قائم کرلی۔
سردار اختر مینگل کی جماعت کے ارکانِ اسمبلی پر ووٹ فروخت کرنے کے شبہات کا اظہار بھی ہوا۔ بات یہ ہے کہ پارٹی نے ساجد ترین ایڈووکیٹ جیسے دیرینہ کارکن و رہنما کو ٹکٹ دے کر داد و تحسین تو حاصل کرلی، مگر الیکشن والے دن ان کو بے توقیر کردیا۔ پارٹی ارکانِ اسمبلی نے دوسری ترجیح میں موجود محمد قاسم رونجھو جیسے سرمایہ دار اور دولت مند شخص کو جنرل نشست پر سینیٹر منتخب کرایا۔ ساجد ترین کے پول میں ملک نصیر شاہوانی، ثناء اللہ بلوچ، اختر حسین لانگو، حمل کلمتی اور زینت شاہوانی شامل تھے۔ ساجد ترین کی شکست کی وجہ بی این پی کے دو ارکانِ اسمبلی کے بک جانا بتایا جاتا ہے۔گویا ان ارکانِ اسمبلی نے پیرا شوٹر عبدالقادر کو ووٹ فروخت کیے۔
سردار یار محمد رند نے اپنی بات و مؤقف پر قائم رہنے کے بجائے سینیٹ انتخابات سے عین ایک دن قبل ڈھیر ہوکر بیٹے سردار خان رند کو دست بردار کرایا۔ وہ اپنے مؤقف پر قائم رہتے تو ان کی عزت ہوتی اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو سبق بھی مل جاتا، جیسے جان محمد جمالی نے 2015ء میں سینیٹ کے انتخابات میں اپنی جماعت مسلم لیگ نواز سے ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلاف کیا اور بیٹی ثناء جمالی کو آزاد حیثیت سے انتخاب لڑایا۔ سعد رفیق تب معاملہ سلجھانے کوئٹہ آئے تھے۔ یہاں نوازشریف نے نواب ثناء اللہ زہری کو کلین چٹ دے رکھی تھی، جنہوں نے اپنے بھائی نعمت اللہ زہری اور سالے کو سینیٹر بنوایا، جو بعد میں پارٹی کے وفادار بھی ثابت نہ ہوئے۔ جان جمالی بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کی بیٹی اگرچہ ہار گئی مگر زبردست ووٹ حاصل کیے۔ گویا جان جمالی نے ان پر اپنی حیثیت اور اثرات واضح کردیے ۔ انتقاماً جان جمالی کو اسپیکر کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ بعدازاں تحریک عدم اعتماد کے بعد جان جمالی نے اپنی بیٹی ثناء جمالی کو سینیٹر بنواہی لیا۔ مگر سردار یار محمد رند بہت ہی کمزور واقع ہوئے ہیں۔