لیکن کیا واقعی خواتین کے استحصال میں کمی آئی ہے؟ یا خواتین پر تشدد میں اضافہ ہی ہورہا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
عورت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نازک آبگینے کہا ہے۔ مرد پر واجب قرار دیا گیا ہے کہ وہ عورت کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کرے، اسے اشیائے ضرورت فراہم کرے، اس کے لیے اپنی کمائی خرچ کرے، تاکہ عورت کی زندگی پُرامن ہوسکے، اس کو راحت اور آسائش ملے۔ مرد کو عورت کے لیے وسائل کی فراہمی کی تگ و دو کا مکلف بنایا گیا۔ اسی کام کو اس کے لیے عبادت کہا گیا۔ اس کے مقابلے میں عورت کو اپنے بچوں کی تربیت اور اپنے شوہر کی مدارات کے سوا کسی بات کا مکلف نہیں قرار دیا۔
لیکن مغرب عورت کو آزادی اور مساوات کا سبز باغ دکھاکر مسحور کرتا رہا ہے۔ آج عورت کو اپنے خلاف ایک نہایت وسیع اور پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔ اس جنگ کا مقصد عورت کو اُس کی محفوظ پناہ گاہ ’’گھر‘‘ سے نکال کر یا تو ایک نمائشی چیز بنانا ہے، یا پھر ملوں، کارخانوں اور دفاتر کی محنتی اور سستی کارکن۔
آج چاروں طرف کاریگری سے عورت کو عورت کے بجائے کچھ اور ہی بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ وہ نسوانی خصوصیات جو عورتوں کا طرہ امتیاز ہیں، انہیں خامیاں قرار دیا جارہا ہے۔ سادگی، محبت، اطاعت، وفاشعاری کے بجائے کچھ دوسری ہی خوبیاں اجاگر کی جارہی ہیں، جن سے عورت انسانیت کے معیار سے اتر کر مصنوعات کے فروغ کا ایک آلہ بن کر رہ گئی ہے۔ عورت کے دل میں یہ بات ڈالی جارہی ہے کہ اسے بچوں کی پیدائش، ان کی پرورش اور پرداخت کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔
اس کی بنیاد میں وہی حسین اور اسمارٹ بنے رہنے کا جذبہ کارفرما ہے۔ حالانکہ ایک عورت کا حسن اس کی وفا شعاری، محبت اور عفت کی حفاظت ہوتی ہے۔ خوش جمال بننے کا شوق اپنی جگہ، اس سے انکار نہیں کہ عورت کے اندر اس کا جذبہ بہت طاقتور ہے، لیکن ایک طرف اسے اپنے محرم خاص طور سے اپنے شوہرکے لیے مخصوص کرنا ضروری ہے، اور دوسری طرف خوش جمالی کے ساتھ خوش خصالی پر بھی توجہ دینا لازم ہے۔ شادی کے بعد محدود عرصے تک تو محبوبیت اچھی لگتی ہے، لیکن پھر ایک مخلص اور غم گسار ساتھی، سچے دوست، وفا شعار اور خدمت گزار شریکِ حیات ہی دلوں کو ٹھنڈک اور سکون بخشتی ہے، کہ
حسنِ صورت چند روزہ، حسنِ سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں، اس سے خوش ہوتا ہے دل
ہر سال یومِ خواتین حقوقِ نسواں کے نئے سنگِ میل طے کرنے کے لیے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ کنونشن، سیمینار، مذاکرے اور بحث و مباحثے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کامیاب کوشش نظر آتی ہے۔ لیکن کیا واقعی خواتین کے استحصال میں کمی آئی ہے؟ یا خواتین پر تشدد میں اضافہ ہی ہورہا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
نصف انسانیت کی ترجمانی اگر مرد کرتا ہے تو نصف انسانیت کی ترجمان عورت ہے۔ عورت اور مرد کبھی ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ کوئی سوسائٹی تنہا کسی ایک جنس سے وجود میں نہیں آسکتی۔ معاشرہ ترقی ہی اُس وقت کرتا ہے جب دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال سے معاشرتی رشتے قائم ہوں۔ میاں اور بیوی کوئی دو مختلف پارٹیاں نہیں جو اپنے اپنے حقوق کے لیے ایک دوسرے کے سامنے صف آراء رہیں۔ یہ ایک ہی پارٹی کے دو رکن ہیں۔ ایک پارٹی کے دو ارکان کے درمیان اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن جب پارٹی کے مفاد کی بات آئے گی تو رائے بھی ایک ہوجائے گی اور سوچ بھی ایک… میاں بیوی کو جب ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے تو یہ اس قربت، محبت، ایثار اور اخلاص کا استعارہ ہے جو میاں اور بیوی میں ہونا چاہیے۔
پچھلے سال عورت مارچ میں ایک خاتون پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھیں جس پر تحریر تھا ’’مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے؟‘‘۔
یہ خاتون اس پلے کارڈ کو تھامنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہتی تھیں کہ ’’گھر کے مردوں کی غلامی اور خدمت سے آزادی ایک اہم مطالبہ ہے جس کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے‘‘۔
گھر میں یہ خواتین گھر کے مردوں کی کیا خدمت کرتی ہوں گی؟ یہ بحث ہرگز اہم نہیں ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ رات کو گھر آنے والے شوہر، بیٹے، بھائی اور باپ کے لیے ہر ماں، بہن، بیوی اور بیٹی دیر تک جاگتی ہے، اور اس کو کھانا گرم کرکے دے کر اسے خوشی بھی ملتی ہے اور سکون بھی… دن بھر گھر کے پُرسکون اور آرام دہ ماحول میں گزارنے والی خواتین شاید اس قدر اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتیں جتنی کہ ملازمت کرنے والی خواتین… لہٰذا گھر واپسی پر گرم کھانا کبھی شوہر بیوی کے لیے بھی نکال کردے سکتا ہے… یہ کام ہرگز اس بات سے بڑا کام نہیںکہ وہ اپنی تنخواہ گھر کے اخراجات پر خرچ کرے اور اسٹور سے گھر کا سودا سلف لے کر آئے، جو کہ پاکستانی معاشرے میں مردوں کا کام ہی سمجھا جاتا ہے۔
عورت مارچ میں کچھ وہ خواتین بھی تھیں جو اس ہنگامے اور شور شرابے سے بیزار تھیں۔ انہیں نہ اس دن کی اہمیت پتا تھی، نہ وہ اُس مقصد سے واقف تھیں جس کے لیے انہیں یہاں لایا گیا تھا… کیونکہ انہیں تو اس وعدے پر لایا گیا تھا کہ مہینے بھر کا راشن ان کو دیا جائے گا۔ تو بس انہیں اس وعدے کے وفا ہونے کا انتظار تھا۔
مارچ میں شامل ایک بزرگ خاتون کہتی ہیں کہ میں تو جب سے آئی ہوں بس یہ دیکھے جارہی ہوں کہ کیا یہاں آنے والی ساری خواتین مظلوم ہیں؟ کیا انہیں قید میں رکھا گیا ہے جو آزادی مانگ رہی ہیں؟
۔’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا مطالبہ آزادی کی کون سی قسم متعارف کروا رہا ہے؟ اس سوال پر عورتوں کو ضرور غور کرنا چاہیے… یہ آزادی بھی اتنی ہی خطرناک ہے جتنے روایتی خاندانی رسوم و رواج، بلکہ اس سے بھی زیادہ… عورت کوئی کھلونا نہیں… اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا جواب ’’جس کی رقم اس کی مرضی‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ آج کاروکاری کے نام پر عورتوں کو قتل کرنا اپنی دشمنیاں نمٹانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، قرآن سے شادی اور ونی کے ذریعے عورت کو اس کے جائز حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ ان رسومات کا خاتمہ کوئی سیکولر نظام نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ پیداوار ہی لبرل اور غیر اسلامی نظام کی ہیں۔ ان کا خاتمہ اسلامی احکامات سے آگاہی اور اسلامی قوانین کے نفاذ سے ہی ممکن ہے۔
اسلام نے عورت کو خاندان کی بنیاد قرار دیا ہے، لیکن اس کے لیے فکر و عمل کی راہ بند نہیں کی۔ اس کو وہ تمام حقوق پہلے دن سے فراہم کیے ہیں جو معاشرے کا ایک کامیاب فرد بننے کے لیے ضروری ہیں۔ یہی نہیں، وہ معاشرے کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ عورت کے کامیاب فرد بننے میں اس کی مدد کرے اور ہر طرح کی رکاوٹ دور کرے۔ اسلام کے دیے ہوئے یہ حقوق عورت کے لیے مکمل ہیں اور انہی کا ہم مطالبہ کرتے ہیں۔