بلوچستان میں3مارچ2021ء کو ایوان بالاکی 12 نشستوں پر انتخاب ہوا۔کُل 28 امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا۔ جنرل کی 7، ٹیکنوکریٹس اور خواتین کی 2,2 اور ایک اقلیتی نشست پر نئے سینیٹرز کا انتخاب کیا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی پر مشتمل حکمران اتحاد نے 12 میں سے 8 نشستیں جیت کر اکثریت حاصل کرلی۔ جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی پر مشتمل حزبِ اختلاف نے 4 نشستیں جیتی ہیں۔ حکومت کے آٹھ کامیاب امیدواروں میں نواب زادہ عمر فاروق کاسی عوامی نیشنل پارٹی، اور محمد عبدالقادر آزاد سینیٹر ہیں۔ جبکہ باقی تمام چھے نشستیں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو ملی ہیں۔ سرفراز احمد بگٹی، منظور احمد کاکڑ ، پرنس آغا احمد عمر زئی جنرل نشست پر… سعید احمد ہاشمی ٹیکنوکریٹس پر… ثمینہ ممتاز خواتین… جبکہ دھنیش کمار اقلیتی نشست پر کامیاب ہوئے۔ جنرل نشست پر جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے محمد قاسم رونجھو سینیٹر بنے۔ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر حزب اختلاف کی جماعت جے یوآئی کے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ جیتے۔ خواتین کی نشست پر بی این پی مینگل نے نسیمہ احسان کو کامیاب کرایا جو آزاد حیثیت سے انتخاب لڑرہی تھیں اور صرف 24گھنٹے قبل بی این پی میں شامل ہوئیں۔ بی این پی نے اپنی دیرینہ خواتین کارکنوں کو نظرانداز کرکے انہیں منتخب کرایا۔ یہ خاتون رکن بلوچستان اسمبلی سید احسان شاہ کی اہلیہ ہیں۔ سید احسان شاہ 2018ء کے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے ٹکٹ پر تربت سے کامیاب ہوئے، لیکن وزارت نہ ملنے اور چند دیگر اختلافات کی بنا پر پارٹی سے منحرف ہوکر اپنی الگ جماعت پاکستان نیشنل پارٹی تشکیل دے دی۔ ممکن ہے آئندہ احسان شاہ بھی سردار اختر مینگل کی بی این پی مینگل میں شامل ہوجائیں۔ ساجد ترین ایڈووکیٹ جیسے دیرینہ اور پارٹی کے سینئر کارکن جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشست پر بی این پی کے امیدوار تھے۔ بی این پی نے انہیں پہلی ترجیح میں رکھا تھا، لیکن انتخاب کے دن ہوا یہ کہ بی این پی کے لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے قاسم رونجھو کامیاب ہوئے، جبکہ ساجد ترین حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے مقابلے سے کوسوں دور رہے۔ ساجد ترین کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر عوامی حلقوں میں بی این پی کو سراہا جارہا تھا کہ بلوچ اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود ایک پشتون رہنما کو ٹکٹ دیا، لیکن ساجد ترین کے ساتھ جو ہوا اُس کا احوال شاید آئندہ معلوم ہو۔ حکمران اتحاد کو پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کی دوبارہ زقند کا فائدہ ملا جنہوں نے پہلے اعتراضات اور شکووں کا طومار باندھ رکھا تھا کہ انہیں تحریک انصاف نے پارلیمانی بورڈ میں نہ لیا، نہ ہی انہیں عمران خان ملاقات کے لیے وقت دیتے ہیں، اور وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی نظرانداز کر رکھا ہے۔ یوں سردار رند اپنے بیٹے سردار خان رند کو آزاد حیثیت سے سامنے لے آئے۔ الیکشن سے ایک دن قبل وزیراعلیٰ جام کمال خان اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جن پر وہ سخت تنقید بھی کرچکے تھے، کے گھر گئے اور معاملہ بیٹھ کر حل کرلیا۔ اس کے بعد سردار یار محمد رند نے بیٹے کو دست بردار کرادیا۔ اس دست برداری کا پورا فائدہ حکمران اتحاد کو ہوا، وگرنہ حزبِ اختلاف کو فائدہ ہوتا۔ تحریک انصاف کے بلوچستان اسمبلی میں سات اراکین ہیں مگر اس جماعت نے سینیٹ میں امیدوار کھڑا نہیں کیا، اور سب کچھ ’باپ‘ پارٹی کی جھولی میں ڈال دیا۔ ممکن ہے سردار یار محمد رند سے وعدے کیے گئے ہوں، تبھی وہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹے۔ گویا تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی نے آزاد امیدوار محمد عبدالقادر کو ووٹ دیا جنہیں پہلے تحریک انصاف نے ٹکٹ جاری کیا تھا۔ انہوں نے سب سے زیادہ یعنی گیارہ ووٹ حاصل کیے۔ بی اے پی کے اپنے امیدواروں نے آزاد امیدوار عبدالقادر سے کم ووٹ لیے۔ محمد عبدالقادر اب شاید تحریک انصاف اور بی اے پی میں سے کسی جماعت میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلیں۔ حکمران اتحاد میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے سربراہ سردار اسرار زہری بھی بی اے پی کے حق میں دست بردار ہوئے۔ حزب اختلاف کے اندر مسئلہ یہ بھی ہوا کہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی سینیٹ الیکشن سے دست بردار نہ ہوئی۔ اس جماعت کے عثمان کاکڑ جنرل نشست پر امیدوار تھے۔ بلوچستان اسمبلی میں پشتون خوا میپ کا ایک ہی رکن ہے، اس بناء پر حزب اختلاف کو نقصان ہوا۔ نون لیگ کے نواب ثناء اللہ زہری حکمران اتحاد کی طرف گئے، یعنی ان کو سپورٹ کیا جن کے وہ زخم خوردہ تھے۔ یہی سیاسی گروہ تھا جو اُن کی حکومت کے خلاف تحریک اعتماد لایا۔ دیکھا جائے تو حکمران اتحاد نے بہتر بازی کھیلی ہے۔ بالخصوص ’باپ‘ پارٹی کی ایوانِ بالا میں عددی حیثیت بڑھ گئی ہے۔