گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی حیدرآباد (GCUH) پہلی سرکاری جنرل یونی ورسٹی ہے جو حیدرآباد میں قائم کی گئی ہے۔ اسے جامعہ کا درجہ شہر کی قدیمی درس گاہ گورنمنٹ کالج حیدرآباد کے صد سالہ یومِ تاسیس کے موقع پر دیا گیا۔ یہ کالج یکم اکتوبر 1917ء کو اینی بیسنٹ نے قائم کیا تھا۔ اس درس گاہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں قیام پاکستان کے بعد سندھ اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوچکا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق یہاں کا دورہ کرچکے ہیں۔ کراچی سے حیدرآباد منتقلی کے بعد سندھ یونی ورسٹی کی ماسٹرز سطح کی کلاسیں اسی کالج میں ہوا کرتی تھیں۔ سابق وزیراعظم راجا پرویزاشرف، سابق وزیراعلیٰ سندھ اور موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے والد سید عبداللہ شاہ، سابق گورنر بینک دولت پاکستان عشرت حسین، فلمی اداکار محمد علی، نوجوان قومی کرکٹر محمد حسنین، ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری، وفاقی جامعۂ اردو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین، اور جی سی یونی ورسٹی کے سابق پرنسپل اور موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصرالدین شیخ اسی درس گاہ کے فارغ التحصیل چند نام ہیں۔
گزشتہ دنوں یہاں قومی سطح کی سیرت النبیﷺ کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں ملک بھر کے مقالہ نگاروں کو سیرتِ طیبہﷺ کی روشنی میں مقالات پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی، جس کا عنوان ”ریاستِ مدینہ کے استحکام میں معاشی نظریے کا کردار سیرتِ طیبہ ؐکی روشنی میں“ تھا۔ کانفرنس کی صدارت شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر ناصرالدین شیخ نے کی، جب کہ مہمانِ خصوصی صدر شعبۂ عربی و اسلامیات علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید عباسی تھے۔ کانفرنس کا آغاز تلاوتِ قرآن اور حیدرآباد کے مرحوم شاعر خلش مظفر کی نعتِ رسول ؐ سے کیا گیا۔ اسلامک فورم سندھ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ جی سی یونی ورسٹی شعبۂ ثقافتِ اسلامی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مخدوم محمد روشن صدیقی نے استقبالیے سے خطاب کیا۔
شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین نے صدارتی خطاب کیا،انہوں نے کہا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ ریاستِ مدینہ میں آپ ؐ نے اسلام کا نفاذ کرکے دکھایا تھا۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں اسلامی ریاست عروج پر تھی اور اقوام عالم کی قیادت کررہی تھی۔ اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی ریاست محض نعرہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ دنیا میں سوشلزم/ کمیونزم دم توڑچکا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ غرض تمام اِزم ناکام ہوچکے ہیں۔ بس اسلام کا آزمودہ نظام اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات موجود ہیں۔ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں مسائل کا حل دستیاب ہے۔ مدینہ ثانی بنانے کے لیے صرف ارباب اختیار و اقتدار کے عمل کی ضرورت ہے۔
کانفرنس کے کُل چار سیشن تھے۔ پہلے سیشن میں سیرت ؐ کے موضوعات پر لکھی گئی کتب کی رونمائی ہوئی۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید عباسی نے ”ریاستِ مدینہ کے استحکام میں نظریۂ احتساب کا کردار“، پروفیسر ڈاکٹر ثناء اللہ بھٹو نے “Holy Prophets Intelligence System” اور پروفیسر ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے ”پیارے بچوں کے لیے پیارے نبی کے احادیث سے منتخب واقعات“ پر تبصرے کیے۔
دوسرا سیشن پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد کی صدارت میں منعقد ہوا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد الیاس نے ”مدینہ کا نظامِ معیشت“، پروفیسر ڈاکٹر تاج الدین الازہری نے ”تعلیمات الرسول حول الدائن والمدیون فی ضوء السیرۃ النبویہ“، ڈاکٹر ہارون احمد صادق نے ”تجارت کے احکام و آداب“، ڈاکٹر غلام عباس نے ”محنت و مزدوری کی اہمیت“، پروفیسر سلمیٰ اعجاز قاضی نے ”معاشی نظریات میں غزوات و سریات کا کردار“، پروفیسر ڈاکٹر کہکشاں ہاشمی نے ریاستِ مدینہ میں خواتین کی معاشی کفالت“، پروفیسر ڈاکٹر شاکر حسین خان نے ”محنت و مزدوری کی اہمیت سیرتِ طیبہ ؐ کی روشنی میں“، حافظہ طوبیٰ ثانی نے ”مقروضوں اور تنگ دستوں کی معاشی کفالت“، پروفیسر ڈاکٹر سید محمد نسیم سرور، شمائلہ محمد ہارون اور پروفیسر ڈاکٹر مخدوم محمد روشن صدیقی نے ”تجارت کے احکامات و آداب سیرتِ طیبہؐ کی روشنی میں“، پروفیسر ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے ”تعلیم کو معاش پر ترجیح حاصل ہے“، پروفیسر ڈاکٹر علوینہ افسر نے ”عہدِ نبوی ؐ میں خواتین کی تجارتی سرگرمیاں“، اور سید محمد فرخ نے انگریزی میں “The Role of Islamic Banking in Economic Stability” قرآن واحادیث کے تناظر میں مقالات پیش کیے۔
تیسرا سیشن آن لائن تھا۔ یہ سیشن پروفیسر ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کی زیر صدارت ہوا۔ پروفیسر ڈاکٹر سید عبدالغفار بخاری نے ”اسلامی معیشت کے خدوخال“، پروفیسر ڈاکٹر سید وحید احمد نے ”ریاستِ مدینہ کے استحکام میں بیت المال کا کردار“، پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد نے ”معاشی مصروفیات سے فرار کے تصورات کا تنقیدی جائزہ“، عائشہ صدف نے ”بیماروں، معذوروں، مجبوروں کی معاشی کفالت“، پروفیسر ڈاکٹر محمد بلال عثمانی نے انگریزی میں “The Roll of Islamic Battles Economic Stability in the Light of Seerat-e-Tayaba”، عارفہ اریج شیخ نے عربی میں ”فضیلۃ العلم علی المال فی ضوء السیرۃ النبویہ“، ڈاکٹر ناصر نے “Economic and Walfare Systems in Islam and in Westren State” ، مولانا غلام محمد شیخ نے ”معاشی استحکام میں جانور وں کی افزائش کا کردار سیرت ِ طیبہ ؐ کی روشنی میں“،پروفیسر ڈاکٹر عائشہ رضوی، پروفیسر ڈاکٹر عبدالماجد اور ڈاکٹر سید عطاء اللہ بخاری نے ”خواتین کی معاشی کفالت سیرت ِ طیبہ ؐ کی روشنی میں“، نزہت بشیر نے ”محنت ومزدوری کی اہمیت سیرت ؐکے آئینے میں“، سمعیہ حضرت وہاب نے ”تاجروتجارت کے فضائل سیرت ؐکے تناظر میں“، جویریہ خادم حسین نے ”معاشی استحکام میں غزوات وسرایات کا کردار“، اور عائشہ خالد محمود نے ”طلبہ و طالبات کی معاشی کفالت“ کے عنوان سے مقالات کی تلخیص پیش کی۔
چوتھا اور آخری سیشن پروفیسر ڈاکٹر عبدالماجد کی زیرِ صدارت ہوا۔ اس سیشن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان نے ”عہدِ نبوی ؐ میں خواتین کی تجارتی سرگرمیاں“، پروفیسر اللہ دتہ نے ”عہدِ نبوی ؐکے آبی وسائل کا معاشی ترقی میں کردار“،آسیہ مختار نے ”بیرونِ ملک تجارت کا دائرہ: شرائط وحدود“، طیبہ فاطمہ نے ”مسلم خواتین کا کسبِ حق و صرف اور صحابیات کا کردار“، سنیعہ سید نے ”معاشی استحکام میں جدید ٹیکنالوجی کا کردار سیرتِؐ طیبہ کی روشنی میں“، عائشہ محمد ہارون نے ”تعلیم کو معاش پر ترجیح حاصل ہے“، فیضان احمد نے ”بوڑھے لوگوں کی معاشی کفالت“، مولانا صہیب ارشد نے ”اساتذہ و علماء کی معاشی کفالت سیرت ؐ کے تناظر میں“، بشریٰ بیگ نے ”عہدِ نبوی ؐ میں بچوں کی تجارتی سرگرمیاں اور احکامات“ اور پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی نے ”نظامِ زکوٰۃ آسمانی و غیر آسمانی مذاہب میں انفرادی و اجتماعی معاشی استحکام کا ذریعہ ہے“ کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔
محققین کی جانب سے چند نمایاں نکات یہ ہیں: قائداعظم نے پاکستان اسلامی ریاست کے لیے حاصل کیا تھا، ورنہ سیکولر بھارت اور سیکولر پاکستان میں کیا فرق رہ جاتا ہے! اسلامی ریاست کے لیے اسلامی اصولوں پر مبنی نظامِ معیشت ہونا چاہیے۔ اسلامی ریاست کا استحکام مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں۔ معاشی سرگرمیوں کے پنپنے کے لیے امن وامان کو ترجیح حاصل ہے۔ بیت المال کا تصور امانت و دیانت سے جڑا ہے۔ باقاعدہ نظام یعنی رجسٹریشن اور ڈاکومنٹیشن ہونا چاہیے۔ دولت کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، روزگار کی فراہمی بلاامتیاز مذہب و جنس ہو۔ خلفائے راشدین نے بیت المال سے ملنے والے کم وظیفے کو اپنی محدود ترین ضرورت سے زائد دیکھا تواسے بھی کم کردیا، یہ خود احتسابی کی بہترین مثال ہے۔ چھوٹی بڑی صنعتوں کو فروغ دیاجائے۔ معاشی تحفظ ہر ایک کا حق ہے۔ سود سماج و معاش کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ بینکنگ شعبے کی اصلاح ہونی چاہیے۔ روزگار کی فراہمی کے لیے فَنیّ مہارت عام کی جائے اور کاروبار کے فروغ کے لیے بلاسودی قرضے فراہم کیے جائیں۔ حضورﷺ نے مدینہ ہجرت کے بعد سب سے پہلے مواخات قائم کرکے معاشی مسئلہ حل کیا۔ خواتین کام کاج کے ذریعے اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی استحکام کا سبب بن سکتی ہیں، خود آپ ؐکی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓتجارت کیا کرتی تھیں۔ اسلام میں چھٹی کا تصور نہیں ہے۔ سہولت سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت بھی نہیں ہے۔ دفاعی لحاظ سے سیرتِ طیبہ ؐسے روشن مثالیں جابجا ملتی ہیں۔ بیشتر غزوات اور سرایات دفاعی نوعیت کے تھے، باقی غزوات و سرایات وہ تھے جو اپنی مدافعت میں پہل کرکے کیے تھے۔ اس کے لیے جارحانہ دفاع (Offencive Defenceve) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مضبوط دفاع مضبوط معیشت کا سہارا ہے۔ اس وقت عالمِ اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ فکری بدعنوانی (Intellectual Corruption)ہے۔ اسے دور کیا جائے تو معاش کاعام مسئلہ بخوبی حل ہوسکتا ہے۔ نظام ِزکوٰۃ کواس کی روح کے مطابق نافذ کیا جانا چاہیے۔ اس موقع پر یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ دیگر جامعات کی طرز پر گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی حیدرآبادمیں بھی سیرت چیئر قائم کی جائے۔
دوسری ایک روزہ کانفرنس جی سی یونی ورسٹی کے شعبۂ ثقافت ِ اسلامی کی میزبانی میں منعقد کی گئی تھی۔ پہلی قومی سیرت کانفرنس یونی ورسٹی کے قیام سے قبل2016ء میں منعقد ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے یونی ورسٹی کے قیام کے بعد پہلی قومی سیرت کانفرنس تھی جس میں ملک بھر کی 187نجی وسرکاری جامعات سمیت 218 تعلیمی اداروں کے اسکالرز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔58 مقالہ نگاروں نے مقالات بھیجے جنہیں اسلامک اکیڈمی فورم سندھ کے صدر صلاح الدین ثانی کی سربراہی میں اسکروٹنی کمیٹی نے مقررہ بین الاقوامی معیار پر جانچا اور 44 مقالات کا انتخاب کیا۔32 اسکالرنے براہ ِ راست اور 12 اسکالرز نے آن لائن اختصار پیش کیا۔ اسکالرز میں خواتین، طلبہ اور طالبات نے بھی شرکت کی۔بیرون ِشہر سے آنے والے اسکالرز کے لیے قیام وطعام کا انتظام کیا گیا تھا۔ خواتین اسکالرز کے لیے محرم کے ساتھ قیام کی سہولت دی گئی تھی۔ کانفرنس کے اسکالرز نے اپنے مقالات کانفرنس سے قبل ہی شعبۂ ثقافت ِ اسلامی جی سی یونی ورسٹی حیدرآباد کو اِرسال کردیے تھے۔دورانِ کانفرنس اسکالرز نے مقالات کی تلخیص پیش کی۔