(۲۰۲۱ – ۱۹۴۶)
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس کے لیے خالق نے ساری کائنات، زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز مسخر کی ہے، مگر اس کے باوجود وہ بے بس اور مجبور ہے۔ اسے آزادی تو دی گئی ہے… عقیدے اور عمل کی آزادی، نیکی اور بدی اختیار کرنے کی آزادی… مگر اسے اپنے مقدر اور سانسوں پر اختیار نہیں دیا گیا۔ زندگی کی سحر سے شام تک اسے کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب اندھیرا چھا جائے گا، کس لمحے سانس کی آمد و رفت کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا، اور وہ اپنے تمام منصوبوں کو چھوڑ کر یہاںسے رختِ سفر باندھ جائے گا۔ برادرم محترم سجاد نیازی چند روز قبل عدم کو چھوڑ کر ابد کو سدھار گئے۔
یہ دنیا امتحان گاہ ہے اور یہ امتحان، امتحانِ کامل! کسی بشر کو آمد کا علم ہے نہ رخصتی کا پتا۔ سارے منصوبے خالق کے ہاتھ میں ہیں۔ ازل سے انسانوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی کا الوداع کہہ جانا کوئی انہونی بات نہیں ہوتی، مگر کبھی کبھار تو جانے والوں کا سلسلۂ فراق اتنی تیز رفتاری اپنا لیتا ہے کہ رخصت کرنے والے زخم پہ زخم کھاتے اور غم پر غم سہتے ہیں، مگر بندۂ مومن کی صفت صبر اور راضی برضا رہنا ہے۔ قرآن و حدیث میں کیا خوب، جامع اور عبرت انگیز تعلیم دی گئی ہے۔ ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
گزشتہ چند مہینوں میں قائد تحریکِ اسلامی، عظیم مجاہد فی سبیل اللہ، ولیِ کامل اور اسلافِ صالحین کی زندہ مثال و تابندہ یادگار برادر گرامی سید منور حسن چل دیے۔ ان کے بعد میری ہمشیرہ محترمہ کا سایہ ہمارے خاندان کے سر سے اٹھ گیا۔ پھر تحریکی و ذاتی احباب کی ایک قطار چل دی۔ عبدالغفار عزیز جیسی نایاب شخصیت، حافظ سلمان بٹ جیسا شیر دل، مردِ میدان، شیخ عمر فاروق جیسے خادم علوم قرآن و سنت اور عالمِ بے بدل ڈاکٹر عبدالرزاق (سابق امیر ضلع جہلم) جیسے بے پناہ محبت کرنے والے بھائی، ڈاکٹر لیاقت علی کوثر جیسا ہمہ پہلو تحریکی سپاہی، سبھی عارضی ٹھکانوں کو الوداع کہہ کر دائمی گھروں کو سدھار گئے۔ اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کو اپنی جنات النعیم میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
ان سانحات میں تازہ سانحہ برادر مخلص اور یارِ حمیم جناب سجاد احمد خان نیازی کی وفات کا ہے۔ نیازی صاحب چند دنوں کی علالت کے بعد 16فروری کو داغِ مفارقت دے گئے۔ نیازی صاحب سے ذاتی تعلق نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ یہ بھی ایک نادر و منفرد بات ہے کہ مرحوم کے میری چار نسلوں سے دوستانہ تعلقات رہے۔ میرے والد مرحوم منصورہ آتے تو نیازی صاحب کے ساتھ آپ کی خاصی طویل نشستیں ہوتیں۔ میرے بچوں کے ساتھ مرحوم کی ایسی بے تکلفی تھی گویا ہم عمر ہوں۔ پوتوں طلحہ اور خزیمہ کے ساتھ بھی بغیر کسی تکلف اور رکھ رکھائو کے ان کا تبادلۂ خیالات جاری رہتا۔ اس تعلق کا مکمل تعارف طوالت چاہتا ہے، مگر اس وقت اس کا موقع نہیں۔ برادرم حامد ریاض ڈوگر کا اصرار اور تقاضا تھا کہ جلد مضمون لکھ کر بھیج دیں۔ اس لیے قلم برداشت چند یادیں ہی لکھ سکوں گا۔ باقی پھر ان شاء اللہ بشرطِ زندگی! ۔
سجاد احمد نیازی مرحوم جیسے بے تکلف دوست کم ہی نصیب ہوتے ہیں۔ مرحوم زندہ دلی کے ساتھ دردِ دل کی دولت سے بھی مالامال تھے۔ مزاح کی حس بڑی تیز تھی اور اس کے ساتھ حسب موقع اور مجلس کے مناسبِ حال طنز کے بھی ماہر تھے۔ یادوں کو ٹٹولتا اور حافظے کی تہوں کو کھولتا ہوں تو 55 سال کا دبستان کھل جاتا ہے۔ سن 1964-65ء میں پہلی ملاقات لاہور ہی میں ہوئی۔ اسی ملاقات میں اندازہ ہوگیا کہ حضرت بہت مجلسی اور کھلے ڈلے آدمی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت پختہ سے پختہ تر ہوتی چلی گئی۔ حق مغفرت کرے، مرحوم یاروں کے یار تھے اور یادداشت بہت اچھی تھی۔ پرانے واقعات اور دوستوںکے نام جو ہم بھول جاتے تھے، انہی سے دریافت کرنے پڑتے تھے۔
برادرم نیازی صاحب نے 1946ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ (ضلع فیصل آباد) میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت جناب غلام محمد خان نیازی مرحوم کے ہاں آنکھ کھولی۔ آپ سے قبل اس گھر میں ایک بھائی اور ایک بہن تھیں۔ غلام محمد خان نیازی صاحب کا تعلق ضلع ہوشیارپور(مشرقی پنجاب) سے تھا۔ یہ علاقہ تعلیمی لحاظ سے خاصا ترقی یافتہ تھا۔ آپ اندازہ کریں کہ موصوف قیام پاکستان سے قبل ماسٹر ڈگری ہولڈر یعنی ایم اے بی ٹی تھے۔ محکمہ تعلیم میں اسکول استاد کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور آواگت (جڑانوالہ) ضلع فیصل آباد کے ہائی اسکول سے بطور ہیڈماسٹر ریٹائر ہوئے۔ آپ تقسیم ہند سے قبل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منتقل ہوچکے تھے۔ ہجرت کے وقت آپ کے عزیز و اقارب مشرقی پنجاب سے آپ ہی کے پاس آکر مقیم ہوئے۔ آپ نے اپنا ذاتی مکان فیصل آباد میں پیپلز کالونی مسلم بلاک میں تعمیر کیا اور آخری زندگی وہیں گزاری۔
سجاد احمد نیازی صاحب نے ٹوبہ اور فیصل آباد کے دیگر مختلف مقامات پر، جہاں جہاں ان کے والد اپنی سرکاری ملازمت کے سلسلے میں منتقل ہوتے رہے، اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ پھر گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں ایف اے میں داخلہ لیا۔ بعد میں لاہور اور پھر کراچی میں بھی بسلسلہ تعلیم قیام رہا۔ کراچی یونیورسٹی سے مرحوم نے ایم اے کیا اور ایل ایل بی کی ڈگری سندھ مسلم لا کالج کراچی سے حاصل کی۔ یہ نیازی صاحب کا ایک شوق ہی تھا کہ وکیل بن گئے، حالاں کہ بطور وکیل نہ پریکٹس کی اور نہ اس میدان میں زیادہ دلچسپی لی۔ چودھری غلام قادر ایڈووکیٹ مرحوم عمر میں سینئر تھے، مگر دور طالب علمی میں نیازی صاحب کے ساتھ پڑھتے رہے۔ وہ ایک فعال اور کامیاب وکیل بنے۔ نیازی صاحب اور چودھری غلام قادر صاحب کی باہمی دوستی چودھری صاحب کی وفات تک ہمیشہ تروتازہ رہی ۔ نیازی صاحب کی طرح چودھری صاحب بھی طنزومزاح کے ماہر تھے۔ چودھری غلام قادر مرحوم جماعت اسلامی کے رکن اور اسلامک لائرز موومنٹ کے عہدیدار رہے۔ چودھری صاحب کی وفات پر نیازی صاحب بہت دل گرفتہ ہوئے۔ ہمارے تحریکی وکلا میں چودھری غلام قادر سے زیادہ دھڑلے سے بات کرنے والا کوئی دوسرا نہ تھا۔
نیازی صاحب اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن تھے۔ دورِ طالب علمی میں تین دوست جن کو ہم اپنائیت کے ساتھ مثلث بھی کہہ دیا کرتے تھے، آپس میں انتہائی بے تکلف تھے۔ یہ تینوں لاہور سے کراچی بسلسلہ تعلیم منتقل ہوگئے۔ نیازی صاحب اور ان کے ہم جولی طنز ومزاح کے شہسوار تھے۔ اس وجہ سے نیازی صاحب کے ساتھ طنز و مزاح میں مقابلہ کرنے والے بعض ساتھی ان تینوں دوستوں کے ناموں کو جوڑ کر مختلف مخفف الفاظ بھی گھڑتے رہتے تھے۔ بہرحال تین ساتھیوں کی یہ مثلث ایک مثالی گروپ تھا۔ ان میں سجاد نیازی مرحوم، محترم محمد نواز گوجر اور جناب طارق مصطفیٰ باجوہ جیسی با غ وبہارشخصیات تھیں۔ کراچی میں قیام کے دوران تینوں ساتھی اپنے مرشد و مربی اور بے تکلف بزرگ ساتھی سید منور حسنؒ کے آبائی گھر کے ایک حصے میں رہائش پذیر رہے۔ تینوں کبھی کبھار سیلانی بابا کی طرح کراچی کے مختلف حصوں اور ساحلی مقامات کی سیر کو نکل جاتے۔ یہاں انھوں نے سعید عثمانی بھائی کو اپنے ساتھ جوڑ کر مثلث کو مربع بنا لیا۔ خاک چھاننے کا یہ عمل دلچسپ ہوتا تھا، اس کے دوران ایسے ایسے لطائف بھی رونما ہوجاتے جو نیازی صاحب کی زبانی بعد کے ادوار میں بھی دوستوں کی محفلوں کی جان ہوتے تھے۔
نیازی صاحب نے کراچی سے قانون کی ڈگری حاصل کرلی اور بطور وکیل فیصل آباد میں خود کو رجسٹر بھی کرا لیا، مگر قانونی پریکٹس کے بجائے بیرونِ ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ 1973ء کے آخر میں پہلے جرمنی اور پھر کینیڈا چلے گئے۔ اگرچہ کینیڈا میں سوا سال کا مختصر عرصہ ہی قیام رہا، مگر اس عرصے میں بھی اس وسیع و عریض ملک کے احوال کا خوب مطالعہ کرلیا۔ کوکب صدیق صاحب تو وہاں ان کے ہم راز تھے ہی، پرانے ساتھی محمد نواز گوجر اور طارق مصطفیٰ باجوہ بھی آپ کی کشش سے اسی خطے میں چلے گئے۔ طارق کینیڈا میں اور نواز امریکہ میں منتقل ہوئے۔ نواز گوجر اور کوکب صدیق صاحب تو مستقل مزاجی کے ساتھ اور مستقل طور پر ان دونوں ملکوں میں مقیم اور وہاں کے شہری بن گئے، البتہ نیازی صاحب اور باجوہ صاحب کی جوڑی واپس آ گئی۔ اس جوڑی کا معاملہ دلچسپ ہے۔ کینیڈا کے بعد دونوں متحدہ عرب امارات میں قیام پذیر ہوگئے۔ اب کئی سال سے دونوں کا قیام منصورہ میں تھا۔ نیازی صاحب جماعت کے مکان میں تھے اور باجوہ صاحب ذاتی مکان میں مقیم ہیں۔ طارق انٹرنیشنل کمپنیوں میں بہت اچھے مناصب پر فائز رہے، جب کہ نیازی صاحب نے اپنا کاروبار سیٹ کیا۔متحدہ عرب امارات میں نیازی صاحب کا یہ کاروبار خوب کامیاب ہوا۔آپ نے بیوی بچوں کو بھی وہاں بلا لیا۔ اُس وقت آپ کے دونوں بیٹے چھوٹی عمر میں تھے جب کہ بڑی دونوں بیٹیاں متحدہ عرب امارات کے قیام کے دوران وہیں پیدا ہوئیں۔ آپ کی چھوٹی بیٹی پاکستان واپسی پر پیدا ہوئی۔ اگرچہ آپ نے ایک کامیاب تاجر کے طور پر اپنا سکہ منوایا، مگر یہ سلسلۂ جوبن زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔
نیازی صاحب کے کاروبار کا عروج و زوال ایک عجیب داستان ہے۔ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی جناب فاروق خان نیازی کو اپنے پاس متحدہ عرب امارات میں بلا لیا اور کاروبار میں ان کو بھی شریک کرلیا۔ دونوں بھائی مل کر کاروبار چلاتے رہے، کچھ عرصے بعد سب سے چھوٹا بھائی نعیم خان نیازی پاکستان سے جرمنی چلا گیا۔ اب والدین گھر میں اکیلے رہ گئے۔ والدہ کی طبیعت بھی ناساز رہتی تھی، سجاد نیازی صاحب نہیں چاہتے تھے کہ والدین اکیلے رہیں، چناں چہ وہ واپس آگئے اور کاروبار فاروق صاحب کے سپرد کردیا۔ اس عرصے میں کاروبار میں اتار چڑھائو آتے رہے اور بالآخر فاروق صاحب بھی کاروبار سمیٹ کر واپس پاکستان آگئے۔ سجاد نیازی مرحوم نے پاکستان آنے کے بعد پرنٹنگ کے ایک کاروبار کا بھی تجربہ کیا۔ ظفر جمال بلوچ مرحوم بھی نیازی صاحب اور راقم کے مشترکہ دوست تھے (ظفر جمال بلوچ مرحوم کے حالات میں نے ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد ششم میں ص272 تا 292 لکھے ہیں)۔ کینیڈا سے واپسی اور یو اے ای میں قدم جمانے کے درمیان کچھ عرصہ ان دونوں دوستوں نے یہ کاروبار پاکستان میں شراکت کے ساتھ چلایا۔ ان دونوں مہم جو دوستوں نے فیصل آباد میں 1975ء میں ایک پریس لگایا۔ اس پریس کا نام جمال سجاد پریس تھا۔ دونوں کے نام سے مخفف بناکر دوستوں نے کہا ’’کاروبار جم سج کے ہوگا۔‘‘ یہ کاروبار تھوڑی دیر چلا، مگر نہ جم سکا، نہ سج سکا۔
سجاد نیازی صاحب کے برادر بزرگ جناب عبدالسلام خان نیازی مرحوم جرمنی میں مقیم تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں عمر میں بھی بڑے تھے اور بلامبالغہ اپنی بے انتہا اور گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ بھائی عبدالسلام 8 فروری 2018ء کو وفات پا گئے۔ ان کے ساتھ بھی راقم کا بہت قریبی تعلق تھا۔ جرمنی کے دوروں کے دوران اُن کے ساتھ یادگار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے مرحوم کے حالات اُن کی وفات پر لکھے تھے جو میری کتاب ’’عزیمت کے راہی جلد ہفتم‘‘ میں صفحہ 307 تا 323 شامل ہیں۔ نیازی صاحب کے چوتھے اور سب سے چھوٹے بھائی نعیم جب جرمنی چلے گئے تو پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ مقامی جرمن مسلم خاتون سے شادی کی جو ایک مثالی مسلم خاتون ہے۔ میں یہ بات محترمہ کے دونوں بیٹوں سے پاکستان اور جرمنی میں ملاقاتوں کے بعد پورے اعتماد اور ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ جیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا، جب نعیم بھی جرمنی چلے گئے تو نیازی صاحب متحدہ عرب امارات سے واپس والدین کے پاس آ گئے۔
زراعت اور فارمنگ کا بھی نیازی صاحب کو بچپن سے شوق تھا۔ بیرونِ ملک مختلف تجربات کے بعد اب پاکستان میں انھوں نے اس میدان میں بھی جولانیاں دکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ محمدی شریف ضلع جھنگ (حال چنیوٹ) سے اوپر کے دیہاتی علاقے میں ایک گائوں میں ٹھیکے پر زمین لے کر فارمنگ شروع کی۔ اس گائوں کو مقامی جھنگوی زبان میں دو رہٹہ کہا جاتا ہے۔ اس کا اصل نام دورہٹ (دوکنویں) تھا۔ پرانے زمانے میں یہاں دو کنویں تھے جن سے بیلوں کے ذریعے آبپاشی کا کام لیا جاتا تھا۔ نیازی صاحب کے پاس سات مربع ٹھیکے کی زمین تھی۔ اس رقبے پر مختلف فصلیں اگائی جاتی تھیں۔ ایک بہت بڑا مویشی فارم بھی تھا جس میں دودھ دینے والی اچھی نسل کی گائیں رکھی گئی تھیں۔ مرحوم نے مقامی آبادی میں اڈے کے اوپر تھوک کا ایک اسٹوربھی بنا لیا تھا۔ یوں کاروبار اچھا چل رہا تھا ۔
یہاں قیام کے دوران محمدی شریف میں حضرت مولانا محمد نافع رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بیٹوں میاں مختار مرحوم اور پروفیسر ابوبکر کے ساتھ دوستی ہو گئی۔ مولانا محمد نافعؒ اور ان کے خاندان سے راقم کا بھی قریبی دوستی کا تعلق تھا۔ مولانا مرحوم کی وفات پر میں نے ان کے حالات ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد پنجم میں از ص 289 تا 298 لکھے ہیں۔ مقامی آبادی میں زمینداروں کے ساتھ نیازی صاحب کے اچھے دوستانہ تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ مقامی جرگہ اور پنچایت میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ اس دور کے بہت سے واقعات سناتے تھے۔ مقامی لب و لہجے میں جھنگوی زبان کے مکالمے مزے لے لے کر مرحوم سناتے اور احباب مزے لے کر سنتے۔ یہ کاروبار خوب چل رہا تھا، مگر بدقسمتی سے اس عرصے میں جب ملک بھر میں ایک بہت بڑا تباہ کن سیلاب آیا تو یہ علاقے بری طرح اس کی زد میں آگئے۔ اس کے نتیجے میں فارم تباہ و برباد ہوگیا۔ مویشیوں میں بھی خاصا نقصان ہوا اور اسٹور بھی سیلاب کی نذر ہوگیا۔ اب نیازی صاحب وہاں سے واپس فیصل آباد آگئے۔ اتنے بھاری نقصان کے باوجود نیازی صاحب نہ حوصلہ ہارے، نہ کسی ذہنی دبائو کا شکار ہوئے۔ وہ متوکل انسان اور راضی برضا مردِ مومن تھے۔
اس عرصے میں مرکزِ جماعت میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی دوسری میقات میں سید منور حسن کا بطور قیم جماعت تقرر ہوا۔ منور بھائی نے نیازی صاحب کو منصورہ بلا لیا۔ جماعت کی قیادت میں اعلیٰ مناصب پر آنے والے دو سابق ناظمین اعلیٰ سید منور حسن اور ڈاکٹر محمد کمال خان نیازی مرحوم کے ساتھ دور طالب علمی ہی سے بڑی محبت کرتے تھے۔ دونوں قائدین سے نیازی صاحب کی بے تکلفی اور دوستی بہت مثالی تھی۔ مرکز آئے تو یہاں ان کی ذمہ داری مرکزی دفاتر میں ناظم استقبالیہ کے طور پر لگ گئی۔ پھر یہیں زندگی کے آخری لمحے تک مقیم رہے اور اپنے فرائض نہایت محنت و دل لگی کے ساتھ ادا کرتے رہے۔ اسی دوران آپ کی ذمہ داری مسجد کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر لگ گئی۔ یہ ذمہ داری ہمہ وقتی تھی۔
کئی سال کے اس عرصے میں آپ نے مسجد کی تعمیر و توسیع کا ایسا شاندار کام کروایا جس کی ہر شخص تحسین کرتا ہے۔ اب مسجد میں اتنی توسیع ہوگئی کہ ہزاروں لوگ (مرد و خواتین) چھت کے نیچے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد کے خادمین کے لیے رہائش کی سہولت نہیں تھی۔ وہ تنہا مسجد کے کسی حصے میں رات گزارا کرتے تھے، جب کہ ان کی فیملی ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھیں۔ نیازی صاحب نے ان تمام خدام کے لیے بہترین رہائش گاہیں بھی مسجد سے ملحق شمالی جانب خالی جگہ پر تعمیر کرا دیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ مسجد کا باقاعدہ ایک دفتر تعمیر کرایا جس میں ایک عظیم الشان لائبریری بھی قائم کی۔ اس لائبریری کے علاوہ مسجد کے مین ہال میں بھی بہترین اسلامی کتب کا ذخیرہ شائقین کے مطالعے کے لیے دوستوں کے تعاون سے فراہم کیا۔
سجاد نیازی صاحب کی عائلی زندگی خوشگوار تھی۔ ان کی اہلیہ آپا روشن آرا اُن کے قریبی رشتے داروں میں سے ہیں۔ میاں بیوی آپس میں ہم عمر تھے مگر دلچسپ بات ہے کہ نیازی صاحب کی والدہ محترمہ اور اہلیہ آپس میں ماموں زاد بھی تھیں اور پھوپھی زاد بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو بہترین زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ بہت پیاری اولاد سے بھی نوازا۔ آپ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا عباد نیازی ہے جو فیصل آباد میں پیدا ہوا۔ عباد گزشتہ کئی سال سے امریکہ میں مقیم ہے۔ اس کے چار بچے، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ دوسرے نمبر پر فواد نیازی ہے جو عباد سے ڈیڑھ سال چھوٹا ہے۔ اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، اور وہ یو۔کے میں مقیم ہے۔ بیٹیوں میں بڑی بیٹی عزیزہ عائشہ ہیں جو یو اے ای میں پیدا ہوئیں۔ عائشہ شادی کے بعد اپنے میاں کے ساتھ کینیڈا منتقل ہوگئیں اور اب وہیں ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ دوسری بیٹی عزیزہ عمارہ بھی یو اے ای میں قیام کے دوران وہیں پیدا ہوئیں۔ یہ بھی شادی کے بعد کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔ اللہ نے ان کو ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا ہے۔
تیسری اور سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ فاطمہ پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ الحمدللہ سبھی بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتہائی سلجھے ہوئے ہیں۔ نیازی صاحب اپنی وفات سے پہلے اپنی بیٹی کی شادی کا اہتمام کرنا چاہ رہے تھے، مگر اچانک بیمار ہونے کی وجہ سے یہ فریضہ ادا نہ ہوسکا۔ باپ کا سایہ تو سر سے اٹھ گیا، مگر اللہ سوہنا خود سرپرست اور مسببّ الاسباب ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اب ہماری عزیزہ کے لیے اللہ اپنی رحمت واسعہ اور قدرتِ کاملہ سے مستقبل کا بہترین انتظام فرما دے۔ آمین! فاطمہ نے اپنی والدہ اور والد دونوں کی علالت کے دوران بہت زیادہ خدمت کی۔ اللہ نے اسے فہم و فراست اور صبر کی بے بہا دولت سے نوازا ہے۔ اس کا تعلیمی کیرئیر بھی بہت شاندار ہے۔
نیازی صاحب کی اہلیہ آپا روشن آرا کچھ عرصہ پہلے شدید بیمار ہوگئی تھیں۔ گردے اور دل دونوں کا مسئلہ تھا۔ کئی ہفتے زیرعلاج رہیں۔ بائی پاس بھی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں صحت عطا فرمائی، اگرچہ کمزوری اب تک بہت زیادہ ہے، مگر زندگی باقی تھی علاج کامیاب رہا۔ نیازی صاحب بظاہر ٹھیک ٹھاک تھے، مگر مجھے اندازہ تھا کہ سید منور حسن صاحب کی وفات کے وقت سے ان کی صحت مسلسل گرتی جا رہی تھی۔ وہ اپنے حالات و مسائل کا تذکرہ مجھ سے کرتے رہتے تھے اور میں انھیں ہمیشہ حوصلہ دیتا کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے گا۔ جنوری کے آخر میں صحت خاصی کمزور ہوگئی۔ ڈاکٹروں سے مشورے کیے تومختلف عوارض کی نشاندہی کی گئی۔ جب زیادہ کمزور ہوئے تو مسجد آنا جانا موقوف ہوگیا۔ آخری چند دن ان کو بھی اسی طرح گردے، دل اور سانس کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جس طرح ان کی اہلیہ کی کیفیت ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ہسپتال میں ہفتہ عشرہ زیر علاج رہے، مگر اللہ کو منظور نہیں تھا کہ زندہ واپس گھر آتے۔ وہیں انتقال ہوا اور وہاں سے ان کا جسد خاکی ان کے گھر لایا گیا۔ دوست احباب سب جمع ہوگئے۔ بیٹی فاطمہ پہلے ہی والدین کے ساتھ گھر میں تھیں۔ چھوٹا بیٹا فواد بھی بیماری کے دوران آگیا، جب کہ باقی بچے جنازے پر نہ پہنچ سکے۔ وہ کورونا کے گوناگوں مسائل کی وجہ سے بعد میں پاکستان آسکے۔
۔17فروری کو نمازِ ظہر کے وقت سجاد نیازی صاحب کا جنازہ جامع مسجد منصورہ میں حضرت مولانا عبدالمالک صاحب نے پڑھایا۔ اس موقع پر میں نے اور محترم لیاقت بلوچ نے مرحوم بھائی کی خدمات اور اوصاف کا تذکرہ کیا اور نمازیوں سے درخواست کی کہ مرحوم کے لیے عجز و انکسار کے ساتھ اللہ کے دربار میں مغفرت کی دعائیں کریں۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ مسجد کے در و دیوار سب اداس تھے۔ مسجد اور نیازی صاحب آپس میں یک جان دو قالب کی مثال ہوگئے تھے۔ آج مسجد کی آبادی کے لیے ہر وقت فکرمند رہنے والا اپنے ساتھیوں کو خدا حافظ کہنے کے ساتھ مسجد کو بھی الوداع کہہ رہا تھا۔ غمزدہ دوستوں اور رشتے داروں نے اس مردِ قلندر کو مصطفیٰ ٹائون کے قبرستان میں برادرم عبدالغفار عزیز مرحوم کی قبر کے قریب بنائی گئی قبر میں دفن کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مرحوم بھائی اور تمام اہلِ قبور کی قبروں کو نور سے منور فرمائے۔ اسی قبرستان میں چودھری رحمت الٰہی مرحوم اور مسعود احمد خان مرحوم بھی محوِ استراحت ہیں۔