دشمنوں کے حقوق

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو پہلے دایاں پائوں ڈالے، اور جب اتارے تو پہلے بایاں پائوں نکالے تاکہ دایاں پائوں پہننے میں اول اور اتارنے میں آخر ہو‘‘۔
وضاحت: آپ ؐ زینت و تکریم کے کام دائیں جانب سے شروع فرماتے اور دوسرے کام ان کے برعکس بائیں جانب سے شروع کرتے، مثلاً بیت الخلا میں داخل ہونا، استنجا کرنا اور جوتا اتارنا وغیرہ۔(فتح الباری)۔

سورۂ مائدہ کے پہلے رکوع کی دوسری آیت میں ایمان والوں کو مخاطب کرکے ارشاد ہوتا ہے:۔
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا۔
”اور آمادہ نہ کردے تمہیں اس قوم کی دشمنی، جس نے تمہیں مسجد حرام سے روکا کہ تم اُس پر زیادتی کرنے لگو“۔ اور پھر پانچ آیتوں کے بعد دوسرے رکوع میں ایمان والوں ہی سے ارشاد ہوتا ہے۔
وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا‌ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌
”کسی گروہ کی دُشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجاوٴ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔“
دو آیتوں میں دو حکم ہیں، پہلا حکم سلبی ہے، دوسرا ایجابی۔ پہلی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دشمن پر زیادتی نہ کرو، اور دوسری کا مفہوم یہ ہے کہ دشمن کے ساتھ انصاف کرتے رہو۔ دونوں کو ملاکر ماحصل یہ نکلتا ہے کہ ادائے حقوق کا دشمنوں تک کے معاملے میں لحاظ رکھو، اور اس کی مکرر تاکید ہے۔
یہ تاکیدی احکام محض اجنبیوں اور بیگانوں کے حق میں نہیں، دشمنوں کے حق میں ہیں، اور دشمن بھی ایسے سخت جو مسلمانوں کو ان کے مذہبی فرائض ادا کرنے سے روک چکے ہیں، انہیں وطن سے بے وطن کرچکے ہیں ان کے اپنے پیمبر کے ساتھ، اور آزار پہنچانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھ چکے ہیں! پھر مسلمانوں کا برتائو مسلمانوں سے کیا ہونا چاہیے؟ مسلموں کا سلوک اپنے بھائیوں کے ساتھ کیسا رہنا چاہیے؟ آپ کے تعلقات ان سے کیسے رہنے چاہئیں جو آپ ہی کی طرح کلمہ گو ہیں، جو آپ ہی کے خدا پر ایمان رکھتے ہیں، جو آپ ہی کے رسولؐ کا کلمہ پڑھتے ہیں، جو آپ ہی کے قرآن کو اپنی آخری کتابِ آسمانی سمجھتے ہیں، جو آپ ہی کے قبلہ کی طرف اپنا منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں، اور جو آپ ہی کی طرح کفن کی چادر میں لپیٹ کر آپ ہی کی طرح دو گز زمین کے غار میں ہمیشہ کے لیے سلا دیئے جاتے ہیں۔ بھائیوں کا سا نہ سہی، عزیزوں کا سا نہ سہی، دوستوں کا سا نہ سہی، کم سے کم اس طرح کا برتائو تو کرنے کو ملا ہے، کیا آپ کا برتائو اس معیار پر بھی پورا اترتا ہے؟
اس کا جواب ’’وہابیوں‘‘ اور ’’رفعاخانیوں‘‘ سے پوچھیے۔ ’’سعودیوں‘‘ اور ’’شریفیوں‘‘ سے پوچھیے۔ ’’زمیندار‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ سے پوچھیے۔ ’’مہاجر‘‘ اور ’’انصار‘‘ سے پوچھیے۔ خلافت کمیٹی کے دونوں فریقوں سے پوچھیے۔ علی گڑھ کی مختلف پارٹیوں سے پوچھیے۔ ندوہ کے ارکانِ انتظامی کی مختلف ٹولیوں سے پوچھیے۔ مسلم لیگ کی اندرونی جتھے بندیوں سے پوچھیے۔ ’’پیغامیوں‘‘ اور ’’محمودیوں‘‘ سے پوچھیے… غرض مقلد و غیر مقلد، شیعہ و سنی، اہلِ قرآن و اہلِ حدیث، ’’نہروزئی‘‘ اور ’’ٹوڈی‘‘ کے قدیم و جدید جس کسی اسلامی فرقہ و گروہ کے جس ادارے کو چاہے اپنے سامنے کرلیجیے اور اس سے اپنے سوال کا جواب مانگ دیکھیے! جو برتائو دشمنوں تک کے ساتھ منع تھا، آج اس کے تختہ مشق ہمارے ہی دوست، ہمارے ہی عزیز، ہمارے ہی بھائی، ہمارے ہی ہاتھ سے بنے ہوئے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!!۔