پاکستان ہو یا عالمِ اسلام… ایشیا و افریقہ کے ہر ملک کے سیاسی، اقتصادی، اخلاقی بحران کی جڑ اقوامِ مغربی کی غلامی کی تاریخ میں ہے۔ بظاہر نوآبادیاتی دور کا خاتمہ ہوگیا ہے، ایشیا و افریقہ کے ممالک پر اقوامِ مغربی کا براہِ راست تسلط قائم نہیں ہے، لیکن عالمی اداروں کے ذریعے ہر ملک پر بالواسطہ امریکہ اور مغربی ممالک کی حکمرانی ہے۔ پاکستان سمیت ہر مشرقی ملک کا حکمراں طبقہ مغرب پرست ہے۔ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد اسی مغرب پرست طبقے کے ذریعے مشرقی ممالک پر حکمرانی کی جارہی ہے۔ یہ حکمرانی براہِ راست فوجی آمریت کے ذریعے ہو، یا جمہوریت کے پردے میں سیاست دانوں کی حکومت… دونوں اپنی نہاد میں جابرانہ اور استبدادی ہیں۔ جمہوریت، آزادی، انسانی حقوق اور آمریت دشمنی کے تمام دعووں کے باوجود کسی بھی مشرقی ملک کو حقیقی آزادی و خودمختاری سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا کے دانشور ہوں یا حکمراں طبقات سے تعلق رکھنے والے مدبرین… ان کی ساری فکری تگ وتاز اسی نکتے کے گرد گھومتی ہے کہ مشرق کو مغرب کا غلام کیسے رکھا جائے۔ زندگی کے ہر دائرے میں مغرب زدہ طبقات کی کثرت کے باوجود مشرقی ممالک میں استبدادی طرزِ حکمرانی اوّلین ترجیح ہے، البتہ اپنے حقیقی عزائم کو چھپانے کے لیے ’’جمہوری تماشا‘‘ وقفے وقفے سے دکھایا جاتا رہا ہے۔ جس زمانے میں امریکی بلاک اور روسی بلاک کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی اُس وقت بھی حکمران مغرب نے مشرقی ممالک کو آپس میں تقسیم کرلیا تھا۔ اس لیے کہ اشتراکیت اور سرمایہ داری کا جھگڑا اُن کے گھر کا داخلی جھگڑا تھا۔ سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں ایک مغربی مفکر نے مغربی دنیا اور غیر مغربی دنیا کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ایک کتاب میں مشرقی اقوام کے حکمراں مغرب پرستوں کو جو مشورے دیئے تھے اس پر ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور کے ستمبر 1964ء کے شمارے میں ادارتی شذرے میں تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر عبدالحمید صدیقی نے لکھا تھا کہ:
’’(اقوامِ مغربی) نے یہاں اتنے شرمناک کھیل کھیلے ہیں کہ اگر انہیں درندوں کی طرف منسوب کیا جائے تو وہ بھی ندامت سے اپنا سر جھکا لیں اور پوری قوت اور شدت کے ساتھ اپنی برأت کا اظہار کریں‘‘۔
مغربی دانشور نے مشرقی ممالک کے مغرب پرست حکمرانوں کو جو مشورے دیئے تھے ان سے آج بھی مغربی اقوام کے مکروہ عزائم کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ان مشوروں کی تلخیص درج ذیل ہے:
’’(1) مغربی تہذیب کے پرستاروں کی مضبوط حکومت قائم کی جائے اور پھر اس کی قوت و طاقت کی مدد سے اس کے افکار و نظریات لوگوں کے دل و دماغ میں اُتارے جائیں۔
(2) مشرقی ممالک میں ایسے مقامی لوگوں کو برسراقتدار لایا جائے جو مغربی تہذیب پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہوں، اور اس کے نفاذ کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے پر آمادہ ہوں۔
(3) ان ممالک میں مضبوط حکومتیں قائم کی جائیں، اور وہاں جمہوریت کی نشوونما کا قطعاً موقع فراہم نہ کیا جائے، کیونکہ جمہوریت کی آزاد فضا میں ’’رجعت پسند‘‘ عناصر کو سر اُٹھانے اور مغرب کی یلغار کو روکنے کا موقع ملتا ہے، اس طرح اس کی رفتار سست پڑجاتی ہے۔
(4) مشرق کے سارے ممالک میں مضبوط، مستحکم آمریت جو جرأت، حوصلہ مندی اور نتائج و عواقب سے بے پروا ہوکر ڈنڈے کے زور سے مغربی تہذیب نافذ کردے۔
(5) مارکسی افکار و نظریات اور اشتراکی نظام حیات کا نسخہ جو مغرب میں ناکارہ ثابت ہوا ہے وہ مشرق کے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ اشتراکیت کے اثرونفوذ کی وجہ سے ’’دینی روایات‘‘ کا جنازہ اُٹھ جائے گا، اور اس طرح مغربی تہذیب کی راہ میں حائل رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔ (اشتراکی نظام جبر و استبداد پر مبنی ہے)۔
(6) جبر و استبداد اور تشدد کے نتیجے میں اگر عوام بوکھلا اُٹھیں تو اس کا علاج یہ ہے کہ لوگوں کے معاشی معیار کو بلند کرنے کی پوری کوشش کی جائے، تاکہ جب وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دین و ایمان، عزت و آبرو کو برباد ہوتے ہوئے دیکھیں اور ان کے ضمیر کے اندر تشویش و اضطراب پیدا ہونے لگے تو ان کے پیٹ انہیں تسلی اور تشفی دیں اور انہیں یہ اطمینان دلائیں کہ یہ سودا کوئی خسارے کا سودا نہیں ہے‘‘۔
سرد جنگ ختم ہوگئی، عالمی صف بندی تبدیل ہوگئی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ مغرب کی نظر میں مشرقی ممالک کے لیے جابرانہ، استبدادی طرزِ حکمرانی اب بھی اصل ترجیح ہے۔