وزیراعلیٰ جام کمال کی وضاحتیں
ایوانِ بالا کے قیام کا مقصد ملک کے تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے۔ لہٰذا جب کسی صوبے کے فرد کو دوسرے صوبے سے ہارس ٹریڈنگ یا کسی بھی طور طریقے سے سینیٹ کا رکن منتخب کروایا جاتا ہے، تو اس منتخب رکن سے صوبے کی نمائندگی کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے! بالخصوص بلوچستان جیسا نظرانداز صوبہ دراصل ایوانِ بالا میں حقِ نمائندگی سے محروم ہوتا ہے۔ ماضی میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان میں باہر سے افراد بھیج کر انہیں منتخب کروا چکی ہیں۔ مسلم لیگ قائداعظم اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) جیسی کنگ پارٹیوں سے اس کی توقع توکی جا سکتی ہے، مگر یہ عمل عوامی اور نظریاتی جماعتوں کو زیب نہیں دیتا۔ یقیناً اس قطار میں اب پاکستان تحریک انصاف بھی کھڑی دکھائی دیتی ہے، جس نے پہلے پہل اسلام آباد سے عبدالقادر کو سینیٹ کا ٹکٹ تھماکر کوئٹہ بھیج دیا، لیکن یہ فیصلہ کارکنوں کے واویلے پر واپس لینا پڑا۔ دراصل یہ اقدام محض کارکنوں کے اعتراض اور دبائو کے پیش نظر دکھاوے کے طور پر کیا گیا، جبکہ حقیقت میں عبدالقادر اب بھی ان کا منظورِ نظر ہے، جس نے بعد میں کاغذات آزاد حیثیت سے جمع کرا دیے، اور اگلے ہی لمحے بلوچستان عوامی پارٹی نے اسے اپنا امیدوار قبول کرلیا۔ فوری طور پر اس ہانکی ہوئی جماعت کو معلوم ہی نہ ہوا ہوگا کہ اس کے دو ارکان اسمبلی سکندر عمرانی اور لیلیٰ ترین اس کے تجویز اور تائید کنندہ بنے۔ کاغذات جمع کراتے وقت الیکشن کمیشن کے دفتر میں پارٹی کے ریٹائرڈ سینیٹر منظور کاکڑ سے، جو پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری بھی ہیں، کسی صحافی نے دریافت کیا کہ آپ کی جماعت کے اراکین، عبدالقادر کے تائید اور تجویز کنندہ بنے ہیں؟ تو موصوف نے لاعلمی کا اظہار کردیا۔ حالاں کہ منظور کاکڑ خود بھی جنرل نشست پر امیدوار ہیں۔ ان سمیت پارٹی کے دیگر امیدواروں کو عبدالقادر کی کوئٹہ برآمدگی پر تشویش بھی لاحق ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اصول، قانون اور شفافیت کی باتیں کرتے ہیں، مگر یہاں عملاً ان اقدار کی پامالی نظر آئی ہے۔ جام کمال ہی نے کہا تھا کہ بلوچستان میں ہمیشہ پیسوں کے عوض ٹکٹ دینے کی حوصلہ شکنی کی ہے، اور اِس بار سینیٹ انتخابات میں بلوچستان کی بدنامی نہیں ہوئی۔ مگر اس بیان کے اگلے لمحے پیرا شوٹرز کو خوش آمدید کہا گیا۔ جب ان پر واضح ہے کہ یہ سب ہانکے ہوئے ہیں، سرِ تسلیم خم کرنے کے سوا کسی فیصلے پر سرے سے قادر ہی نہیں، تو پھر بڑی بڑی باتوں کی کیا ضرورت ہے! باتیں شفافیت کی کرتے ہیں، اور ساتھ اپنی جماعت اور عوامی نیشنل پارٹی کو دھوکہ دینے والی خیبر پختون خوا کی ستارہ ایاز اور عبدالقادر کی سینیٹ نشست پر حمایت اور پارٹی میں شمولیت کی توجیہ و دلیل پیش کرتے ہیں۔ جام کمال نے پیرا شوٹرز، یا ارکانِ اسمبلی کے ضمیر کے خریدار عبدالقادر کے بارے میں دلیل پیش کی ہے کہ ’’پاکستان کی سیاست میں ایک عجیب لفظ پیرا شوٹر آگیا ہے‘‘۔
کہتے ہیں ’’سینیٹ ایک مختلف پلیٹ فارم ہے، ہر پارٹی اپنی اپنی نمائندگی ایوان میں لاتی ہے، اور ضروری نہیں کہ وہ نمائندگی کسی ایک صوبے سے لائے‘‘۔
مزید یہ وضاحت کی ہے کہ ’’عبدالقادر 2004ء سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، اور ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے، جنہیں تحریک انصاف اور باپ پارٹی نے مشترکہ طور پر امیدوار نامزد کردیا تھا‘‘۔ گویا وزیراعلیٰ جام کمال نے اس نوع کے جواز پیش کرکے کمال کردیا ہے۔بات صاف ہے کہ عبدالقادر سرمائے کی بدولت منظورِ نظر ٹھیرے ہیں۔ انہیں اور ستارہ ایاز کو اوپر کی رضا حاصل ہے۔ چناں چہ یہ احکامات وہدایات نظرانداز کرنا بلوچستان عوامی پارٹی کے بس کی بات نہیں ہے۔
باپ پارٹی نے سینیٹ انتخاب کے لیے چار مختلف کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔ ان کمیٹیوں نے درخواست دہندہ پارٹی وابستگان کے انٹرویو کیے۔ چند سینئر بھی کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوئے۔ ان میں عاصم کرد گیلو بھی شامل تھے جو متعدد بار بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں، پانچ سال صوبے کے وزیر خزانہ رہے ہیں۔ مگر انہیں ٹکٹ نہ دیا گیا۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ایک معروف خاتون، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی ٹیکنیکل ایڈوائزر جویریہ ترین نے بھی درخواست دے رکھی تھی۔ اُن سے سینیٹر انوارالحق کاکڑ اور پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات بشریٰ رند نے انٹرویو لیا۔ جویریہ ترین کی درخواست اس بنا پر مسترد کردی گئی کہ ان کا تعلق ’’باپ پارٹی‘‘ سے نہیں ہے۔ نیز یہ بھی پتا چلا ہے کہ ’’باپ پارٹی‘‘ کے بعض رہنمائوں نے جویریہ ترین کو افغانی قرار دیا۔ اگر واقعی کوئٹہ و پشین کے ایک معروف خاندان اور قبیلے کی فرد کو افغانی کہا گیا ہے تو یہ ان افراد کی جانب سے نری نفرت، جھوٹ اور تعصب کا اظہار ہے، بلکہ قابلِ گرفت ہے۔ اور اگر شرط پارٹی وابستگی ہی ہے تو عبدالقادر کو پہلے تحریک انصاف نے ٹکٹ دے رکھا تھا، پھر وہ باپ پارٹی کے امیدوار کیسے بنے؟ جنہیں جام کمال نے سینئر سیاست دان باور کرانے کی کوشش بھی کی ہے۔
سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف نے بھی سینیٹ انتخابات کے تناظر میں صوبے کی تنظیم کے ساتھ فریب کا معاملہ کیا ہے۔ بلوچستان کی تنظیم کو اُس نے درخورِ اعتنا سمجھا ہی نہیں۔لگتا ایسا بھی ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے سات ارکان پارٹی فیصلوں پر کان نہیں دھریں گے۔ صوبائی صدرسردار یار محمد رند کے بیٹے سردار خان رند آزاد حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ظاہر ہے والد بیٹے کی کامیابی کے لیے دوڑ دھوپ کریں گے۔سردار یار محمد رند پارٹی فیصلوں کے خلاف محتاط الفاظ میں گویا بھی ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق آئین کی رو سے صوبے کی پارلیمانی جماعت سینیٹ کے ٹکٹ دینے کا اختیار رکھتی ہے، اورٹکٹوں کے حوالے سے سب سے مشورہ کیا جانا چاہیے تھا۔ سردار رند یہ بھی قرار دے چکے ہیں کہ عبدالقادر کو خصوصی طور پر ووٹ نہیں دیا جا سکتا، اور عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ آئین کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے سینیٹ ٹکٹ کے اجراء کا خیال رکھتے، پی ٹی آئی بلوچستان کے لائق افراد کو سینیٹ ٹکٹ کا اجراء کرتے۔