نواب بگٹی کے جتنا قریب ہوتا گیا، مجھے بلوچ قوم پرست سیاست اور بلوچوں کے رسوم و رواج سے آگہی ہوتی گئی۔ اس طرح بلوچ قبائل کے بارے میں میری معلومات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔ قبائل کی دوستیاں اور دشمنیاں بھی سامنے آتی گئیں۔ سرداروں، بلوچوں اور خان آف قلات کے درمیان کشمکش اور تضادات بھی سامنے آتے گئے، اور بلوچ قوم پرست لیڈروں اور پارٹیوں نے کس طرح خان کے نظام کو کمزور کیا، کمیونسٹ لابی کس طرح بلوچ قوم پرست سیاست پر اثرانداز ہوئی یہ بھی پتا چل گیا۔ اِس لابی نے منظم طریقے سے خان آف قلات اور اس کے نظام کے خلاف محاذ آرائی کا میدان گرم کیا اورقوم پرست سیاست اور سرداروںمیں اپنے منظم منصوبے کے تحت پیش رفت کی اور تضادات کو جنم دیا۔ اس لابی نے خان قلات کے نظام کے خلاف نیپ کو استعمال کیا، اور 1970ء کے انتخابات میں نیپ کے امیدوار عبدالحئی بلوچ نے خان قلات کے صاحبزادے کو شکست دی، دوسری صوبائی نشست پر اس لابی نے خان قلات میر احمد یار خان کے بھائی شہزادہ عبدالکریم کو کھڑا کیا، انہوں نے بھی اپنے بھتیجے کو شکست دے کر انتخاب جیتا۔ شہزادہ کریم نے حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ افغانستان چلے گئے۔ بعد میں واپس آئے تو حکومت نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ چند سال بعد رہا ہوئے اور نیپ میں شامل ہوگئے۔ اُن کا ایک بیٹا بھٹو دورِ حکومت میں مسلح جدوجہد کے لیے پہاڑوں پر چلا گیا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تو شہزادہ عبدالکریم کے بیٹے نے بھی مسلح جدوجہد ترک کردی اور لوٹ آیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ان کو معاف کردیا، یوں اس نے دوبارہ شہری زندگی اختیار کرلی۔ یہ اسلامیہ ہائی اسکول میں میرا کلاس فیلو تھا (اب نام یاد نہیں ہے)، شاید اس کا نام سلیمان تھا۔ ایک دن جناح روڈ کوئٹہ میں فٹ پاتھ پر ملاقات ہوئی تو بڑی خوشی ہوئی۔ اس نے بتایا کہ ہم پہاڑوں پر ہفت روزہ ’زندگی‘ اور اس میں خاص طور پر آپ کے تجزیے جو بلوچستان کے حوالے سے ہوتے تھے، بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ اس ملاقات میں مجھے علم ہوا کہ ہمارا کلاس فیلو پہاڑوں پر مسلح جدوجہد کررہا تھا۔ وہ بھی مجھ سے مل کر بہت خوش ہوا۔ شہزادہ عبدالکریم سے میری ملاقاتیں اُس وقت ہوتی تھیں جب وہ جناح روڈ پر قائم قلات پبلشر کی دکان پر ہوتے۔ زمرد حسین (سابق سینیٹر) اس کے مالک تھے۔ بعد میں نیپ نے ان کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا اور وہ منتخب ہوگئے۔ 1977ء کے بعد زمرد حسین سردار عطا اللہ مینگل کے رویّے سے دل برداشتہ ہوگئے تو انہوں نے نیپ سے تعلق توڑ لیا، اور پھر کچھ عرصے کے بعد حنیف رامے کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔
نواب بگٹی کے قریب آنے کے بعد میں نے سیاست کے نشیب و فراز سے بہت کچھ سیکھا۔ نواب کی خاندانی زندگی، بگٹی قبائل کی دوستی اور حریفوں سے آگہی حاصل ہوئی۔ نواب صاحب بعض معاملات پر مجھ سے کھل کر گفتگو کرتے تھے۔ اُن کو مجھ پر بڑا اعتماد تھا۔ سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ان کی فیملی ڈیرہ بگٹی چلی جاتی تھی۔ اُن کی اہلیہ کا تعلق بگٹی قبائل سے تھا۔ نواب کے بیٹے سلیم بگٹی، طلال بگٹی، سلال بگٹی اور ریحان بگٹی کا تعلق بگٹی والدہ سے تھا۔ دوسری اہلیہ کا تعلق پشاور سے تھا، ان سے نواب کا ایک بیٹا جمیل بگٹی ہے۔ جمیل بگٹی کی بہن خیر بخش خان مری کے بھائی ہمایوں مری سے بیاہی گئی۔ یہ 8 جولائی1990ء سے 17نومبر1990ء تک نگراں وزیراعلیٰ رہے تھے، بعد میں نواب نے انہیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنایا۔ اب وہ سیاست سے کنارہ کش ہیں۔ نواب بگٹی کے ہاتھ میں سیاست کی چھڑی تھی۔ جس پر نواب نے ہاتھ رکھا وہ قومی اسمبلی میں پہنچا، یا صوبائی اسمبلی، یا وزیر بنا مثلاً خدائے نور، میر عبدالجبار اسپیکر بلوچستان اسمبلی، میر ظہور حسن خان کھوسہ ڈپٹی اسپیکر، منظور احمد گچکی ممبر قومی اسمبلی، مسز ثمینہ رازق (خواتین کی نشست پر)، سلیم اکبر بگٹی ممبر قومی اسمبلی، امان اللہ بلوچ سینیٹر۔ امان اللہ بلوچ اسلامی جمعیت طلبہ میں رہے، بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے صوبائی ناظم بن گئے۔ نصیر آباد سے تعلق ہے۔ ان کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ جب وہ ناظم صوبہ تھے تو اُن سے اکثر روزانہ ملاقات ہوتی تھی۔ انہیں علم تھا کہ میں ایران کے اسلامی انقلاب کا زبردست حامی ہوں۔ ایک شام ان کے ہمراہ دفتر سے نکلا تو راستے میں نواب بگٹی کا گھر پڑا۔ اُن سے کہا کہ نواب صاحب سے ملنے جارہا ہوں، اس پر انہوں نے کہا کہ حیرت ہے آپ نواب صاحب سے ملتے ہیں! آپ کے خیالات تو انقلاب کے ہیں، ان سے کس طرح دوستی ہے؟ اُنہیں بتایا کہ نواب بگٹی سے سیاسی یارانہ ہے۔ یوں وہ اپنے راستے پر چلے گئے اور میں اپنے راستے پر۔
سیاست کے اتفاقات بھی عجیب ہیں۔ امان بلوچ جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری بن گئے، پھر نواب کے قریب چلے گئے۔ جب نواب بگٹی لندن سے لوٹے تو امان بلوچ نے ان کے اعزاز میں سرینا ہوٹل میں پُرتکلف ظہرانہ دیا۔ نواب صاحب کی جتنی تعریف ہوسکتی تھی انہوں نے کی۔ نواب بگٹی نے جب خطاب کیا تو امان بلوچ تقریر سے شرمندہ ہورہے تھے۔ امان بلوچ اُس وقت جماعت کے صوبائی سیکرٹری تھے، جماعت اسلامی کے صوبائی قائدین نے اس کو پسند نہیں کیا کہ جماعت اسلامی کا اسٹیج نواب کے لیے استعمال ہوا۔ عبدالحمید مینگل جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی امیر تھے۔ انہوں نے امان بلوچ پر دستِ شفقت رکھاتھا اور جماعت کے جنرل سیکرٹری کا مقام دیا۔ بعد میں جماعت میں ردعمل پیدا ہوا۔ ایک دن میں نے عبدالحمید مینگل سے کہا کہ امان بلوچ جماعت کو چھوڑ دیں گے اور نواب بگٹی کی طرف چلے جائیں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ نواب بگٹی نے سیاسی پارٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا، اس کا پہلا اجلاس وزیراعلیٰ ہائوس میں ہورہا تھا، یعنی نواب بگٹی کی پارٹی سرکار کے گھر میں بن رہی تھی۔ اس وقت نگراں وزیراعلیٰ ہمایوں مری تھے، اس طرح ان کے دور میں جمہوری وطن پارٹی بن رہی تھی۔ جس دن اجلاس ہورہا تھا، امان بلوچ مدعو نہ تھے۔ وہ اس دن کیفے بلدیہ میں ملے۔ چائے پر گفتگو ہورہی تھی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا کیا مشورہ ہے، اجلاس میں چلا جائوں؟ میں نے کہا کہ اگر آپ کو دعوت نہیں دی گئی ہے تو نہ جائیں۔ اگر آپ نے یہ غلطی کی تو نواب صاحب آپ کو گیٹ ہی سے واپس کردیں گے۔ انتظار کریں، نواب صاحب آپ کو کوئی عہدہ دیں گے، آپ مقرر ہیں نواب آپ کو نظرانداز نہیں کریں گے۔ لیکن امان بلوچ بہت زیادہ مضطرب، بے چین اور پریشان تھے، میرا مشورہ قبول کرلیا۔ بعد میں نواب نے انہیں جنرل سیکرٹری بنادیا، ترجمان بھی بنایا۔ یوں امان بلوچ نواب کے قریب گئے اور سینیٹر بن گئے۔ مجھے نواب نے ایک دن شام کے کھانے پر مدعو کیا۔ ان سے کہا کہ سُنا ہے آپ پارٹی بنارہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، کیا تم میری پارٹی میں شامل ہوگے؟ میرا جواب تھا کہ نہیں۔ انہوں نے پوچھا: کیوں نہیں؟ ان سے کہا کہ نواب صاحب آپ سے دوستانہ ہے، اس کو برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ نواب صاحب کی کوشش تھی کہ میں پارٹی میں شامل ہوجائوں، بعض دوستوں کا مشورہ بھی یہی تھا، لیکن دل نہیں مانا، ورنہ میرے لیے سینیٹر بننا مشکل نہ تھا، اور پارٹی کے اعلیٰ عہدے پر پہنچ سکتا تھا۔ اکثر لوگوں نے نواب کا ساتھ چھوڑ دیا جنہیں نواب نے سینیٹر بنایا یا صوبائی اسمبلی میں پہنچایا۔ جب نواب کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو نواب کے ایک قریبی عزیز نے نواب کے خلاف کام کیا اوراعلان کیا کہ نواب بگٹی کو نوابی سے معزول کردیا گیا ہے۔ پرویزمشرف نے نواب بگٹی کے خلاف آپریشن شروع کیا تواعلان کیا کہ میں اکبر خان کو نواب نہیں مانتا ،تو شیخ رشید نے بھی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ میں بھی نواب بگٹی کو نواب نہیں مانتا، آج کے بعد سے میں انہیں صرف اکبر خان کہوں گا۔ چاپلوسی میں شیخ رشید اتنے بڑھ گئے تھے۔
ایک دلچسپ اور تاریخی واقعے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جب جنرل یحییٰ خان نے ایوب خان سے اقتدار لے لیا تو حکومت نے اعلان کیا کہ وہ تمام اسلحہ حکومت کے حوالے کردیا جائے جس کا لائسنس نہیں ہے۔ اس موقع کا ایک دلچسپ واقعہ سیف الرحمان مزاری نے مجھے سنایا۔ وہ نواب بگٹی کے بہت قریب تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن میں نواب خیر بخش مری کے گھر ملاقات کے لیے گیا تو وہ اپنے گھر میں ہتھوڑوں سے اسلحہ کو توڑ رہے تھے۔ اُن سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس اسلحہ کا لائسنس نہیں ہے، ڈی سی کا حکم ہے، اس کو واپس کرنے جارہا ہوں۔ دوسرے دن نواب خیر بخش خان مری ڈی سی آفس کوئٹہ پہنچے اور اطلاع دی کہ نواب مری آئے ہیں۔ جب وہ ڈی سی آفس میں داخل ہوئے تو ڈپٹی کمشنر اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، کمرے میں اس کی کرسی کے سوا کوئی کرسی موجود نہیں تھی۔ نواب مری سمجھ گئے کہ میری بے عزتی کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا۔ نواب مری آگے بڑھے اور اسلحہ کا صندوق زور سے میز پر رکھ دیا، اس کے بعد نواب نے جتنی ’’دعائیں‘‘ یاد تھیں اس کو دے دیں۔ اس پر وہ کانپنے لگا۔ نواب نے کہا کہ میں نواب ہوں، کرسی پر بیٹھوں یا نہ بیٹھوں، تم میری اس طرح سے بے عزتی نہیں کرسکتے۔ اس نے معافیاں مانگنی شروع کردیں اور کہا کہ اوپر سے ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ نواب نے جتنی بے عزتی اس کی کرسکتے تھے، کی، اور کمرے سے باہر آگئے۔ یہ واقعہ اس لیے بیان کررہا ہوں تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ ہمارے حکمران کس طرح سوچتے ہیں۔
نواب بگٹی اور نواب مری میں زبردست سیاسی اور قبائلی یارانہ تھا، لیکن جب نواب بگٹی بھٹو کے قریب گئے تو نوجوانی سے پختہ عمر تک کی کہانی ختم ہوگئی۔ بھٹو کے دور میں نواب بگٹی کے سردار عطا اللہ مینگل، خیر بخش خان مری اور میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ ماضی کے تمام تعلقات پارہ پارہ ہوگئے اور راستے جدا ہوگئے۔ حیدر آباد جیل میں نواب مری اور میرغوث بخش بزنجو کے تعلقات ختم ہوگئے۔ نواب مری اور عطا اللہ مینگل کے تعلقات قائم نہیں رہے۔
افغانستان میں جنرل نجیب کے خاتمے کے بعد نواب مری پاکستان لوٹ آئے۔ سردار عطا اللہ مینگل برطانیہ سے واپس آگئے تھے۔ میر غوث بخش بزنجو فوت ہوگئے تھے، تو نواب نے کوشش کی اور سردار عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش خان مری کو اپنے گھر دعوت دی۔ یہ ملاقات ایک لحاظ سے آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد پھر یہ کبھی آپس میں نہیں ملے۔ پہلے نواب بگٹی تصادم میں جان کی بازی ہار گئے، اُن کے بعد نواب مری فوت ہوگئے۔ اب صرف سردار عطا اللہ مینگل اکیلے رہ گئے۔ ایک دور اپنے اختتام کے آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی تاریخی اور عبرت ناک شکست کے بعد قوم پرستوں، کمیونسٹوں اور کانگریسی ذہن کے تمام خیالات اور مستقبل کے خودساختہ خواب اور خواہشیں سب ایک ایک کرکے دم توڑ گئی ہیں۔ کمیونسٹوں کا اَن داتا سوویت یونین اب تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوگیا اور اپنے ساتھ وہ سب کچھ لے گیا ہے جس کے بل پر دنیا کی حکمرانی کا خواب دیکھتا تھا۔ نواب بگٹی کے ساتھ ان تمام مرحلوں پر زبردست بحث ہوتی تھی۔ وہ بھی کچھ عرصے کے بعد مایوس ہوگئے اور اُن کے تمام تجزیے غلط ثابت ہوگئے، اور انہوں نے بالآخر ایک دن میرے سامنے تسلیم کیا کہ ہم نے جو بلوچ نوجوانوں کو بتلایا تھا، جو ہمارے تجزیے تھے وہ سب غلط ثابت ہوگئے۔ اب بلوچ نوجوانوں کو اپنا راستہ خود بنانا ہوگا اور ماضی سے کچھ سبق سیکھنا ہوگا۔
(جاری ہے)