آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن اور سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی سے گفتگو
عبدالرشید ترابی دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ آزاد کشمیر کے ناظم رہے ہیں۔ سیاست میں آئے تو جماعت اسلامی میں شامل ہوئے، اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر رہے۔ بار آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں رکن منتخب ہوئے۔ اس وقت پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ بے شمار دفعہ اوآئی سی سمیت دیگر عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر کی ترجمانی کرچکے ہیں۔ اِس سال آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں اور 5 اگست2019ء کے واقعے نے بھی بہت اثرات چھوڑے ہیں۔ اس پس منظر کشمیر کے سلگتے ہوئے سیاسی ماحول میں ان سے فرائیڈے اسپیشل کے لیے گفتگو کی گئی، جو قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کشمیر کی آزادی کی حالیہ تحریک کو تیس سال ہوچکے ہیں، یہ تحریک بے شمار نشیب و فراز سے گزری ہے۔ ہمیں تحریک کے اب تک کے حالات اور مستقبل میں امکانات سے متعلق اپنے تجزیے سے آگاہ کیجیے؟
عبدالرشید ترابی: حالیہ تحریک سے قبل مسئلہ کشمیر عالمی فورم کے کسی بھی اجلاس کے دوران ایجنڈے کا حصہ نہیں رہا، بلکہ وہاںکے عوام سیاسی لحاظ سے رائے شماری کے حصول کی کوشش کرتے رہے، اور کبھی کبھی خاموشی بھی رہی۔ معروف تاریخ نویس قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ معاہدۂ تاشقند کے بعد مسئلہ کشمیر کو تابوت میں رکھ دیا گیا تھا، اور اس کے بعد جب شملہ معاہدہ ہوا تو یہ تابوت دفن کردیا گیا، شملہ معاہدہ سقوطِ ڈھاکا کے بعد ہوا، پاکستان کے لیے بہت ہی بحرانی دور تھا۔ سقوطِ ڈھاکا کے زخم کے بعد بھی کشمیریوں نے سرنڈر نہیں کیا بلکہ اپنی مزاحمت جاری رکھی، اور اس کے کئی مراحل آئے۔1987ء میں مقبوضہ کشمیر میں متحدہ مسلم محاذ نے انتخابات میں حصہ لیا۔ مگر انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی، جس کے بعد یکسوئی پیدا ہوئی کہ جمہوری جدوجہد سے آزادی کی منزل نہیں ملے گی۔ اُس وقت خطے کے حالات تبدیل ہورہے تھے، روس افغانستان میں شکست کھا کر واپس جارہا تھا، دیوار برلن گر گئی تھی، جہادِ افغانستان کے بھی اثرات تھے، وسط ایشیائی ریاستیں بھی آزاد ہورہی تھیں، اور اس دوران کشمیری عوام نے بھی اپنی آزادی کی تحریک نئے سرے سے شروع کردی، اُس کے بعد سے آج تک کشمیر فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے اور حالیہ تحریکِ آزادی کو آج تیس سال ہوچکے ہیں، بھارت کی فوج اپنی تمام تر سفاکی کے باوجود اسے ختم نہیں کرسکی۔ اس تحریک میں بہت سے ایسے مجاہدین بھی شہیدہوئے جنہوں نے تن تنہا بھارتی فوج کا کئی کئی روز تک مقابلہ کیا، اور سیکڑوں ایسے مجاہدین شہید ہوئے جنہیں اُن کی بہادری پر نشانِ حیدر جیسا اعلیٰ اعزاز ملنا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس قدر جدوجہد کے بعد ہم سوال کررہے ہیں کہ منزل کب ملے گی؟
عبدالرشید ترابی: تحریکِ آزادیِ کشمیر کی حتمی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کشمیر کی آزادی کے بارے میں اپنا بیانیہ واضح کرے۔ کمزور بیانیے کی وجہ سے تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی، بلکہ اس سے ایف اے ٹی ایف جیسے فورم پر بھی پاکستان کو سوالوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کشمیری عوام نے گزشتہ تیس سال میں بے پناہ قربانیاں دے کر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر اجاگر کردیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ان تیس برسوں میں ہم نے بہت سے واقعات ہوتے دیکھے ہیں، اور اب پانچ اگست بھی دیکھنا پڑا ہے؟
عبدالرشید ترابی: پانچ اگست کا واقعہ تو ایسے ہی ہے جیسے اسلام آباد، لاہور یا کراچی پر حملہ ہوگیا ہو۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ شملہ معاہدے کے بعد بہت کچھ بدلا، حتیٰ کہ مظفر آباد اور تراڑ کھل ریڈیو جس سے تحریکِ آزادی کی بات کی جاتی تھی، اسے بھی بند کردیاگیا، لیکن قاضی حسین احمد صاحب کی جانب سے پانچ فروری کو یوم یکجہتیِ کشمیر منانے کی اپیل کے بعد ایک حوصلہ افزا صورت حال سامنے آئی تھی۔ جماعت اسلامی نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں جگہ جگہ کشمیر کارواں چلائے۔ کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے پاکستان ایٹمی قوت بنا۔ جب کہ ہندوستانی فوج میں بددلی پیدا ہوچکی ہے، وہاں خودکشی کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں۔ اُس وقت بھارتی حکومت نے اپنی فوج کو حوصلہ دینے اور عوام میں مایوسی ختم کرنے کے لیے ایٹمی دھماکے کیے تھے، پاکستان نے جواب میں ایٹمی دھماکہ کرکے کشمیریوں کو نیا حوصلہ دیا اور صورتِ حال ہی بدل دی۔ یہ تحریک اپنی کامیابی کی منزل اسی صورت میں پائے گی جب پاکستان اپنا بیانیہ درست کرے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: مہاجرین کی بارہ نشستوں کی کتنی اہمیت ہے؟
عبدالرشید ترابی: بلاشبہ مہاجرین کی بارہ نشستوں کی بہت اہمیت ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے کسی حلقے میں بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے، ورنہ خدشہ ہے کہ ردعمل آسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: وزارتِ خارجہ سے متعلق بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ وہ بیرونِ ملک کشمیر کے لیے عوام کی امنگوں کے مطابق کام نہیں کرتی، آپ بھی بے شمار مرتبہ بیرون ِملک گئے ہیں، آپ کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے؟
عبدالرشید ترابی: جس طرح جدوجہدِ آزادی چل رہی ہے اور اس نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے سامنے بھی سرنڈر نہیں کیا بلکہ مجاہدین بہادری دکھا رہے ہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ وزارتِ خارجہ ہماری ان کوششوں سے فائدہ اٹھاتی، مگر ہمیں اس کا فقدان نظر آیا ہے۔ ہم نے نجی بل کی صورت میں قانون سازی کی کوشش کی تھی اور 13 ویں آئینی ترمیم لائے تھے۔ ہماری وزارت خارجہ اسے استعمال نہیں کررہی۔ اصل میں بیوروکریسی اختیارات چاہتی ہے، یہ پاکستان میں کشمیر کونسل کے ذریعے بہت کچھ کرتی رہتی تھی، مگر اب اس کے منہ سے کشمیر کونسل کی چوسنی نکل گئی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ رائے دی جارہی ہے کہ صدرِ آزاد کشمیر رائے شماری کے لیے مشیر نامزد کریں، اور قانون ساز اسمبلی اپنے دائرۂ اختیار کو بڑھائے اور آزاد کشمیر کے ساتھ گلگت اور مقبوضہ کشمیر کو بھی اس میں شامل کرے۔ اس پر آپ کی رائے کیا ہے؟
عبدالرشید ترابی: یہ تجویز بہت صائب ہے، ریاست کشمیر کے صدر کو رائے شماری کے لیے مشیر کی نامزدگی کرنی چاہیے۔ یہ تو وہ اختیار ہے جسے صدر کو خود استعمال کرنا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ آزاد کشمیر کے آئین میں ریاست کا دائرۂ کار مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان تک بڑھانا چاہیے، یہ سب علاقے ریاست کشمیر کا حصہ ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آزادی کی تحریک کے لیے کُل جماعتی حریت کانفرنس بہت اعلیٰ اور سائبان کی حیثیت رکھنے والا سیاسی فورم ہے، مگر یہ بھی تقسیم ہوا، اس کی وجہ کیا ہے؟
عبدالرشید ترابی: مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی نے بہت اثر ڈالا تھا، مگر یہ بات درست ہے کہ سیاسی فورم حریت کانفرنس بھی بے اثر ہوئی، البتہ یہ بات ضرور جاننی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ حریت کانفرنس تو جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کی وجہ سے تقسیم ہوئی۔ اس فارمولے کو سیدعلی گیلانی نے تسلیم نہیںکیا تھا جس کے بعد کل جماعتی حریت کانفرنس تقسیم ہوگئی۔ پانچ اگست کے واقعے کے بعد پھر وہاں کشمیری قیادت میںمفاہمت ہوئی تھی اور مشترکہ جدوجہد پر اتفاق ہوا تھا۔ ہم نے وزیراعظم عمران خان کو تجویز دی تھی کہ جب وہ اقوام متحدہ میں خطاب کریں تو عین اسی وقت یہاں کشمیری عوام لائن آف کنٹرول پر جائیں تاکہ عالمی برادری پر دبائو بڑھے اور دنیا کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے سوچے۔ مگر ہمیں کہا گیا کہ پہلے وزیراعظم کو اقوام متحدہ میں خطاب کرنے دیا جائے ،اس کے بعد ایسا کوئی پروگرام بنایا جائے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ کشمیر کی تحریک ِآزادی کی کامیابی کے لیے پاکستان کی جانب سے بیانیے میں مضبوطی کی ضرورت ہے۔ تیس سال قبل کشمیری رہنمائوں نے وہاں کی اسمبلی کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے خلاف تحریکِ مزاحمت کو ایک نئی شکل دی، جس کے بعد وہاں مسلح جدوجہد شروع ہوئی اور نوجوانوں نے اس تحریک میں اپنا خون دیا اور ابھی تک دے رہے ہیں۔ یہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کا ثمر ہے کہ آج مسئلہ کشمیر کی بات اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی سمیت ہرعالمی فورم پر کی جارہی ہے۔ کشمیری عوام اور قائدین اپنے بیانیے پر مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں، بلکہ وہاں کی نئی نسل جو اسی تحریکِ آزادی کے دوران پلی بڑھی ہے اُس نے وہاں بہت مصائب دیکھے ہیں اور وہ اب بہت ہی بے خوف ہوچکی ہے، حالانکہ اس تحریک میں کشمیری عوام کا بہت نقصان ہوچکا ہے، ان کی اربوں روپے کی قیمتی املاک تباہ ہوچکی ہیں، بے شمار نوجوان شہید ہوچکے ہیں، اور خواتین کی عصمت دری کے واقعات ہوئے ہیں، گھر جلائے گئے ہیں، مگر اس کے باوجود کشمیری عوام جدوجہد میں شریک ہیں۔ پانچ اگست کے واقعے کے بعد یہاں یہ صورت حال بنی تھی کہ پوری قوم متحد تھی اور اسے حکمت کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت تھی، مگر حکومتِ پاکستان کے کمزور مؤقف کی وجہ سے ایک بیانیہ نہیں بن سکا۔ وزیراعظم نے یہ کہہ کر زیادتی کردی کہ جو لائن آف کنٹرول کے پار جائے گا وہ کشمیر سے غداری کرے گا۔ انہیں یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ نہ جانے کون سے ایسے مشیر ہیں جو انہیں اس طرح کے مشورے دیتے ہیں۔ انہیں نزاکت کا احساس کرنا چاہیے تھا۔ جنرل پرویزمشرف نے بھی فارمولا دیا، پھر اعلانِ اسلام آباد ہوا، مگر ہم اپنے حقِ مزاحمت کو نہیں چھوڑ سکتے۔
فرائیڈے اسپیشل: کچھ وضاحت فرمائیں کہ پاکستان کے بیانیے میں کس طرح مضبوطی آئے؟
عبدالرشید ترابی: عالمی برادری کا سب سے بڑا فورم اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل یہ نکتہ اور مؤقف تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت اورپاکستان دو فریق ہیں۔ پاکستان کی یہی حیثیت اُسے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے کہ وہ عالمی برادری کے سامنے وکیل کی حیثیت سے مقدمہ لڑے اور یہ بات تسلیم کروائے کہ کشمیری عوام کو اُن کی مرضی کے مطابق یہ حق دیا جانا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
فرائیڈے اسپیشل: آزاد کشمیر میں اس سال کے وسط میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی کیا حکمت عملی ہوگی؟ تنہا انتخابات میں حصہ لے گی یا اتحاد کرے گی، یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی؟
عبدالرشید ترابی: جماعت اسلامی آزاد کشمیر ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں اپنے منشور اور اپنے پرچم کے ساتھ حصہ لے گی، ہم نے تمام حلقوں کے لیے اپنے امیدوار نامزد کردیے ہیں۔ ہم عوام کے ووٹ کی طاقت سے ریاستی اسمبلی میں اپنی عددی قوت بڑھائیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: وزیراعظم عمران خان نے کوٹلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان رائے شماری کے بعد بھی کشمیری عوام کو یہ حق دے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کریں؟
عبدالرشید ترابی: پاکستان تو یہی چاہتا ہے کہ کشمیری عوام حقِ رائے شماری مل جانے کے بعد خود فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہیں گے یا خودمختار بنیں گے۔ وزیراعظم پاکستان نے کوٹلی میں جو بات کی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اس بیان سے یہاں فرسٹریشن ختم ہوگی۔