نعمت کے اثرات نظر آنے چاہئیں

ایک روز امام ابوحنیفہؒ نے اپنی مجلس میں ایک شخص کو دیکھا کہ اُس نے بہت بوسیدہ اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، امام صاحبؒ نے اس شخص سے کہا ’’یہ جائے نماز اٹھائو اور اس کے نیچے جو کچھ رکھا ہو، لے لو‘‘۔ اس شخص نے جائے نماز کو اٹھایا تو دیکھا کہ ایک ہزار درہم رکھے ہوئے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: ’’یہ درہم لے جائو اور اس سے اپنی حالت درست کرلو‘‘۔ اب وہ شخص بولا: ’’میں تو مال دار آدمی ہوں، اللہ نے مجھے بہت سی نعمتیں دی ہیں۔ مجھے ان درہم کی ضرورت نہیں‘‘۔ امام صاحبؒ نے فرمایا: ’’کیا تم نے وہ حدیث نہیں سنی کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے پر اللہ کی نعمتوں کے آثار دوسروں کو نظر آئیں۔ تمہیں چاہیے تھا کہ اپنی حالت ٹھیک کرتے، تاکہ دیکھ کر تمہارا کوئی دوست مغموم نہ ہو‘‘۔
(خطیب: تاریخ بغداد، ص361، ج 13 بیروت)
(مفتی محمد تقی عثمانی۔ تراشے)

جنونِ عشق

لوگوں نے مجنوں کو دیکھا کہ اُس نے ایک کتے کو گلے لگایا ہوا ہے اور اُس کی بلائیں لے رہا ہے، اُس سے خوب پیار کررہا ہے، اُس کے پائوں چوم رہا ہے۔
دردِ عشق سے ناآشنا ایک آدمی نے جب یہ ماجرا دیکھا تو لگا، تاویلیں کرنے:
’’ارے دیوانے یہ کیا کررہا ہے؟ یہ کیا مذاق ہے؟ یہ کتاب ناپاک اور پلید ہے، دن رات گندی جگہ میں منہ مارتا رہتا ہے، تُو اسے کیوں چوم رہا ہے؟ عیب پر نگاہ رکھنے والا غیب پر مطلع نہیں ہونے پاتا‘‘۔
اس کے یہ اعتراضات سن کر مجنوں نے جواب دیا:
’’اے شخص! تُو ظاہری شکل پر جاتا ہے۔ ذرا گہرائی میں اتر اور اس کتے کو میری آنکھوں سے دیکھ، یہ میرے محبوب کی گلی کا کتا ہے۔ ذرا اس کی نگاہِ انتخاب تو دیکھ، بلکہ تُو اسے داد دے کہ اس نے کیسا مقام پسند کیا ہے۔ یہ میرا پیارا اور ہمدرد ہے۔ یہ لیلیٰ کی گلی کا چوکیدار ہے، جو کتا لیلیٰ کی گلی کا رہنے والا ہو اُس کے پیروں کی خاک مجھے شیروں سے بھی بہتر لگتی ہے۔ شیر تو لیلیٰ کی گلی کے کتے کے غلام ہیں۔ کاش! تُو میرے قلب کی کیفیت سے آگاہ ہوتا۔ یہ راز زبان سے ظہور پذیر نہیں ہوسکتے، اس لیے اے مخاطب خاموشی بہتر ہے‘‘۔
درسِ حیات: لوگ اگر اس صورت پرستی سے آگے دیکھیں اور ان صورتوں کے خالق کی طرف متوجہ ہوں جو حسن کا اصل سرچشمہ و مرکز ہے تو دنیا ہی سے جنت کا لطف و نظارہ شروع ہوجائے۔
(”حکایاتِ رومی“…مولانا جلال الدین رومیؒ)

پوستی اور نوسرباز

ایک پوستی اپنے گدھے کو لیے جارہا تھا۔ اسے دو نوسربازوں نے دیکھ لیا اور دبے پائوں اس کے پیچھے ہولیے۔ ایک نے گدھے کی گردن سے رسّی نکال کر اپنی گردن میں ڈالی اور دوسرا گدھے کو لے کر کھسک گیا۔ جب پوستی اپنے گھر پہنچا اور گدھے کو باندھنے لگا تو دیکھا کہ رسّی ایک آدمی کے گلے میں ہے، پوچھا: تم کون ہو؟ اور میرا گدھا کہاں گیا؟ کہنے لگا: میں ہی تمہارا گدھا ہوں۔ بات یہ ہے کہ آج سے دس سال پہلے میں نے کسی بات پر اپنی ماں کو پیٹا تھا، ماں نے بددعا دی اور اللہ نے مجھے دس سال کے لیے گدھا بنادیا۔ آج ہی وہ میعاد پوری ہوئی ہے اور مجھے پھر انسانی شکل مل گئی ہے۔
پوستی نے اس کی کہانی کو صحیح سمجھ کر اسے چھوڑ دیا۔ چند روز کے بعد جب وہ منڈی میں دوبارہ گدھا خریدنے گیا تو دیکھا کہ اس کا اپنا گدھا بھی بکنے کے لیے آیا ہوا ہے۔ اس کے قریب آیا اور جھک کر اس کے کان میں کہنے لگا: کم بخت کیا ماں کو پھر پیٹا ہے؟‘‘
(ماہنامہ چشم بیدار۔ نومبر 2018ء)

پڑوس کی قیمت

کہتے ہیں کہ قونیہ کا ایک آدمی قرضے کی وجہ سے اپنا مکان بیچنے پر مجبور ہوگیا۔ جب خریدار جمع ہوئے تو اس نے آواز دی:
’’مکان کی قیمت پانچ سو اور پڑوس کی قیمت دو ہزار، کّل ڈھائی ہزار‘‘۔
اس کے پڑوس میں مولانا جلال الدین رومیؒ رہتے تھے۔

زبان زد اشعار

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
(ذوقؔ)
……٭٭٭……
ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
(غالبؔ)
……٭٭٭……
اس شان سے وہ آج پئے امتحاں چلے
فتنوں نے پائوں چوم کے پوچھا کہاں چلے
(جلیل مانکپوری)
……٭٭٭……
ایک اک کرکے ستاروں کی طرح لوٹ گئے
ہائے کیا لوگ مرے حلقہ احباب میں تھے
(جرأتؔ)
……٭٭٭……
انیسؔ دَم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
(میر انیس)