قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص خاموش رہا، اس نے نجات پائی۔(احمد، ترمذی، دارمی)۔
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا (احزاب:ع8)۔
’’اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیتے ہیں، بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو، وہ موذی بہتان اور گناہِ صریح کا بار اپنے اوپر لاتے ہیں‘‘۔
ظاہر ہے کہ بعد انبیائے کرام کے کوئی مسلمان معصوم نہیں ہوسکتا۔ امت کے ہر فرد سے کچھ نہ کچھ خطائیں، لغزشیں یا گناہ سرزد ہوں گے۔ لیکن محض اس بنا پر کہ ہر شخص سے گناہ و خطا کا امکان ہے، بغیر ثبوت کسی مسلمان پر کوئی جرم عائد کردینا اور اسے بدنام کرنا، یا کسی کی بدنامی کی حکایت سن کر بلاتحقیق اسے قبول کرلینا اور اس کی تشہیر میں لگ جانا ہرگز کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں، بلکہ جو لوگ ایسا کرتے رہتے ہیں انہیں مسلمانوں کو دکھ پہنچانے والا بتایا گیا ہے، اور انہیں ڈرایا گیا ہے کہ وہ اپنی یاوہ گوئی سے خود اپنے ہی اوپر تہمت اور معصیت کا بار لاد رہے ہیں۔
مومن کا مرتبہ اللہ کی نظر میں کعبۃ اللہ سے بھی بڑھ کر ہے (ابن ماجہ)، اور مومن کی عزت اللہ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہے۔ اسلام میں تو ناپاک جانوروں کتے، سور تک کو بلاوجہ تکلیف دینے کی اجازت نہیں، پھر انسان اور مومن انسان کو دکھ پہنچانا، اسے بدنام کرنا، اس کی توہین و رسوائی کے واقعات ازخود تراشنا، یا دوسروں سے سنی سنائی حکایتوں اور روایتوں کا بلاتحقیق چرچا کرتے رہنا خدائی قانون میں کتنا سنگین جرم اور کیسی شدید معصیت ہوگی! یہ ’’تعلیم‘‘ آپ کی کتاب کی ہے، مگر آپ کا ’’عمل‘‘ کیا ہے؟ اپنی دن بھر کی گفتگو کا کسی دن حساب لگایئے اور اس کو جانچیے کہ آپ کے وقت کا کتنا بڑا حصہ محض اپنے ہی جیسے مسلمانوں کی ہجو سننے اور کرنے کی نذر ہوتا ہے! آپ کی صحبتوں میں جب کسی کی بدگوئی ہوتی ہے، جب کسی کی شراب خوری و بدکاری کے واقعات بیان ہوتے ہیں، جب کسی کی بدمزاجی کا تذکرہ ہوتا ہے، جب کسی کے گھر کے عیبوں کے قصے چھڑتے ہیں تو آپ کس لطف و شوق سے سنتے ہیں! اور اس کے بعد کس کس طرح مزے لے لے کر دوسروں سے آپ اپنی ان ”نادر و بیش بہا معلومات“ کو نقل فرماتے رہتے ہیں! پھر اس میں اس کی بھی قید نہیں کہ یہ تذکرے آپ کے دشمنوں ہی کے ہوں… ہم وطن، ہم محلہ، ہمسایہ، ساتھ کے پڑھے ہوئے، ساتھ کے کھیلے ہوئے، ہم خاندان، دوست عزیز کوئی بھی اس سے محفوظ و مستثنیٰ نہیں۔ کسی کی بھی رسوائی اور بدنامی کی بھنک بس آپ کے کان تک پہنچ جائے! پھر آپ ہوتے ہیں اور اس غریب کی عزت! آپ کی زبان ہوتی ہے اور اس بے چارے کی آبرو!۔
زمانے کی ترقی کے ساتھ اب آپ کی اس خصوصیت میں بھی ماشا اللہ ’’ترقی‘‘ ہے۔ پہلے بات بڑھنے اور پھیلنے پر بھی اپنے ہی ملنے جلنے والوں تک محدود رہتی تھی۔ اب اخبارات کے کالم ہیں اور پبلک جلسوں کے پلیٹ فارم! فلاں انجمن کا حساب جھوٹا نکلا، جھوٹے مدرسے میں غبن ثابت ہوگیا، فلاں لیڈر اتنا چندہ ہضم کرگیا، فلاں قومی کارکن کی چوری پکڑی گئی، فلاں شاہ صاحب نے بڑھاپے میں دوسرا عقد کرلیا، فلاں مولانا نے اپنی تنخواہ اتنی بڑھا رکھی ہے، فلاں خاندان کی سفیدی سیاہی میں مل گئی، فلاں گھرانے کی ناک کٹ گئی، فلاں نے فلاں سے رشوت لے لی! یہ ہیں ہمارے اخبارات کی سرخیاں، یہ ہیں ہمارے روزناموں کے مقالات کے عنوان! یہ ہیں ہمارے خوش تقریروں کی تقریروں کے خلاصے! گویا اللہ کے نزدیک مومن کی عزت جس قدر قیمتی تھی، ٹھیک اسی کے مقابل ہماری نظر میں ہلکی اور بے وقعت ہوگئی ہے! اور خدائے ستار نے جتنی فضیلت مومنوں کے عیوب اور کمزوریوں کو چھپانے اور ان پر پردہ ڈالے رکھنے کی بتائی تھی، اتنی ہی مسرت ہمیں ایک دوسرے کی پردہ دری کرنے، ایک دوسرے پر گندگی اچھالنے اور ایک دوسرے کو ذلیل و رسوا کرنے میں ہورہی ہے! ہماری ان دلچسپیوں کا نتیجہ اگر اس صورت میں ظاہر ہورہا ہے کہ ہر محفل میں ہماری ہی بدنامی و ذلت کے چرچے ہیں اور ہر زبان پر ہماری ہی رسوائی و بے آبروئی کے تذکرے، تو اس کے ذمہ دار خود ہمارے ہی کرتوت ہیں یا کچھ اور!۔