حکومت سے سفارتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ
سیاسی جماعتوں کی ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ
یوم یکجہتیِ کشمیر کے موقع پر جماعت اسلامی پاکستان نے قومی کشمیر کانفرنس منعقد کی، جس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین، سفارت کاروں، کشمیری قیادت، وکلا، صحافیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ مقررین میں آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر راجا ظفرالحق، سینیٹر مشاہد حسین سید، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم، نائب امراء جماعت اسلامی میاں محمد اسلم، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، پروفیسر محمد ابراہیم، جے یوپی کے رہنما شاہ اویس نورانی، جمعیت اہلحدیث کے رہنما پروفیسر ساجد میر، سفارت کار (ر) عبدالباسط، این ایل ایف کے صدرشمس الرحمٰن سواتی، سید محمد بلال، جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا، پیپلزپارٹی کے نیر حسین بخاری، فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر خالد محمود، سابق امیر اور رکن اسمبلی عبد الرشید ترابی،عبداللہ حمید گل، شمیم شال، محمود ساگر، غلام محمد صفی، خالد رحمن، آصف لقمان قاضی، حامد الحق، ایم پی اے رنجیت سنگھ اور اینکر پرسن حامد میر،امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم، حریت رہنما محمود احمد ساغر، متحدہ جمعیت اہلحدیث کے رہنما سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، علامہ عارف واحدی، حافظ زبیر احمد ظہیر، نمائندہ وفاق المدارس عبدالقدوس، سردارتنجیت سنگھ، قاری یعقوب شیخ بھی شامل تھے۔ یہ کانفرنس امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی صدارت میں منعقد ہوئی جبکہ کانفرنس کی نظامت کے فرائض جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے انجام دیے۔ متفقہ اعلامیہ تیار کرنے کے لیے خالد رحمٰن، آصف لقمان قاضی، عبدالرشید ترابی اور غلام محمد صفی کی ذمہ داری لگائی گئی۔ کانفرنس کا آغاز غلام محمد صفی کی تلاوت سے ہوا، انہوں نے سورۃ البقرہ کی آخری آیات تلاوت کیں۔ کانفرنس پانچ گھنٹے جاری رہی۔ کانفرنس میں تجویز دی گئی کہ کشمیر کاز عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ملک کی قومی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک مشترکہ کونسل بنائی جائے جس کا ہیڈ کوارٹر منصورہ میں قائم کیا جائے، اور کانفرنس کا اعلامیہ دنیا بھر کی اہم زبانوں میں ترجمہ کرکے اہم ملکوں میں بھجوایا جائے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے افتتاحی کلمات کہے اور عالمی برادری کو خبردار کیا کہ کشمیر چار ایٹمی طاقتوں کے درمیان گھرا ہوا دنیا کا اہم ترین مسئلہ ہے، اور اگر اسے لاکھوں کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل نہ کیا گیا تو خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہوں گے، دنیا مسئلے کی اہمیت و نزاکت کو سمجھتے ہوئے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کا احترام کرے۔ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی میزبانی میں منعقدہ قومی کشمیر کانفرنس میں صدارتی کلمات کہتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر سفارتی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور مستقل طور پر ایک نائب وزیر خارجہ تعینات ہونا چاہیے جس کی ذمہ داری میں صرف امورِ کشمیر شامل ہوں۔ سینیٹر سراج الحق نے سینیٹر مشاہد حسین سید کی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ایک جوائنٹ پولیٹکل ٹاسک فورس تشکیل دی جائے۔ انہوں نے کشمیری قیادت اور کشمیری عوام کو بھارتی ظلم و استبداد کے آگے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہنے پر نہایت شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور یقین دلایا کہ خون کے آخری قطرے تک پاکستانی قوم ان کی جدوجہدِ آزادی میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے دکھ کا اظہار کیا کہ مودی حکومت کے 5 اگست 2019ء کے ظالمانہ اقدام کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے وہ پوزیشن اختیار نہیں کی جس کی قوم توقع کررہی تھی، وزیراعظم نے صرف زبانی جمع خرچ اور تقریروں سے کام لیا، تاہم حکومت کم از کم اب سنجیدہ رویہ اختیار کرے اور کشمیر کی آزادی کے لیے مربوط پالیسی تشکیل دے۔ انہوں نے حکومت کو یقین دلایا کہ اگر اس نے کشمیر کی آزادی کے لیے صدقِ دل سے جدوجہد کا آغاز کیا تو جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس کا ساتھ دیں گی۔ انہوںنے کہاکہ کشمیر پاکستا ن کی شہ رگ اور سر کا تاج ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں پر پاسپورٹ اور ویزا کی پابندی ختم ہونی چاہیے۔ حکومت کشمیر پر فی الفور بین الاقوامی کانفرنس بلائے اور آزاد کشمیر حکومت کو پورے کشمیر کی نمائندہ حکومت کا اسٹیٹس دے۔ جماعت اسلامی کو توقع تھی کہ حکومت بھارتی اقدامات کے جواب میں ایک قومی کشمیر کانفرنس کا انعقاد کرے گی، تاہم بار بار کے مطالبات کے باوجود ایسا نہ ہوسکا اور آخرکار جماعت اسلامی کو ہی یہ قدم اٹھانا پڑا۔ انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں و طاقتوں سے یہ توقع رکھنا کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے کوئی واضح مؤقف اپنائیں گے، بالکل عبث ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پوری قوم کشمیریوں کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے کے عہد کا اعادہ کرے گی۔کانفرنس کے اختتام پر سینیٹر سراج الحق نے اعلان کیا کہ کشمیر کانفرنس کا اعلامیہ اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجا جائے گا اور اس کو عالمی زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کیا جائے گا۔
کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قراردادوں کے بجائے اب عملی جدوجہد کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کا فیصلہ کیا مگر کشمیر پر خاموش ہے۔ ملک کے بائیس کروڑ عوام کی جانب سے کانفرنس کا پیغام مشترکہ ہے کہ ہم کشمیر کی آزادی تک کشمیری عوام کے ساتھ ہیں اور اُن کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ ہے اور ان کی قربانیوں کی قدر کرتی ہے۔ پاکستان کشمیر کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کشمیر کے سفیر بنیں، اور ٹیپو سلطان بنیں۔ ملک میں ہر جمعہ کو آدھے گھنٹے کے لیے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے مظاہرہ کرنا تھا، مگر حکومت اسے بھول گئی ہے، اور جب سے مقبوضہ کشیر میں لاک ڈائون لگا ہے حکومت نے قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی، بلکہ تین سال کے عرصے میں ایک بار بھی مشاورت نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مودی کو اُس کی زبان میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جوابی بیانیہ تیار کرنا ہوگا، کشمیر کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا جائے اور سفارتی ایمرجنسی نافذ کی جائے، ملک میں نائب وزیر خارجہ برائے کشمیر مقرر کیا جائے۔ حکومت نے تو کشمیر کمیٹی بھی پلوامہ کے واقعے کے بعد بنائی، حکومت بیرونِ ملک کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے کشمیری قیادت کو کردار دے اور اس کی مدد کی جائے۔ پاکستان میں عالمی کشمیر کانفرنس منعقد کی جائے اور او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔ اقوام متحدہ میں تقریر کرکے وزیراعظم خاموش ہوگئے ہیں، ان کی تقریر انہیں تلاش کررہی ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ جماعت اسلامی کشمیر سیکرٹریٹ بنائے۔ اسمبلی کو اپنے وفود بیرون ملک بھجوانے تھے مگر کورونا کی وجہ سے نہیں جاسکے۔ ہمیں مشترکہ مقصد کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں کشمیر کے لیے قرارداد لائی جائے گی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے جماعت اسلامی کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں فرنٹ رول کردار ادا کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہاکہ کشمیر پورے پاکستان کا مشترکہ مسئلہ ہے، اس ایشو پر سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر سب کو ایک پیج پر لائیں گے، کشمیر سیکرٹریٹ کو مزید فعال بنائیں گے۔ صدر ریاست آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے کہا کہ ہندوستان خدانخواستہ پاکستان کو مکمل مسمار کرنا چاہتا ہے، یہ سیاست دانوں کا کام ہے کہ کشمیر کاز کے لیے عالمی سطح پر آواز بلند کریں۔ ہندوستان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، پاکستان عظیم ملک ہے۔
صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے کہا کہ پانچ فروری کا دن قاضی حسین احمد کی وجہ سے منایا جاتا ہے، انہوں نے کشمیر کے لیے یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا تھا، یہ دن اب قومی دن بن گیا ہے، پورے ملک میں کشمیر کے لیے آوازوں میں یکسوئی ہے اور اختلافی باتیں جمہوریت کی وجہ سے ہیں، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جہاں بھی گئے انہیں عوام میں کشمیر کے لیے ہر جگہ یکسوئی نظر آئی۔ اس وقت کشمیر جل رہا ہے، انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں اور املاک تباہ کی جارہی ہیں، بھارت وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے اور اس نے ڈومیسائل بنا کر دیے ہیں اور کشمیر سے باہر کے لوگوں کو وہاں بسایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین نے کشمیر کے لیے آواز اٹھائی، ہمیں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تاکہ وہ بھارت کے جال میں نہ آسکیں، اور انہیں احساس ہو کہ جن کے لیے وہ بول رہے ہیں انہیں بھی اس کا احساس ہے۔ ہمیں یہاں مایوسی کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ بھارت میں جہاد کی بات سے لرزہ طاری ہے، اور ہمیں ہر محاذ پر بات کرنی ہے۔ سفارت خانے جو کام کررہے ہیں ان کے لیے کام کی گنجائش محدود ہے، اصل کام سیاسی قیادت کو کرنا ہے جنہیں عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بھارت کا حلیف ہے، وہ ہمارے لیے بات نہیں کرے گا۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین مؤتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر راجا ظفرالحق نے کشمیریوں کے لیے جدوجہد کرنے پر قاضی حسین احمد مرحوم کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا، انہوں نے کہاکہ دنیا کی کوئی طاقت اتنی ظالم نہیں جتنا ہندوستان ہے۔ کشمیر پر آج کی کانفرنس کے اعلامیے کو پوری دنیا میں پھیلانا چاہیے۔ راجا ظفرالحق نے کہا کہ بانیِ پاکستان نے قاہرہ میں اپنے دورے میں بتایا تھا کہ ہندو کس قدر متعصب ہیں، یہ قوم انگریزوں سے بھی زیادہ متعصب ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ دنیا ہندوئوں سے ناواقف ہے۔ پانچ فروری کا دن ہمارے لیے توانائی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے، اور قاضی حسین احمد مرحوم نے اپنی بصیرت کی وجہ سے یہ دن منانے کا اعلان کیا تھا، اور اُس وقت پنجاب میں نوازشریف اور مرکز میں بے نظیر بھٹو حکومت نے اس اعلان کی تائید کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اعلامیہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے پھیلایا جائے اور کشمیر کا مقدمہ کشمیریوں کو لڑنے کا موقع دیا جائے، یہ بہتر لڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈاکٹر عبدالباسط جیسے سفیروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے رہنما سابق وزیراعظم راجا پرویزاشرف نے کہاکہ پاکستان کی اساس مسئلہ کشمیر پر ہے۔ بانی پی پی ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھاکہ کشمیر پر ایک ہزار سال تک جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے۔ کشمیر کے حالات ایک لائحہ عمل کے متقاضی ہیں، بدقسمتی سے حکومت نے وہ اقدامات نہیں اٹھائے جو اسے اٹھانے چاہیے تھے۔ ہمیں دنیا بھر کے فورمز پر کشمیر کی بات کرنی ہے۔ جماعت اسلامی کے کشمیر اعلامیے پر مکمل اتفاق ہے۔ کشمیر پاکستان کی ڈیفنس لائن ہے۔ موجودہ حکومت نے کشمیر کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سفارتی ایمرجنسی قائم کرنے کی ضرورت ہے اور دنیا بھر کو سفارت کاری کے ذریعے اپنا مؤقف بتایا جائے۔
سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ بھارت میں مودی انتخابی منشور پر عمل کررہا ہے، اور یہاں کہا گیا تھا کہ مودی آئے گا تو مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا۔ ہمارے وزیراعظم نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کی تھی، اس کی تردید نہیں کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان اور جنرل باجوہ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے گئے تھے اور امریکہ نے ثالثی کی بات کی تھی، مگر ہم معلوم کرتے ہیں کہ یہ اب کہاں ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاکہ کشمیر پر کسی صورت سودے بازی نہیں ہونی چاہیے، کشمیر ایشو پر عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، مسئلہ کشمیر پر جماعت اسلامی کی کوششیں قابل تحسین ہیں، جماعت اسلامی پاکستان میں کشمیر سیکرٹریٹ کا کام کرے، کشمیر پر جوائنٹ پولیٹکل پارٹیز ٹاسک فورس ہونی چاہیے، قومی سیاسی جماعتیں ایک مشترکہ سیاسی کونسل بنائیں جو کشمیر کے لیے کام کرے اور اس کا صدر دفتر منصورہ میں ہونا چاہیے۔ قائداعظم نے قوتِ ایمانی کے ساتھ پاکستان بنایا، اُن کے پاس کوئی فوج نہیں تھی۔ عراق پر حملے کے بعد امریکہ کمزور ہوا ہے اور حکومت نے کشمیر کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ بھارت کا یوم جمہوریہ کشمیر میں بلیک ڈے کے طور پر منایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں دھاندلی نہیں ہونی چاہیے۔
سابق سفیر ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا کہ ہمیں دنیا سے مطالبہ کرنے سے پہلے خود بھی قدم اٹھانے چاہئیں اور آزاد کشمیر کے آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ اس میں مقبوضہ کشمیر کو بھی شامل کیا جائے، اس حکومت کا دائرہ مقبوضہ کشمیر تک ہونا چاہیے، اسی طرح آرٹیکل گیارہ کے ذریعے صدر آزاد کشمیر خود رائے شماری کے لیے نمائندہ مقرر کریں۔ عبداللہ حمیدگل نے کہا کہ کشمیر جہاد سے آزاد ہوگا اور پوری قوم کو تیار کیا جائے۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر خالد محمود نے کہا کہ ہمیں مودی کے مقابلے کے لیے جوابی بیانیہ دینا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں حالات بدتر ہیں، وہاں لاک ڈائون کے باعث زندگی اجیرن بن چکی ہے اور املاک تباہ کی جارہی ہیں۔ شمیم شال نے کہا کہ بھارت جان بوجھ کر املاک تباہ کررہا ہے اور کاروبار تباہ کیے جارہے ہیں تاکہ بھارت کے سامنے کشمیری سرنڈر کر جائیں۔ خرم نواز گنڈا پور نے کہا کہ عملی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ کشمیریوں کی تیسری نسل مسائل کا شکار ہے، ہر غیر جمہوری حکومت نے کشمیر کا مسئلہ آئوٹ آف باکس حل کرنے کی کوشش کی، جب کہ قراردادیں موجود ہیں۔ شاہ اویس نورانی نے کہا کہ دنیا بلاکس میں تقسیم ہے اور ہمیں اس تقسیم کی وجہ سے مسائل ہیں۔ ایم پی اے تنجیت سنگھ نے کہا کہ ہمیں آزاد ملک پاکستان میں رہنا ایک نعمت معلوم ہوتا ہے۔ نیو زاینکر حامد میر نے کہا کہ پانچ اگست سے دو روز قبل یہاں ایک اہم میٹنگ ہوئی تھی جس میں حکومت کو بتادیا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کیا ہونے جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت کے بعد اب آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی باتیں کی جارہی ہیں، سیاسی جماعتیں جواب دیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ حامد میر کے اس نکتے کا نیر حسین بخاری نے جواب دیا کہ حامد میر پورا سچ بولیں۔
مشترکہ اعلامیہ
قومی کشمیر کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیاہے کہ قومی کانفرنس ریاست جموں و کشمیر کی اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو تبدیل کرنے کے ناجائز بھارتی اقدام، مقبوضہ ریاست میں جاری بھارتی دہشت گردی، مسلسل لاک ڈائون، سرچ آپریشن کے نام پر نوجوانوں کی گرفتاریوں، حراستی قتل، املاک، اسباب، زراعت و کاروبار کی تباہی و بندش کی مذمت کرتے ہوئے سابق فوجیوں اور آر ایس ایس کے دہشت گردوں کی آبادیاں قائم کرنے اور مقامی لوگوں کی جگہ مودی کے ہم فکر فاشسٹ ذہنیت کے حامل ملازمین کی بڑے پیمانے پر ریاست میں تعیناتی کی بھی مذمت کرتی ہے۔ قومی کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں آزادی صحافت اور اخبارات پر پابندیوں کی مذمت اور قائدینِ حریت، مجاہدینِ کشمیر اور حریت پسند عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ کانفرنس اہلِ کشمیر سے اظہارِ یکجہتی کرتی اور انہیں یقین دلاتی ہے کہ پوری قوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔کانفرنس اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل و دیگر اداروں، ارکانِ پارلیمنٹ، ذرائع ابلاغ اور تھنک ٹینکس کا شکریہ ادا کرتی ہے جنہوں نے کشمیر کے لیے آواز بلند کی۔کانفرنس کشمیر کے لیے تارکینِ وطن پاکستانیوں، ارکان پارلیمنٹ، اہلِ قلم و اہلِ دانش، علماء و اسکالرز کو کشمیر کے لیے کاوشوں پر خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔کانفرنس اس حقیقت کی یاددہانی بھی ضروری سمجھتی ہے کہ کشمیر کا تنازع دوطرفہ یا کسی سرحدی جھگڑے سے متعلق نہیں، بلکہ اصل مسئلہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں وہاں کے عوام کو اپنی مرضی اور بین الاقوامی نگرانی میں منعقد کیے جانے والے استصواب کے ذریعے طے کرنا ہے،کانفرنس سمجھتی ہے کہ کشمیر میں آزادی اور حقِ خودارادیت کی تحریک کو مسلمہ طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ قابض استعماری قوت کی جانب سے اپنے خلاف ہونے والے ظلم و جبرسے دفاع اور آزادی کے حصول کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے۔کانفرنس اس حقیقت کو دہراتی ہے کہ کشمیر تنازعہیکے چار فریق ہیں: جموں و کشمیر کے عوام، پاکستان، قابض ہندوستان، اور اقوام متحدہ۔ کانفرنس سمجھتی ہے کہ تمام بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کا احترام کرے اور پاکستانی حکومت کشمیریوں کے حقِ مزاحمت کو بحال کرنے میں کردار ادا کرے۔ کانفرنس محسوس کرتی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے اس اہم مرحلے میں حکومتِ پاکستان کو ایک فعال، ہمہ گیر، جامع اور مربوط قومی پالیسی اور واضح بیانیے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس یہ سمجھتی ہے کہ تنازع کشمیر کے ایک فریق اور وکیل کی حیثیت سے پاکستان کو ایک ہمہ گیر، بھرپور، جارحانہ بین الاقوامی سفارتی مہم کے ساتھ ساتھ بھارت کی عسکری و سیاسی قیادت کی طرف سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملے کی دھمکیوں کو سنجیدہ لیتے ہوئے ایک بھرپور دفاعی حکمت عملی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قومی کانفرنس اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ مودی حکومت اور اُس کے اقدامات، جو خطے اور دنیا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں، کا نوٹس لے اور تمام وسائل و اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے بھارت کو مجبور کرے کہ وہ مقبوضہ ریاست میں 5 اگست 2019ء اور اس کے بعد کیے جانے والے اقدامات کو فی الفور واپس لے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے رائے شماری کا اہتمام کرے اور اس سلسلے میں کمشنر رائے شماری کا تقرر کرے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ خصوصی نمائندہ مقرر کرے جو کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لے، نیز بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور ریلیف اداروں کی مقبوضہ ریاست میں رسائی ممکن بنائی جائے۔