پی ڈی ایم کی شرمناک سیاسی ناکامی

پی ڈی ایم کے تضادات اس سوال کو اہم بنا رہے ہیں کہ پی ڈی ایم میں اتنے اختلافات تھے تو اس نے عمران خان کے خلاف اتنے طمطراق سے مہم کیوں چلائی؟

پی ڈی ایم نے عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف ’’سیاسی جہاد‘‘ کا اعلان کیا تھا تو پی ڈی ایم کی قیادت کی حالت اس شعر کے مصداق تھی:۔

ہم بدلتے ہیں رُخ ہوائوں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

مگر پی ڈی ایم دو ڈھائی ماہ ہی میں ’’بوڑھی‘‘ ہوگئی ہے، اور اب اس کا حال اِس شعر جیسا ہے:۔

ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے

پی ڈی ایم کی تحریک کے آغاز کے وقت اس کی قیادت کی ’’انقلابیت‘‘ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ بلاول بھٹو عمران خان کو للکار رہے تھے، اسٹیبلشمنٹ پر حملے کررہے تھے۔ میاں نوازشریف نے صاف کہہ دیا تھا کہ ہماری لڑائی عمران خان سے ہے ہی نہیں، ہماری جنگ تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی’’سیاسی رستم‘‘ اور ’’سیاسی سہراب‘‘ کی طرح ’’سیاسی اکھاڑے‘‘ میں اترے ہوئے تھے۔ پی ڈی ایم اتنی پُراعتماد تھی کہ اس نے عمران خان کی رخصتی کا وقت بھی مقرر کردیا تھا۔ پہلے پی ڈی ایم کی قیادت نے کہا کہ عمران خان دسمبر تک چلے جائیں گے۔ پھر کہا کہ جنوری میں اُن کا کام تمام ہوجائے گا۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے یہ بھی فرمایا کہ پہلے جلسے ہوں گے، پھر استعفے ہوں گے، اور بالآخر لانگ مارچ ہوگا۔ مگر مسئلہ یہ ہوا ہے کہ عمران خان نہ دسمبر میں گئے، نہ جنوری میں گئے۔ پی ڈی ایم نے جلسے تو کیے مگر ابھی تک استعفے دیے اور نہ لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا۔ ان تمام دائروں میں پی ڈی ایم کی قیادت اپنے تھوکے کو چاٹ رہی ہے۔ وہ اسمبلیوں سے استعفے دینے کے بجائے ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، سینیٹ کے انتخابات کے لیے منصوبہ بندی کررہی ہے۔ رہی سہی کسر بلاول بھٹو اور پی ڈی ایم کے ’’مردِ آہن‘‘ مولانا فضل الرحمٰن کے شرمناک بیانات نے پوری کردی۔ بلاول بھٹو نے آصف علی زرداری کی زبان بولتے ہوئے صاف کہا کہ ان کی جماعت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ہٹانا چاہتی ہے۔ روزنامہ ’خبریں‘ کی ایک تفصیلی خبر کے مطابق نواز لیگ کے قائد میاں نوازشریف نے اِن ہائوس تبدیلی پر ذہنی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اِن ہائوس تبدیلی کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے سینیٹ اور ضمنی انتخابات کے سلسلے میں پیپلزپارٹی کی تجویز کو قبول کیا، چنانچہ اب آصف علی زرداری کو نواز لیگ کا یہ تجزیہ قبول کرنا ہوگا کہ موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل جنرل الیکشن ہیں۔ میاں نوازشریف نے اس سلسلے میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کا مطلب عمران خان کو مزید ڈھائی سال کا وقت دینا ہے۔ نوازشریف کے بقول طاقت ور قوتیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گزشتہ انتخابات کو درست قرار دلوانا چاہتی ہیں۔ نوازشریف کو اندیشہ ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو پی ڈی ایم کے وجود کا جواز ختم ہوجائے گا۔ اطلاعات کے مطابق پی ڈی ایم کی دس میں سے چھے جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے خلاف، اور چار اس کے حق میں ہیں۔ ایک خبر کے مطابق پیپلزپارٹی کا تجزیہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ملک کے اندر نئے انتخابات نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں وقت پر انتخابات نہیں ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ ملک میں کورونا کی وجہ سے انتخابی مہم چلانا ناممکن ہوگا۔ (روزنامہ خبریں، 25 جنوری 2021ء)۔
یہ تو وہ سوئی ہے جو پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے غبارے میں گھسائی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن کی ’’واردات‘‘ بھی کم اہم نہیں۔ ویسے تو مولانا فضل الرحمٰن عمران خان کے جانی دشمن ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ عمران خان کے بدنامِ زمانہ ’’یوٹرن‘‘ سے بہت متاثر ہیں۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے زبردست یوٹرن لے ڈالا ہے۔ پہلے مولانا فضل الرحمٰن فرما رہے تھے کہ ان کا لانگ مارچ اسلام آباد کے بجائے پنڈی بھی جا سکتا ہے، مگر اب انہوں نے فرمایا ہے کہ ہماری جنگ عمران خان سے ہے، اسٹیبلشمنٹ سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں، البتہ ہمیں اس سے شکوے شکایتیں ہیں۔ مولانا نے واضح کیا کہ شکوے ’’اپنوں‘‘ سے کیے جاتے ہیں، غیروں سے نہیں۔ مولانا کے ہولناک تضاد کے حوالے سے دو شعر یاد آگئے:.۔

شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
…٭٭٭…
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پہ ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے

ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کی سیاسی ناکامی شرمناک ہے۔ سیاسی اتحادوں میں دراڑیں دو چار برسوں میں پڑتی ہیں، مگر پی ڈی ایم ڈھائی تین ماہ ہی میں ہولناک تضادات کا شکار ہوگئی ہے۔ پی ڈی ایم کے تضادات اس سوال کو اہم بنا رہے ہیں کہ پی ڈی ایم میں اتنے اختلافات تھے تو اس نے عمران خان کے خلاف اتنے طمطراق سے مہم کیوں چلائی؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی تحریکوں کی پشت پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی ہوتا ہے۔ عام طور پر اسٹیبلشمنٹ اس سلسلے میں پسِ پردہ کردار ادا کرتی رہی ہے۔ البتہ وطنِ عزیز میں یہ بھی ہوا ہے کہ کسی مسئلے پر اسٹیبلشمنٹ داخلی تقسیم کا شکار ہوگئی۔ جنرل ایوب خان اسٹیبلشمنٹ کی داخلی تقسیم ہی کی نذر ہوئے۔ ایک سہانی شام جنرل یحییٰ چند سینئر فوجی اہلکاروں کے ساتھ جنرل ایوب کے ہاں پہنچے اور فرمایا: جنابِ صدر اب آپ کو جانا ہوگا۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی داخلی تقسیم ہی کا نتیجہ تھا، اسی لیے اس حادثے کی تحقیقات نہ ہوسکیں۔ جنرل پرویزمشرف کے خلاف وکلا کی تحریک کی پشت پر جنرل کیانی موجود تھے، اس کے بغیر یہ تحریک نہ چل سکتی تھی، نہ کامیاب ہوسکتی تھی۔ اس تناظر میں ایک خیال یہ ہے کہ میاں نوازشریف اور پی ڈی ایم کے دیگر قائدین کو اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود بعض عناصر نے متحرک کیا۔ میاں نوازشریف نے ایک جلسے میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا نام لے کر تنقید کی تو اس لیے کہ ان پر ’’داخلی دبائو‘‘ بڑھایا جا سکے۔ مگر بادی النظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ چنانچہ پی ڈی ایم کی قیادت کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکہ بھی پاکستان میں سیاسی تحریکوں پر اثرانداز رہا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ میاں نوازشریف امریکہ کی ’’گڈ بکس‘‘ میں ہیں۔ امریکہ انہیں فوج کے خلاف مؤثر ہتھیار تصورکرتا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے بھی پی ڈی ایم کی ایک حد سے زیادہ حمایت نہیںکی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں پاکستان کی مسلسل ضرورت ہے۔
یہ امر بھی عیاں ہے کہ پی ڈی ایم کو توقع تھی کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی بنیاد پر وہ عوام کی بڑی تعداد کو متحرک کرنے میں کامیاب رہے گی، مگر ایسا بھی نہ ہوسکا۔ پی ڈی ایم نے لاہور کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے سب سے زیادہ کوششیں کیں۔ اس لیے کہ لاہور پنجاب کا دل ہے، اور اس کی سیاسی فضا پورے پنجاب کو متاثر کرتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پی ڈی ایم کا جلسۂ لاہور بری طرح ناکام ہوا۔ عام خیال یہ تھا کہ نواز لیگ اپنی سیاسی طاقت کے مرکز میں ڈھائی تین لاکھ لوگ جمع کرنے میں کامیاب رہے گی۔ مگر لاہور کے جلسے میں بیس تیس ہزار سے زیادہ لوگ موجود نہ تھے۔ اس صورتِ حال نے بھی پی ڈی ایم کی قیادت کے حوصلوں کو پست کیا۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کی عدم اعتماد کی تحریک کا تعلق ہے تو یہ پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل کا مظہر نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سندھ تک محدود ہوگئی ہے، چنانچہ وہ سندھ حکومت کو ہر قیمت پر بچانا چاہتی ہے۔ آصف زرداری کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر پی ڈی ایم کی تحریک کے نتیجے میں نئے انتخابات ہوگئے تو بھی انہیں پنجاب میں کچھ ملنے والا نہیں۔ پنجاب نواز لیگ، تحریک انصاف اور Electables ہی کا پنجاب ہوگا اور پیپلزپارٹی کو سندھ میں اپنی کامیابی پر اکتفا کرنا ہوگا۔ چنانچہ پیپلزپارٹی عمران خان کو گرانے کے سلسلے میں اتنی بے تاب نظر نہیں آرہی جتنی بے تاب وہ پی ڈی ایم کی تحریک کے آغاز کے وقت تھی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق کے حوالے سے جو کچھ فرمایا ہے اس کے دو ہی معنی ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرلی ہے، یا پھر وہ اپنے خلاف نیب کی کارروائیوں سے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔ اس منظرنامے میں نوازشریف ’’تنہا‘‘ نہیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ بھی مختلف لوگوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ رابطے استوار کیے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد کے کلب میں جنرل باجوہ اور نواز لیگ کے رہنما محمد زبیر کی ’’اتفاقی ملاقات‘‘ ہرگز بھی ‘‘اتفاقی‘‘ نظر نہیں آتی۔ لیکن پی ڈی ایم کا مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔
پاکستان میں سب سے کامیاب سیاسی تحریک پی این اے کی تھی، اور اس تحریک کی کامیابی کی اصل وجہ یہ تھی کہ پی این اے کی قیادت نے پی این اے کی تحریک کو مذہبی رنگ میں رنگ کر اسے تحریک نظام مصطفیٰ بنا دیا تھا۔ چنانچہ عوام کی بڑی تعداد مذہبی جوش و جذبے سے اس تحریک میں شامل ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک ایک بڑے سیاسی اتحاد کی تحریک تھی، مگر اس تحریک کی کوئی ’’نظریاتی جہت‘‘ نہ تھی، چنانچہ یہ تحریک سکڑ سمٹ کر سندھ تک محدود ہوگئی، اور پیپلزپارٹی جنرل ضیاء الحق کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکی۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کے ’’توپچی‘‘ ہیں، مگر وہ پی ڈی ایم کی تحریک کو کوئی نظریاتی رنگ نہیں دے سکے۔
پاکستان کی سیاسی تحریکوں میں حکمرانوں کے خلاف ’’عوامی نفرت‘‘ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلاشبہ عمران خان کی حکومت نااہل ہے اور اس نے مہنگائی کا طوفان تخلیق کیا ہوا ہے، مگر اس کے باوجود بہرحال عوام میں عمران خان کے خلاف ناپسندیدگی تو ہے، نفرت نہیں ہے۔ ہوتی، تو لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ’’جلسی‘‘ کا منظر پیش نہ کررہا ہوتا۔ پی ڈی ایم کی شرمناک سیاسی ناکامی کے تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کی حکومت کے بارے میں یہی کہنا سب سے زیادہ درست ہے کہ عمران خان کی حکومت گرے گی تو اپنے ہی بوجھ سے گرے گی۔ عمران خان کا ایک “Advantage” بھی ہے۔ مثل مشہور ہے ’’خدا مہربان تو گدھا پہلوان‘‘۔ عمران خان کے حوالے سے جو مثل مشہور ہورہی ہے وہ یہ ہے ’’اسٹیبلشمنٹ مہربان تو عمران خان پہلوان‘‘۔
یہ سطور لکھی جا چکی تھیں کہ پی ڈی ایم نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ پی ڈی ایم کے اعلان کے مطابق پی ڈی ایم 26 مارچ کو لانگ مارچ کرے گی لیکن یہ مارچ ”دھرنا“ تخلیق کرے گا یا نہیں،یہ ابھی واضح نہیں۔ اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ 26 مارچ کے آنے میں ابھی بہت وقت ہے۔ اتنی مدت میں پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جاتا ہے بلکہ اکثر پل بھی بہہ جاتا ہے۔