یکجہتیِ کشمیرکے نام پر سیاسی دھما چوکڑی

۔5 فروری کو پی ڈی ایم نے مظفرآباد میں یکجہتی کے نام پر وہ دھماچوکڑی مچائی کہ خدا کی پناہ۔ مریم نوازکی پوری تقریر میں مودی کا نام چار بار، اور عمران خان کا نام دودرجن بار، اور ’’تم، تُو، اوئے‘‘ کے طرز ِتکلم کے ساتھ مزید ایک درجن بار لیا گیا۔ ’’کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ‘‘ کے انداز میں یکجہتی کے نام پر دو جہتی کے اس مظاہرے کا حکم میاں نوازشریف نے براہِ راست لندن سے دیا تھا، اور اس کا مقصد اسلام آباد کی سیاسی کھینچا تانی کا دائرہ مظفر آباد تک بڑھانا اور اس دن ٹیلی ویژن اسکرین کا محاذ عمران خان کے لیے خالی چھوڑنے کے بجائے توجہ بانٹنا تھا۔ میری اطلاع کے مطابق آزادکشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے جو خود منقسم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ اُن کا ننھیال سر ی نگر میں ہے، مولانا فضل الرحمان سے مل کر اس جلسے کو ملتوی کرنے کی کوشش کی تھی، اور دوسرے آپشن کے طور پر اُن سے کشمیر کے سوا کسی سیاسی موضوع کو نہ چھیڑنے کی استدعا کی تھی۔ وہ اسے یکجہتی کا خالص مظاہرہ رکھنا چاہتے تھے، مگر ووٹ کو عزت دینے کے خواہش مند مریم نواز اور مولانا نے فاروق حیدر کی خواہش کو عزت دینے کے بجائے اسے درخورِ اعتنا نہ جان کر اس دن اور اس میدان کو بھی عمران خان کی ذات پر تابڑ توڑ حملوں کے لیے استعمال کیا۔
مظفرآباد میں یکجہتی کے اس جلسے کے ساتھ ساتھ کوٹلی میں عمران خان بھی ایک بڑے جلسہ عام میں موجود تھے۔ مظفر آباد جلسے کے برعکس کوٹلی جلسے پر یکجہتی کا رنگ غالب تھا، مگر مظفرآباد جلسے کی تقریروں کے بعد جب عمران خان نے کوٹلی میں خطاب کیا تو اس خطاب پر مجموعی طور پر کشمیر اور مودی کا ذکر ہی غالب رہا، مگر تقریر کے آخر میں ’جواب آں غزل‘ کے طور پر انہوں نے ڈاکوئوں کو این آر او نہ دینے کا منترا پڑھا۔ اگر آخر میں وہ اس جملے سے گریز کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔
کشمیر بیچ دینے کی بات بھی اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ کشمیر پر قبضہ بھارت کا ہے اور اس میں نوازشریف کے تین اوربلاول بھٹو زرداری کی جماعت کے چار ادوار بھی شامل ہیں۔ انہی دس برس میں مولانا فضل الرحمان کی کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی شامل ہے۔ اس عرصے میں کشمیر کو چھڑانے کے بجائے زیادہ تر پیار، محبت اور تجارت کے فروغ پرہی کام ہوتا رہا۔ جب کشمیر میں ایک دن میں ساٹھ ستّر افراد شہید ہوتے رہے تب بھی مولانا کا ٹویٹر خاموش رہا۔ برہان وانی کی شہادت اور اس کے بعد کے واقعات نے پوری دنیا کو کشمیر کے حالات پر تڑپا کر رکھ دیا، مگر اس عرصے میں اگر کوئی شخصیت منظر پر نظر نہ آئی تو وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان تھے۔ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی غرض سے جبڑوں میں دبانے والا مودی بھی اچانک اسی دوران پاکستان آیا اور اس نے واجپائی اسٹائل میں ذاتی دوستی کرنے کی کوشش بھی کی۔ واجپائی سے مودی تک پاکستان کے ساتھ پیار محبت کی کہانی رقم کرنے کے خواہش مند ہر بھارتی حکمران کی کوشش یہ تھی کہ پاکستان کو دامِ محبت وتجارت میں پھنسا کر کشمیر کو بھول جانے پر آمادہ کیا جائے۔
اس کالم نگار نے اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت پاکستان، بھارت اور کشمیر مثلث کی تیس بتیس برس کی اس کہانی کے ہر لمحے اور ہر دن پر نظر رکھی ہے اور اسے رپورٹ بھی کیا ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں کشمیر پر لب کشائی نہ کریں تو اچھا ہو۔ ماضی کے برعکس آج پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا گراف تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا منافقانہ انداز کسی بھی سطح پر جاری نہیں۔ پاکستان کی فضائی حدود بھارتی جہازوں کے لیے، اور بھارت کی فضائی حدود پاکستانی طیاروں کے لیے بند ہیں۔ دہلی اور اسلام آباد کے ہائی کمیشن معمولی افسروں کے رحم وکرم پر ہیں، اور ہائی کمشنر واپس بلائے جاچکے ہیں۔ سفارتی عملہ کم کیا جا چکا ہے۔ امن کی آشا کے نام پر رنگین شاموں کی محفلوں اور ان محفلوں کے دوران بے خودی کے مظاہرے عنقا ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر بھارت پر تابڑ توڑ حملے کررہا ہے، اور بھارت پاکستان کا سفارتی قافیہ تنگ کرنے میں مصروف ہے۔ کنٹرول لائن کی فوجی پنجہ آزمائی سفارتی محاذ پر بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کی تاریخ میں تعلقات کے انقطاع کی ایسی مثال پہلے دکھائی نہیں دیتی۔ عمران خان مسلسل کشمیر پر اپنا مؤقف بیان کررہے ہیں۔ انہوں نے مودی کو مغرب میں ہٹلر جیسے ناپسندیدہ کردار کے ساتھ کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس ماحول میں ایک مخصوص ذہنیت بھارت کے اس فیصلے کو اسلام آباد اور دہلی کا ’’فکسڈ میچ‘‘ قرار دے کر تصورات کے گھوڑے دوڑا رہی ہے۔ یہ کشمیریوں کی ہمدردی میں نہیں کیا جا رہا، بلکہ موجودہ حکومت کے خلاف نمبر اسکورنگ کی خاطر اور سیاسی فائدے کی غرض سے کیا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ بات سیدعلی گیلانی اوریاسین ملک جیسے اُن قائدین کی طرف سے نہیں کہی جا رہی جو تحریکِ مزاحمت کی برسہا برس سے علامت ہیں اور اِس وقت بھی عدیم النظیر قربانیاں دے رہے ہیں۔ حد تو یہ کہ یہ الزام محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ کی طرف سے بھی نہیں دہرایا جارہا۔
کشمیری اپنی تحریک کی پشت پر پاکستان کی اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ فلسطین کی تحریک میں مصر اور اردن کی اہمیت کیا تھی؟ اور مصر اور اردن کے بتدریج نیوٹرلائز اور لاتعلق ہوجانے کے فلسطین کی تحریک پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ یہ الزام پاکستان اور آزادکشمیر کے عافیت کدوں میں بیٹھے ہوئے لوگ عائد کررہے ہیں جن کا کشمیر سے فقط تفریح ِطبع کا تعلق ہے۔ اس الزام میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے دور میں پاکستان نے سری نگر پر بھارتی عمل داری کو قانونی اور تحریری سندِ جواز عطا کرنے کی طرف پیش قدمی کی، اور اسی حماقت کی راہ میں اپنا اقتدار گنوا دیا۔ وہ بھارت کے ساتھ تجارت کے جنون اور امن کے نوبیل انعام کے تعاقب میں انورالسادات اور شاہ حسین کے راستے پر کیمپ ڈیوڈ طرز کا سمجھوتا کرنے کی طرف بڑھتے رہے، اور اس کا نام انہوں نے اپنے تصور میں مسئلہ کشمیر کا حل رکھا تھا۔ یہ کشمیر کا نام لینے سے کتراتے تھے۔ نواب زادہ نصراللہ خان جیسی قدآور شخصیت کی کرسی پر یہی ذہنیت چودھری سرور کو براجمان کرتی رہی۔
فکسڈ میچ کی باتیں سیاسی محفلوں کا رنگ جمانے اور سیمیناروں میں واہ واہ اور سوشل میڈیا پر داد سمیٹنے کی حد تو ٹھیک ہیں، مگر یہ کشمیریوں کو حالات اور پاکستان سے مایوس کرنے کی منظم کوشش ہے۔ انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش ہے کہ کشمیری عوام پانچ اگست کے بھارتی فیصلے کو مقدر کا فیصلہ جان کر قبول کرلیں۔ یہ کشمیریوں کے لیے سیدھا پیغام ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ سمجھوتا کرلیا ہے اور اب وہ مزاحمت ترک کرکے دہلی کا اقتدار قبول کریں اور ترنگا تھام لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پانچ اگست سے پہلے بھی بھارت کے قبضے میں تھا اور بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا تھا، اور انچوں اور گزوں میں کشمیر کی شناخت کو چھینتا جا رہا تھا۔ جنرل پرویزمشرف اور نوازشریف کے فارمولوں میں بھارت نے کشمیر پر اپنی گرفت کم کرنے کی کوئی یقین دہانی کرائی نہ ایسا کوئی اشارہ دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ دونوں کوششیں ناکام نہ ہوتیں۔ بھارت صرف پاکستان کو نیوٹرلائز کرنے کی کوشش کرتا رہا، اور ایک مرحلے پر بھارت کو بدلنے کے بجائے پاکستان کی ان دونوں حکومتوں نے خود ہی بدل جانے کا کمزور فیصلہ کیا، اور یہی فیصلہ انہیں لے ڈوبا۔ پانچ اگست کے بعدکشمیر پر بھارت کا قبضہ سخت ہوگیا ہے اور پہلے سے کمزور قانونی بیریئر ختم ہوگئے ہیں، 74 برس سے طاقت کا یہ کھیل اسی انداز اور ہلکی رفتار سے جاری ہے۔