احتساب کا نظام کیسے شفاف بنایا جاسکے گا؟
پاکستان کا ایک بنیادی مسئلہ ادارہ سازی کے لیے سازگار ماحول، پالیسی، قانون سازی اور سیاسی سمجھوتے کی عدم موجودگی ہے۔ کیونکہ ہم مجموعی طور پر اداروں کی مضبوطی یا قانون کی حکمرانی کے مقابلے میں افراد یا بعض طاقت ور گروہوں کی حکمرانی کے نظام کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں مختلف معاملات پر تجزیہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ ہم اداروں کو کمزور رکھ کر جو نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ سوائے ناکامی کے کچھ نہیں دے سکتے۔ جمہوریت اور سیاست کی کامیابی براہِ راست اصلاحات پر مبنی ایجنڈے سے جڑی ہوتی ہے، لیکن ہم اول تو اصلاحات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اور اگرکسی دبائو یا مصلحت کے تحت اصلاحاتی ایجنڈا اختیار بھی کرنا پڑے تو ہماری پالیسی، قانون سازی اور عمل درآمد کا نظام مصنوعی ہوتا ہے۔
احتساب بھی ہماری قومی سیاست کا بنیادی نکتہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی سیاسی فکر اسی احتساب اور شفاف نظام کے گرد گھومتی ہے، مگر موجودہ حکومت کے دور میں احتساب کی سیاسی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں سیاسی کمٹمنٹ کی کمزوری ہے، وہاں ادارہ سازی کا کمزور ہونا بھی اہم نکتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیب کو مجموعی طور پر قومی سطح پر سیاسی، انتظامی، قانونی یا کاروباری طبقے کی جانب سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس کی ساکھ پر سوالات اٹھاکر اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس میں جہاں کچھ قانونی یا سیاسی نکات ہوتے ہیں، وہاں شعوری طور پر اس ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانا بھی اس کے مخالفین کی سیاست کا اہم نکتہ ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر نیب کے قوانین یا اس کے طرزعمل میں خامیاں ہیں یا اس پر سیاسی ایجنڈا غالب ہے تو اقتدار میں شامل جماعتیں نیب کے قوانین کو بنیاد بناکر ان میں ترمیم، اصلاحات یا اسے درست کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں؟ اور کیوں اداروں کو کمزور رکھ کر انہیں اپنے ذاتی، خاندانی یا کاروباری ایجنڈے کے ساتھ چلایا جاتا ہے؟، نیب کے بہت سے معاملات پر ضرور تنقید ہونی چاہیے، لیکن اصل مسئلہ نیب کی خودمختاری ہے۔ یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اقتدار میں شامل حکمران اور طاقت ور طبقہ احتساب کے لیے خود کو پیش نہیں کرتا۔
ہم نیب پر تنقید تو بہت کرتے ہیں لیکن اُس کے اچھے کاموں کی بھی اتنی ہی پذیرائی ہونی چاہیے۔ ہمیں اداروں پر تنقید اور تضحیک کے پہلو کو بھی سمجھنا چاہیے تاکہ ادارہ سازی کا عمل کمزور نہ ہو، بلکہ اسے مضبوط بنانا ہی ہماری ترجیحات کا حصہ بن سکے۔ کیونکہ ایک طاقت ور طبقہ جو ہر شعبے میں موجود ہے، وہ احتساب کے مضبوط نظام کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ طاقت ور عناصر کے باہمی گٹھ جوڑ… جس میں بہت سے فریق حصے دار ہوتے ہیں… کی کامیابی ہی اداروں پر عملاً تنقید اور انہیں متنازع بناکر ان کی ساکھ کو خراب کرنا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیب سمیت بہت سے اداروں کو ایک بڑی سیاسی مہم جوئی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان اداروں کی عوامی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے۔
حالیہ دنوں میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2020ء کی جو رپورٹ جاری ہوئی ہے اس میں نیب کی پچھلے دو سال کی کارکردگی کی تعریف کی گئی ہے ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیب نے پچھلے دو سال میں ماضی کے مقابلے میں ریکارڈ مالیاتی ریکوری کی ہے۔ مثال کے طور پر نیب کے اعداد و شمار کے مطابق 1999ء سے 2016ء تک سترہ برسوں میں کُل41.7 بلین روپے وصول کیے گئے، جس میں 17.7بلین ڈائریکٹ اور 23 بلین کی خطیر رقم اِن ڈائریکٹ طریقے سے حاصل کی گئی۔ جبکہ 2017ء سے جنوری 2021ء تک یعنی ساڑھے تین برسوں میں کُل 75 بلین روپے وصول ہوئے جس میں 14.4 بلین براہ راست، جبکہ 60.66 بلین اِن ڈائریکٹ طریقے سے وصول کیے گئے۔ اسی طرح بہت سی ہائوسنگ سوسائٹیوں سمیت مختلف امور میں لوگوں سے جو بڑی ڈکیتی کی گئی، نیب کی جانب سے ان متاثرین کی رقوم کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ نیب کے مطابق 1999ء سے 2016ء تک 1.76بلین روپے وصول کرکے 8,500 متاثرین کو واپس کیے گئے۔ جبکہ 2017ء سے جنوری 2021ء تک محض ساڑھے تین برس میں 5.6 بلین روپے وصول کرکے 58,790 متاثرین کو واپس کیے گئے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا، اور جس انداز سے متاثرین کی مدد کی گئی وہ واقعی قابل تعریف ہے۔
جہاں تک نیب کے مقدمات میں تاخیر کی بات ہے تو اوّل تو وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا کوئی معمولی کام نہیں، اور نہ ہی یہ کام کسی جادو کی چھڑی سے ہوسکتا ہے۔ نیب کا کام مقدمے کی تفتیش کرنا، مقدمہ بنانا اور مقدمے کو عدالت میں پیش کرکے اسے ثابت کرنا ہوتا ہے۔ فیصلہ بنیادی طور پر نیب نہیں بلکہ عدالت کو کرنا ہوتا ہے جو شواہد کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں 1200مقدمات ہیں اور اس کے لیے نیب کی محض 25 عدالتیں ہیں۔ تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ملزمان کے وکیل جان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کرتے ہیں۔ عمومی طور پر بیوروکریٹ، کاروباری افراد یا دیگر طبقے نیب کے مقدمات میں پلی بارگیننگ کا اصول اپناکر ’کچھ لو اورکچھ دو‘ کی بنیاد پر معاملہ حل کرلیتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس سیاست دان یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان پر جو مقدمات ہیں وہ محض سیاسی انتقام کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں، وگرنہ وہ اور ان کا کاروبار دونوں شفاف ہیں۔ اس لیے ان مقدمات میں تاخیر سیاست دانوں کے مفاد میں ہوتی ہے، اور جو عدالتی تاخیر ہوتی ہے اس کا بھی سارا نزلہ نیب پر ہی گرتا ہے۔
مسئلے کا حل نیب کا خاتمہ نہیں، بلکہ اسے مستحکم، خودمختار، شفاف اور مضبوط بنانا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں چار بنیادی نوعیت کے کام کرنے ہوں گے:
(1) نیب کو اتنے وسائل فراہم کرنا ہوں گے کہ وہ خود اپنے لیے اعلیٰ اور قابل پراسیکیوٹرکا انتخاب کرسکے، جو مخالف کے بڑے وکلا کا جان دار انداز میں قانونی سطح پر مقابلہ کرسکے۔
(2) نیب کے پاس یہ وسائل بھی ہونے چاہئیں کہ وہ جز وقتی ماہرین یا فیکلٹی کے بجائے اپنے ادارے کے لیے ماہرین یا فیکلٹی کا مستقل چنائو کرسکے۔
(3) نیب کے پاس مطلوبہ تعداد میں عدالتیں ہونی چاہئیں جو موجودہ صورت حال میں کم از کم 150کے قریب بنتی ہیں، اور حکومتی دعووں کے باوجود اس پر کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
(4) نیب کے افسران کی باہر کے مختلف ممالک یا ماہرین سے باقاعدہ تربیت کا نظام موجود ہونا چاہیے، تاکہ یہ لوگ دنیا میں وائٹ کالر کرائم کو جدید بنیادوں پر پکڑنے میں مہارت حاصل کرسکیں۔
اس لیے ضرورت محض نیب کو ختم کرنے کی نہیں بلکہ اس ادارے کو مضبوط، خودمختار، شفاف بنانے، وسائل فراہم کرنے اور سیاسی مداخلتوں سے پاک کرنے کی ہے ۔