یوم یکجہتیِ کشمیر کی مناسبت سے وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی میں جلسے سے خطاب کیا اور کہا کہ’’مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے لوگ جب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریفرنڈم میں اپنے مستقبل کا پاکستان کے حق میں فیصلہ کریں گے تو اس کے بعد پاکستان کشمیر کے لوگوں کو حق دے گا کہ آپ آزاد رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں‘‘۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ غیر معمولی اعلان توجہ چاہتا ہے، اس اعلان پر پارلیمنٹ کو حکومت سے جواب طلب کرنا چاہیے، اور پارلیمنٹ کو اس پر اپنا فیصلہ بھی دینا چاہیے کہ وزیراعظم کا یہ بیان کشمیر پر پاکستانی قوم کے سات عشروں کے متفقہ مؤقف سے انحراف ہے یا نہیں؟ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اگرچہ وضاحت کی کہ جموں و کشمیر کے تنازع پر پاکستان کے اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، پاکستان سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادانہ اور غیر جانب دارانہ استصوابِ رائے کے ذریعے جموں و کشمیر تنازع کے حل کے لیے پُرعزم ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی یہ وضاحت وزیراعظم کے خطاب کے ان الفاظ کے عین مطابق ہے کہ ’’آج میرے یہاں آنے کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ دنیا نے کشمیر کے لوگوں سے 1948ء میں ایک وعدہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنا تھا۔ آج میں سب سے پہلے دنیا کو یاد کرانا چاہتا ہوں کہ جو حق دیا گیا تھا کشمیر کے لوگوں کو، وہ انہیں نہیں مل سکا۔ جبکہ اسی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے مشرقی تیمور کو (جو عیسائیوں کا علاقہ ہے) وہ حق دیا اور وہاں ریفرنڈم کروا کر ان کو مسلمان ملک انڈونیشیا سے آزاد کرالیا گیا۔ میں اقوام متحدہ کو یاد کرانا چاہتا ہوں کہ کشمیر میں آپ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا‘‘ وزیراعظم کا یہ کہنا تاریخی حقائق کی روشنی میں درست ہے، تاہم اپنے خطاب میں وزیراعظم نے جس طرح کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ کشمیریوں کی طرف سے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ ہوجانے کے بعد بھی پاکستان انہیں خودمختار ریاست کی حیثیت اختیار کرنے کا موقع دینے کو تیار ہے، یہ ان کی طرف سے ایک ایسی چھلانگ لگا دی ہے،جو اس سے پہلے کسی وزیراعظم یا بڑے سیاسی رہنما کو لگانے کی ہمت یا جرأت نہیں ہوئی۔ کاش انہیں کوئی بتاتا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ تھرڈ آپشن کا اس میں ذکرہے نہ ہی برصغیر کی تقسیم کے منصوبے میں اس کا ذکر تھا، جس کی بنیاد پر بھارت اور پاکستان دو آزاد ریاستوں کی صورت میں وجود میں آئے۔ وزیراعظم کے اس بیان کے بعد جنرل حمیدگل بہت یاد آرہے ہیں، اُن سے ذاتی طور پر بہت نیاز مندی تھی، جب بھی ان سے ملاقات ہوتی وہ ایک بات ضرور کہتے کہ عمران خان سے ان کی کشمیر پالیسی تو معلوم کریں۔ بہرحال وزیراعظم نے جو کچھ بھی کہا، اب پارلیمنٹ ہی اپنا فیصلہ دے کہ اس اعلان کا کوئی جواز ہے؟ اس خطے میں بھارت کی ریشہ دوانیوں کی ایک طویل داستان اور افغانستان میں امریکہ کی نئی انتظامیہ کی ترجیحات سامنے آجانے پر وزیراعظم کی سطح پر ایسی بات غیر معمولی تبدیلی ہے؟ قومی سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی اب قومی اور ملّی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریکارڈ درست کرنے کے لیے اس مؤقف پر اپنا ردعمل دیں۔ اب پی ڈی ایم اگر اس مسئلے پر بات کرے گی تو اسے اہمیت مل سکتی ہے، ورنہ خاموشی کو رضامندی سمجھا جائے گا، اور یہی تقاضا دیگر قومی سیاسی جماعتوں سے بھی ہے۔ اگر کوٹلی میں کی گئی وزیراعظم کی اس بات پر خاموشی اختیار کی گئی تو پھر سب اس حمام میں ننگے نظر آئیں گے۔ جہاں تک ملک کے حالیہ سیاسی منظرنامے کا تعلق ہے، حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے پی ڈی ایم اور پی ڈی ایم سے باہر کی سیاسی قوتوں کی طرف سے ایک کمزور، بے سمت اور بے ہمت اپوزیشن ملی ہوئی ہے۔ یہ اپوزیشن لانگ مارچ کرے، براڈ شیٹ کمیشن کی مخالفت کرے یا متحد ہوکر سینیٹ انتخابات میں حصہ لے، یہ سب کچھ دکھاوے اور فیس سیونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تجزیہ کار حلقوں کی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں نے پی ڈی ایم کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کیے اور اپنی باری کے انتظار میں سمجھوتا کرلیا ہے، اب مستقبل میں پی ڈی ایم جابر سلطان سے پوچھ کر کلمۂ حق بلند کرے گی، اسی لیے حکومت مخالف تحریک میں حکمت عملی بھی تبدیل ہوگی۔ لانگ مارچ اور استعفوں سمیت جو بھی ہوگا، محض دکھاوے کے لیے ہوگا۔ اب پی ڈی ایم اپنی اس حکمت عملی میں کس قدر کامیاب ہوئی اس کا تجزیہ ہونا چاہیے۔ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ہمیں مستقبل میں حکومت اور اپوزیشن کے رویّے کا بھی جائزہ لینا ہوگا، فی الحال تو اپوزیشن اپنے فیصلے کے مطابق ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ عمران خان اگرچہ چار ووٹوں کی برتری کے ساتھ وزیراعظم بنے ہیں مگر ان کے مقابل اپوزیشن یکسو نہیں ہے، لہٰذا عدم اعتماد کی تحریک کا کسی بااثر سیاسی سرپرستی کے بغیر کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی سب سے بڑا سوال ہے کہ پی ڈی ایم کسی بااثر سرپرستی کی چھتری تلے کھڑی ہوگی؟ اور دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ ملک میں ایسا کیا ہوگیا ہے کہ بااثر قوت، پی ڈی ایم کو اپنی حمایت فراہم کرے؟ البتہ پی ڈی ایم کی حالیہ سیاسی جدوجہد کے باعث ایک کام یہ ضرور ہوا ہے کہ حکومت دیوار کے ساتھ تو نہیں لگی تاہم دبائو میں آئی ہے اور سیاسی سطح پر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے، اور اسے اہم فیصلوں کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت اور مشاورت کرنا پڑے گی۔ حکومت اور اپوزیشن کی پہلی مشاورت نیب چیئرمین کی تقرری کے لیے ہونی ہے۔ سابق چیئرمین نیب امداد حسین شاہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے مابین باضابطہ مشاورت ضروری ہے جن کا عہدہ اس سال اکتوبر میں خالی ہورہا ہے اور ان کی مدت میں آٹھ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سمیت ابھی تک تو بہت سے ایسے معاملات ہوئے ہیں جن میں وزیراعظم نے قائد حزب اختلاف کے ساتھ براہِ راست مشاورت نہیں کی، بلکہ یہ کام بالواسطہ طور پر اسپیکر اور وزراء کی سطح پر ہوا ہے۔
حکومت اور حزب اختلاف کے رویوں نے پارلیمنٹ کو غیر اہم کردیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اپوزیشن کا رویہ پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کررہا ہے۔ اپوزیشن کو بے نقاب کرنے کے لیے آئینی ترمیم لے کر آئے ہیں۔
راجا پرویز اشرف نے کہاکہ 26ویں ترمیم ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اس پر دونوں ایوانوں کی کمیٹی بنا کر اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس غیر اعلانیہ ڈائیلاگ کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شدید ہنگامہ آرائی، گالم گلوچ، ہلڑ بازی، دھکم پیل، نعرے بازی اور چور، چور کے شور کے دوران آئینی ترمیم کا معاملہ پس منظر میں چلا گیا، کیونکہ اجلاس اب غیر معینہ مدت تک ملتوی ہوچکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اب حکومت صدارتی آرڈیننس لے آئے۔ یہ سب کچھ طے شدہ تھا، چنانچہ سارے ہلّے گُلے میں آئینی ترمیم کا بِل غائب ہو گیا، اور کشمیر کے لیے یک جہتی کی قرارداد بھی پاس نہ کرائی جاسکی۔ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ہی ایسا فورم ہے جہاں ملک و قوم کو درپیش مسائل پر کھل کر بحث ہوتی ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیدہ دانستہ ایوان کو ہنگامے کی طرف لے جایا گیا۔ یہی اس اجلاس کا مطلوب و مقصود تھا جو حاصل ہو گیا۔ سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ انتخاب کیس کی سماعت ابھی جاری ہے، چاروں صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں اپنے جواب داخل کراچکے ہیں۔