مسلسل تعاقب کے بغیر جعل سازی کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوسکتا
بلوچستان کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں میں سے ایک بڑی زیادتی و تجاوز وفاقی ملازمتوں میں صوبے کے 6 فیصد کوٹے پر دوسرے صوبوں کے افراد کی بھرتی ہے۔ یہ افراد دراصل جعلی اور غیر قانونی طریقے سے صوبے کے مختلف اضلاع کے رہائشی، مقامی اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرکے بھرتی ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے کوٹے پر لگ بھگ 20 ہزار افراد وفاقی محکموں میں ملازمت کررہے ہیں۔ ان اسناد کی بنیاد پر ایک بڑی تعداد دفاع، داخلہ، خزانہ، صحت، سائنس اور مواصلات کی وزارتوں اور دوسرے محکموں سمیت واپڈا، کیسکو، پاکستان ریلویز، نیشنل بینک، موٹروے پولیس جیسے اداروں میں ملازمت کرنے والے افراد کی ہے۔ یہ مسئلہ صوبے کی قوم پرست جماعتوں کے ایجنڈے پر برسوں سے شامل رہا ہے۔ دوسری سیاسی و مذہبی جماعتوں نے صوبے کے نوجوانوں کے حق پر پڑنے والے اس ڈاکے کو کبھی اپنی پالیسیوں کا حصہ نہیں بنایا۔ بلوچستان عوامی پارٹی جیسی بادشاہ گر جماعت اسے مسئلہ ہی نہیں سمجھتی، شاید اس لیے کہ دوسرے صوبوں بالخصوص پنجاب اور وفاق کی مضبوط بیوروکریسی، طاقتور سیاسی کلاس، یا افواج کے اندر صوبے کے اس کوٹے پر اُس کی نظر ہے، بلکہ خود اس کے رہنما اور ان کی اولادیں ان اداروں میں برسرِ روزگار ہیں۔ جعلی ڈومیسائل کے اجراء میں دوسرے صوبوں سے ٹرانسفر ہوکر تعینات ہونے والے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایگزیکٹو افسران اور اعلیٰ سول افسران کا بڑا کردار ہے، جو یہاں اپنے اختیارات اور اثر رسوخ کے تحت اپنے بچوں، رشتے داروں اور احباب کو ماورائے قانون ڈومیسائل بناکر دے دیتے ہیں ۔ یہی لوگ بعد میں میڈیکل اور انجینئرنگ سمیت یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں مختص نشستیں یا اسکالرشپس حاصل کرکے دنیا کے دیگر ممالک کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی اس اہم مسئلے کو بلوچستان اسمبلی، قومی اسمبلی اور ایوانِ بالا میں بھی اٹھاتی رہی ہیں۔ عدالتِ عالیہ بلوچستان بھی اسٹینڈ لے چکی ہے۔ 2017ء میں نیشنل پارٹی نے یہ معاملہ سینیٹ میں اٹھایا تھا، جہاں قرارداد بھی منظور کرائی گئی کہ بلوچستان سے جاری کیے گئے تمام ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹس کی تصدیق ہو۔ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد نے بلوچستان حکومت کو بذریعہ مراسلہ وفاقی ملازمین کے کوائف کی تصدیق کی ہدایت کی تھی۔ المیہ تو یہ ہے کہ بلوچستان سے چند پارلیمنٹیرینز نے بھی جعل سازی سے لوکل سرٹیفکیٹ حاصل کررکھے ہیں۔ پارلیمنٹ، ایوانِ بالا اور عدالتِ عالیہ کے احکامات کے بعد بھی عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔ بلوچستان حکومت بھی دلچسپی نہیں لے رہی۔ گورنر سیکرٹریٹ کی طرف سے مارچ2019ء میں، جبکہ بعد میں بلوچستان کے محکمہ داخلہ کی جانب سے صوبے کے تمام ڈویژن کے کمشنرز اور تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو وفاق میں بلوچستان کے کوٹے پر ملازمت کرنے والے تقریباً بیس ہزار ملازمین کی فہرستیں بھجوائی گئی تھیں کہ ان ملازمین کے مستقل رہائشی سرٹیفکیٹس یعنی لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی جائے۔ دو سال سے جاری جانچ پڑتال کے بعد بلوچستان کے سات میں سے چار ڈویژن نصیرآباد، سبی، قلات اور رخشان کے کمشنروں کی جانب سے عدالت میں رپورٹس جمع کرائی گئیں۔ ان رپورٹس میں بتایاگیا ہے کہ چار ڈویژن کے بیس اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے 5534 ملازمین کے لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی جانچ پڑتال کی، جن میں سے تقریباً نصف یعنی 2745 ملازمین کی رہائشی اسناد کی تصدیق نہ ہوسکی۔ کچھ ملازمین کے کوائف اضلاع کی ہونے والی تقسیم کے بعد مزید تصدیق کے لیے نئے اضلاع کی انتظامیہ کو بھیجے گئے۔ یہ 2745ملازمین بار بار کے نوٹسز کے باوجود کمیٹیوں کے سامنے پیش نہ ہوئے، یعنی جانچ پڑتال کے دوران ان کے سرٹیفکیٹ جعلی یا غیر مصدقہ قرار پائے۔ دستاویزات کے مطابق سبی میں533 ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹس غیر تصدیق شدہ نکلے ہیں۔ ضلع نصیرآباد میں 452، جعفرآباد میں340، ضلع کچھی میں 325، قلات 294، خضدار 173، مستونگ 142اور زیارت میں99 لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ غیر تصدیق شدہ پائے گئے ہیں۔ کوئٹہ، مکران اور ژوب ڈویژن کے کمشنروں کی طرف سے عدالت میں ہنوز رپورٹس جمع نہیں کرائی گئیں۔ جعلی اسناد کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور قانون دان ساجد ترین ایڈووکیٹ نے درخواست جمع کرائی ہے۔ ساجد ترین ایڈووکیٹ کے مطابق کئی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر رپورٹ جمع کرانے سے پہلوتہی کررہے ہیں۔ اس روش پر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس حمید بلوچ پر مشتمل بینچ نے محکمہ داخلہ کو اگلی سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ یہ بہت اہم معاملہ ہے جس پر صوبے کی تمام جماعتوں پر مشتمل ایک نمائندہ کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے، جو اس صریح حق تلفی اور ڈاکا زنی کے خلاف عدالتوں میں جائے۔ کیوں کہ بغیر مسلسل تعاقب کے جعل سازی کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوسکتا۔ اور جن افراد نے صوبے کے کوٹے پر ملازمتیں لی ہیں یا ملک و بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے ہیں ان پر گرفت ہو۔ انہیں تعلیمی اداروں سے بے دخل اور ملازمتوں سے نکالنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ وقتاً فوقتاً اس معاملے پر احتجاج ہوں تاکہ صوبے کے ہر ضلع کے عوام بالخصوص نوجوان ان وارداتوں سے باخبر رہیں۔ جہاں جہاں ان کی ملازمت یا کسی تعلیمی ادارے میں اسکالرشپ ہو، خوب چھان بین کی جائے کہ آیا کسی دوسرے صوبے کے افراد نے جعلی اسناد کے ذریعے اپلائی تو نہیں کررکھا ہے۔ بلوچستان حکومت اگر دلچسپی نہیں لیتی تو یہ ان کا حق ہے کہ صوبائی حکومت کی روش کے خلاف عدالت سے رجوع کریں۔ وفاق کی ملازمتوں کے علاوہ بلوچستان کے اندر بھی صوبائی محکموں میں ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں میں ایسی جعل سازی ہوئی ہے۔ یہاں بھی چھان بین کی ضرورت ہے۔