لاہور میں جماعت اسلامی کا یکجہتی کشمیر مارچ
حکمرانوں نے کشمیر پر کمزوری دکھائی تو عوام کے ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچیں گے
ملک بھر میں جمعۃ المبارک پانچ فروری کو ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ منایا گیا۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان مرحوم قاضی حسین احمد نے 31 برس قبل جس صالح روایت کا آغاز کیا تھا، آج یہ پوری قوم کی آواز بن چکی ہے۔ اس روز تمام پاکستانی ہر قسم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے کشمیری بھائیوں کے حقِ خودارادیت کی خاطر ہم آواز اور متحد ہوکر اظہارِ یکجہتی کے لیے میدان میں نکلتے ہیں۔ چنانچہ شہر شہر اور بستی بستی جلسے، جلوسوں، مذاکروں، مباحثوں، ریلیوں اور ہاتھوں میں ہاتھ دے کر یکجہتی زنجیر بنانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ زندہ دلانِ لاہور بھی اس موقع پر اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کرتے ہیں۔ خاص طور پر جماعت اسلامی اپنے کشمیری بھائیوں پر بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف زوردار صدائے احتجاج بلند کرنے کا اہتمام کرتی ہے، چنانچہ اِس پانچ فروری پر بھی شاہراہِ قائداعظم کے اسٹیٹ بینک چوک سے اسمبلی ہال تک ’’کشمیر مارچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا، جس میں ہزاروں مرد و خواتین کے علاوہ بچوں کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مارچ کی قیادت امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق، صوبائی امیر محمد جاوید قصوری، لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد اور ناظم امورِ خارجہ آصف لقمان قاضی کررہے تھے۔ مارچ کے شرکاء ایک جنگلہ بھی اٹھائے ہوئے تھے جس میں معصوم بچے بند تھے جو مقبوضہ کشمیر میں مصائب و مسائل سے دوچار کشمیری بچوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے ساتھ دنیا کو بھارتی فوج کے مظالم کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ایک علامت کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔
مارچ کے شرکاء نعرے لگاتے، کلمے والا پرچم لہراتے فیصل چوک اسمبلی ہال پہنچے تو مارچ جلسے کی شکل اختیار کرگیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے حکومت اور مسلح افواج سے مطالبہ کیا کہ اہلِ کشمیر کو بھارتی فوج کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ کشمیر کی آزادی کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کیے جائیں، صرف مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے حکومت ایک نائب وزیر خارجہ کا تقرر کرے۔ امیر جماعت اسلامی نے پیشکش کی کہ حکومت سے اختلافات اپنی جگہ، مگر حکومت کشمیر کی آزادی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنائے ہم بھرپور ساتھ دیں گے، لیکن اگر حکمرانوں نے بزدلی دکھائی اور کشمیر کاز سے پیچھے ہٹے تو عوام کے ہاتھ ایسی حکومت کے گریبان تک پہنچیں گے۔
3 فروری کو جماعت اسلامی کے زیراہتمام اسلام آباد کشمیر کانفرنس میں اسپیکر قومی اسمبلی نے وعدہ کیا کہ کانفرنس میں منظور ہونے والی قرارداد من و عن قومی اسمبلی سے منظور کرائیں گے، لیکن قومی اسمبلی میں یہ قرارداد منظور کرانے کے بجائے اجلاس کو لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ کی نذر کردیا گیا۔ تمام ارکانِ قومی اسمبلی سے مطالبہ ہے کہ اجلاس میں جس طرح مائوں، بہنوں کی گالیاں دی گئیں اور تہذیب کا مذاق اڑایا گیا، اس پر پوری قوم سے معافی مانگیں۔ عمران خان نے کشمیر کا سفیر بننے کا اعلان کیا اور پھر یہ فتویٰ دے دیا کہ جو بھی پاکستانی لائن آف کنٹرول کی طرف جائے گا وہ غدار ہوگا۔ گزشتہ 73 سال سے حکمران جنرل گریسی کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بناتے وقت گلگت بلتستان کے عوام، آزاد کشمیر اسمبلی اور حریت رہنمائوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، اور اگر حکمران یہ چاہتے ہیں کہ سری نگر تمہارا اور مظفر آباد ہمارا، تو اس ایجنڈے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کو صرف جماعت اسلامی ہی آزاد کروا سکتی ہے، عوام جماعت اسلامی کے کلمے والے جھنڈے کو اپنے گھر، دکان اور دل میں جگہ دیں۔ وزیراعظم کو فیصلہ کرنا ہے کہ ان کا نام ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کے ساتھ آئے، یا وہ میر صادق اور میر جعفر کی صف میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے حل نہیں ہوگا، اس کے لیے جہاد ضروری ہے۔ ماضی میں پاکستان میں کشمیر کی آزادی کے لیے بہت اعلانات کیے جاتے رہے، بھٹو نے کہا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے، لیاقت علی خان نے کشمیر کو پاکستان کے سر کا تاج قرار دیا، جب کہ مولانا مودودیؒ نے اسے پاکستان کا جسم قرار دیا، لیکن بدقسمتی سے 73 سال سے ہم کشمیر کو آزاد نہیں کرا سکے۔
امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا کہ 5فروری یوم یکجہتیِ کشمیر صرف ایک دن نہیں بلکہ یہ 80 لاکھ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کے اعتراف کا بھی دن ہے۔ اس دن ہمیں پاکستان کی بقاء کی خاطر جنگ لڑنے والوں کو سلام پیش کرنا چاہیے، جو پاکستان کی شہ رگ کی حفاظت کے لیے قربان ہورہے ہیں۔ قوم جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد ؒ کو بھی خراج عقیدت پیش کرتی ہے جنھوں نے حکومتِ پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کے اعتراف کے لیے 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے نام سے منسوب کرے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے، وہ وقت دور نہیں جب ہندوستان ٹکڑوں میں تقسیم ہوگا اور کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ ہندوستان نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کردی ہے، گزشتہ 550 دنوں سے پوری وادی میں کرفیو نافذ ہے۔ کشمیری گھروں میں محصور ہوچکے ہیں۔ 80لاکھ افراد 9لاکھ بھارتی فوج کے چنگل میں ہیں۔ آر ایس ایس کے غنڈوں نے اپنے مظالم سے پوری وادی کو جہنم بنادیا ہے۔ 15ہزار سے زائد نوجوان اغوا اور جیلوںمیں منتقل ہوچکے ہیں۔ انسانی تاریخ میں اتنا طویل لاک ڈائون آج تک نہیں دیکھا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ عالمی برادری بشمول مسلم ممالک عملاً کچھ نہیں کررہے۔ قابض بھارتی فوج وادی میں چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کررہی ہے۔ محمد جاوید قصوری نے مطالبہ کیا کہ پاکستان دوٹوک اعلان کرے کہ دفعہ370اور 35-Aکے بھارت کی طرف سے خاتمے کے بعد پاکستان کو بھی اپنی افواج مقبوضہ کشمیر میں داخل کرنے کا حق حاصل ہے۔ حکومت اخلاقی، سیاسی اور سفارتی ہی نہیں، کشمیریوں کی عملی مدد کا بھی اعلان کرے۔ اس حوالے سے بھارت کو سخت اور دوٹوک پیغام دیا جائے۔ بھارت کے ساتھ تجارت، فضائی حدود کے استعمال اور بھارتی سفارت خانے کے حوالے سے حکومت کے اقدامات ناکافی اور انتہائی غیر سنجیدگی پر مبنی ہیں۔ بھارت ظالمانہ اور سفاکانہ اقدامات بھی کررہا ہے اور دنیا بھر میں جارحانہ سفارت کاری بھی کررہا ہے، جبکہ ہمارے وزیراعظم عمران خان قوم کو بزدلی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔