برطانوی ماہرین نے کووڈ 19 کی بدلتی ہوئی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت کورونا وائرس کی 4000 تبدیل شدہ اقسام دنیا بھر میں زیرِ گردش ہیں۔
اسی لیے پہلی مرتبہ انہی برطانوی ماہرین نے ایسٹرا زنیکا اور فائزر کی ویکسین کو باہم ملاکر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ برطانوی ماہرین کے مطابق اب تک بدلتے ہوئے وائرس کی ہزاروں اقسام رپورٹ ہوچکی ہیں جن میں بہت تیزی سے پھیلنے والے جنوبی افریقی، جنوبی لندن سے پھوٹنے والے برطانوی، اور برازیلی وائرس بھی شامل ہیں۔ برطانوی مشیر برائے ویکسین ندیم زہاوی بھی خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ اس بدلتے تناظر میں ہمارے پاس موجود ویکسین ناکارہ ہوسکتی ہیں۔ زہاوی نے کہا کہ فائزر، بایو این ٹیک، ماڈرنا، آکسفورڈ ایسٹرازنیکا اور دیگر ادارے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کس طرح ان کی ویکسین بدلتے وائرس کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔ ان میں برطانوی تبدیل شدہ وائرس براہِ راست انسانی اے سی ای ٹو ریسپٹر پر چپک جاتا ہے، اور یوں وہ بہت تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ بن رہا ہے۔ زہاوی نے بتایا کہ برطانیہ میں انسانی جینوم (ڈی این اے کے مجموعوں) کا سب سے بڑا ذخیرہ اور ڈیٹا بیس ہے اور اب وہ بہت احتیاط سے بدلتے ہوئے کورونا وائرس کو بھی اس میں شامل کررہے ہیں۔
گوگل اب آپ کی دھڑکنوں کا اتار چڑھاؤ اورسانسوں کی تعداد بھی بتائے گا
گوگل کی جاری کردہ ایک بلاگ پوسٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے پکسل اسمارٹ فونز میں دل کی دھڑکن اور سانس کی آمد و رفت کی شرح بتانے کا فیچر متعارف کروانے جارہا ہے۔ اس موبائل فون سے دل دھڑکنے اور سانس کی شرح بتانے کے لیے اسمارٹ واچ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ بلاگ پوسٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گوگل کی یہ سروس اینڈرائڈ رکھنے والے دیگر اسمارٹ فونز پر بھی متعارف کروا دی جائے گی۔ سانس کی آمد و رفت اور دل کی دھڑکن کی شرح بتانے کے لیے موبائل فون کا فرنٹ کیمرہ استعمال کرنا ہوگا۔ اس سروس کے استعمال کے بعد گوگل یہ بھی بتا سکے گا کہ کسی شخص نے ایک منٹ میں کتنی مرتبہ سانس لی ہے۔ گوگل نے اس کے ساتھ ہی وضاحت کی ہے کہ ان کے یہ دونوں فیچر تندرست رہنے میں مدد فراہم کرنے اور صحت کی عمومی دیکھ بھال کے لیے فراہم کیے جائیں گے، تاہم اسے طبی مسائل میں کسی تشخیص کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ گوگل کے اعلان کے مطابق یہ سروس بتدریج تمام اینڈرائڈ استعمال کرنے والے فونز پر فراہم کردی جائے گی تاہم فی الحال گوگل کے پکسل اسمارٹ فون پر ہی یہ سروس دستیاب ہوگی۔ بلاگ پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ سروس آئندہ ماہ سے گوگل فٹ ایپ میں شامل کردی جائے گی۔ بلاگ پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ گوگل کی ٹیم میں شامل محققین، انجینئرز اور ماہرین مسلسل ایسے کم خرچ سینسرز اور روزمرہ استعمال کے آلات تیار کرنے کی جستجو میں ہیں جن کے ذریعے عوام کو اپنی صحت کا خیال رکھنے سے متعلق زیاہ سے زیادہ معلومات فراہم کرنا ممکن ہو۔
امریکیوں کی فیس بک میں عدم دلچسپی کا گراف بڑھنے لگا
فیس بک نے سال 2020ء کے لیے اپنے صارفین کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ ان کی رو سے گزشتہ برس مزید 20 کروڑ 99 لاکھ افراد نے فیس بک کا استعمال شروع کیا، لیکن اسی برس امریکیوں کی اس میں دلچسپی کم ہوئی۔ یعنی یہ تعداد یکساں رہی، یا اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس طرح سال 2019ء میں فیس بک پر روزانہ سرگرم افراد کی تعداد میں 50 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا تھا لیکن روزانہ کی بنیاد پر امریکیوں نے فیس بک کو چھوڑنے کو ترجیح دی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سال کورونا وبا کی وجہ سے امریکہ میں لوگوں کی اکثریت گھروں میں مقید تھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، اس کے باوجود امریکیوں کی جانب سے فیس بک دیکھنے میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا، تاہم ٹک ٹاک اور دیگر ایپس میں امریکیوں کی دلچسپی زیادہ دیکھی گئی ہے۔