اعداد و شمار کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ
پاکستان کے تمام اضلاع میں غیر معمولی آبادی کے حامل بلاکس کی وجہ سے خانہ شماری اور مردم شماری کے عمل کی شفافیت پر بہت سے سوال اٹھتے ہیں ۔
مثلاََ پنجاب کے شہر شیخوپورہ بلاک نمبر 198020804 میں صرف ایک گھرانا ہے اور اُس میں 36 افراد ہیں۔
جب کہ اِسی شہر کے بلاک 199020904 میں صرف ایک گھرانا ہے اور آبادی صرف ایک فرد ہے۔
جہلم میں فی گھرانہ اوسط آبادی تقریباََ 6 افراد ہے اور اوسط ووٹر فی گھرانہ 5 ہیں، جہلم کی کل آبادی کا 77.33 فی صد رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ اسی شہر ساہیوال میں بلاک 208051002 میں ایک گھرانا اور آبادی صرف ایک فرد ہے۔
خانہ شماری کی بنیاد پر بلاکس کا تعین کیا جاتا ہے، ایک بلاک کے لیے 200 سے 250 گھرانوں کی تعداد متعین کی گئی ہے۔
ضلع جعفرآباد میں بلاک 471120203 میں 893 گھرانے، بلاک 471120204 میں 1026 گھرانے، قلعہ عبد اللہ میں بلاک 454050404 میں 1068 گھرانے۔
قلعہ عبد اللہ میں بلاک 454010128 میں 720 گھرانے اور 17560 آبادی یعنی اوسط فی گھرانہ 24 افراد۔
ضلع پشاور کے بلاک 037050505 میں 7 گھرانے اور 115 افراد ، جو کہ اوسطا 16 افراد فی گھرانا بنتی ہے۔
چوں کہ خانہ شماری اور مردم شماری ، کئی بلاکس میں گھرانوں کی تعداد اور آبادی میں تفاوت، ووٹرز اور آبادی میں تفاوت پایا جاتا ہے، صدر اور آرام باغ ٹاؤن کی آبادی 1998 سے کم ہو گئی ہے۔ کئی بلاکس میں صرف ایک گھرانا اور ایک فرد آبادی ہے۔
کئی اضلاع میں بلاکس میں گھرانوں کی تعداد 800 سے 1000 تک ہے، یہ وہ بہت سے اعدادوشمار ہیں جومردم شامری کے ڈیٹا کی صحت پر سوال اٹھا تے ہیں، اور حکومت کو سنجیدگی سے ان سوالوں کو جواب دینا چاہیئے۔
ڈیٹا کی شماریاتی صحت ناقص ہونے کی صورت میں از سرِ نو خانہ شماری اور مردم شماری کے بغیر مستقبل کی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی میں بہت سے پیچیدہ مسائل کا سامنا رہے گا۔
اب بالآخر تین سال گزرنے کے بعد مرکزی کیبنٹ نے 2017 کی مردم شماری کی منظوری دے دی۔ جب فروری 2018 میں مردم شماری کے عبوری نتائج شائع ہوئے ، تو ان نتائج کے تجزیے سے مردم شماری میں کئی خامیاں سامنے آئیں، جس سے مردم شماری کے نتائج متنازعہ ہوگئے۔
کئی سیاسی رہنماؤں نے 2017 کی مردم شماری پر تنقید اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ عوامی نیشنل پارٹی کی رہنماء بشری گوہر نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان سے 20 لاکھ تو صرف آئی ڈی پیز ہیں تو پورے فاٹا کی آبادی 50 لکھ کیسے ہو سکتی ہے۔ بوگس اعداد و شمار !(بحوالہ ٹویٹ 25 اگست ،2017)۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نواب یوسف تالپور کہتے ہیں کہ مردم شماری کے نتائج پہلے سے تیار کیے گئے تھے اور اس میں سندھ کی آبادی میں ایک کروڑ افراد کم دکھائے گئے ہیں جب کہ پنجاب کی آبادی میں ایک کروڑ افراد زیادہ دکھائے گئے ہیں ۔ بحوالہ : روزنامہ ڈان 27 اگست 2017
۔18 ستمبر 2019 کو سینیٹر تاج حیدر نے سینیٹ میں میں ایک سروے کے حوالے سے بتایا کہ اس سروے کے مطابق کراچی کی آبادی 2 کروڑ 47 لاکھ ہے جب کہ مردم شماری میں 1 کروڑ 49 لاکھ دکھائی گئی ہے انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان سےلوگ کراچی میں روزگار کی تلاش میں آتے ہیں ۔
بحوالہ: 18 ستمبر 2019 سینیٹ اِجلاس
جماعتِ اسلامی کراچی کے رہنماء حافظ نعیم الرحمان کہتے ہیں کے کراچی میں ملک بھر سے لوگ روزگار کے سلسلے میں آتے ہیں ، اُن کے شناختی کارڈ پر جس جگہ کا مستقل پتہ درج ہے انہیں وہیں گنا گیا ہے جو کہ ایک غیر منطقی بات ہے۔ پاکستان شماریاتی بیورو کو اس بات پر وضاحت دینی چاہیے کہ نادرا کا مردم شماری میں کیا کردار ہے؟۔
اسی طرح ایم کیو ایم پاکستان کے بھی کراچی کی مردم شماری کے حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں اور وہ اس مردم شماری کو رد کرتی ہے۔
ان تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات کو دیکھتے ہوئے ، مشترکہ مفادات کی کاؤنسل نے نومبر 2017 کے اجلاس میں مردم شماری کے 5 فیصد یعنی 8000 بلاکس کے غیر آزاد، شفاف اور جانبدارانہ آڈٹ کی متفقہ منطوری دی تھی ۔
سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے نجکاری اور شماریات کی اگست تا نومبر 2017 کی رپورٹ میں اِس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی گئ۔ سینیٹ کی کمیٹی نے 1 سے 2 فیصد بلاکس کی جانچ پڑتال اور آڈٹ کی سفارش کی۔
2019 میں سندھ اسمبلی نے بھی مردم شماری کے 5 فیصد بلاکس کے آڈٹ کی متفقہ قراردا پاس کی ۔
“This assembly resolves and recommends to the Government of Sindh to approach the Federal Government to conduct third-party audit of census on experimental basis in 5% area of the country to judge the fairness of results.”
اوپر بیان کیے گئے شکوک و شبہات آج بھی موجود ہیں لیکن کیبنٹ نے انہیں اعداد و شمار کی منظوری دے کر مردم شماری کے نتائج کو مشترکہ مفادات کی کاؤنسل میں منظوری کے لئے بھیج دیا ہے اور آئیندہ ہر تین سال بعد مردم شماری کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ ایم کیو ایم جو کہ حکومت کی اتحادی بھی ہے نے اس مردم شماری کو رد کرتے ہوئے ، اس حوالے سے اپنا اختلاف ریکارڈ کیا ہے
اس رپورٹ میں مردم شماری کے ڈیٹا کا ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جائے گا ۔ اِس سلسلے میں سندھ کی مردم شماری کے بلاکس کا تفصیلی جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
زیرِ نظر جدول نمبر 2 میں ملاحظہ کیجئے سندھ میں 86 ایسے بلاک ہیں جن میں گھرانوں کی تعداد بھی صفر ہے اور آبادی بھی صفر۔ اِن بلاکس کو مردم شماری میں رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ کہیں یہ ایسے بلاک تو نہیں جہاں سندھ کے باہر سے آئے ہوئے افراد یا گھرانے رہتے ہیں اور مستقل پتے کی بنیاد پر یہ سب سندھ کی آبادی میں شمار نہیں کیے گئے۔
440220606 بلاک میں صرف تین گھرانے ہیں اور اوسطا ہر گھرانے میں 17 افراد، اسی طرح 440130501کراچی کے ضلع شرقی میں
بلاک میں 3 گھرانے ہیں اور اوسطا ہر گھرانے میں 108 افراد، اسی طرح
میں 15 گھرانے اور فی گھرانہ 48 افراد ۔ ایک گھرانے کی اآبادی اتنی زیادہ کیسے ممکن ہے!413030201
میں 9 گھرانے ہیں اور اوسطا ہر گھرانے میں 25 افراد ہیں۔419070403کراچی وسطی کے بلاک
جدول 1: کراچی ضلع شرقی کے غیر معمولی بلاکس
تجزیہ بحوالہ عاصم بشیر
اسی طرح جدول نمبر2 میں کراچی سمیت سندھ کے تمام اضلاع کے بلاکس کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ کئی بلاکس میں گھرانوں اور آبادی کی تعداد ایک ہے یا غیر معمولی حد تک کم ہے ۔
کراچی کی درست مردم شماری ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے اور ماضی میں بھی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم دکھایا گیا ہے۔بہت سے آزاد اور خود مختار زرائع حکومتی مردم شماری اور اعدادو شمارکی نفی کرتے ہیں ۔
مثلا 1981 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 54 لاکھ 37 ہزار984 تھی، جس کی صحت اور اعداد و شمار پر کئی سوالیہ نشان تھے۔ اقوامِ متحدہ نے 1988 میں کراچی کی آبادی ، شرح نمو کے حوالے سے ایک جامع تحقیقاتی رپورٹ شائع کی، جس میں بتایا گیا کہ 1981 کی مردم شماری کے نتائج کراچی کے حوالے سے درست نہیں، اقوامِ متحدہ کے شماریاتی جائزے اور تخمینے کے بعد کراچی کی آبادی 75 لاکھ بتائی گئی۔
بعینیہ1998 کی مردم شماری اور بین الاقوامی ادراوں کے تخمینہ جات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کراچی ڈیلپمنٹ اتھارٹی کے 1977 کے ماسٹر پلان کے مطابق آبادی اور شہری امور کے ماہرین کے سنہ 2000 میں کراچی کی آبادی کا تخمینہ ایک کروڑ 33 لاکھ 40 ہزار سے ایک کروڑ93 لاکھ 20 ہزار کے درمیان لگایا تھا لیکن مردم شماری میں یہ آبادی 98 لاکھ کے قریب دکھائی گئی۔
یہی حال 2017 کی مردم شماری کے ساتھ ہوا ہے۔
پاکستان کے تمام صوبوں بشمول سندھ میں شہری آبادی میں اضافے کی شرح دیہی آبادی میں اضافے کی شرح سے زیادہ نوٹ کی گئی جب کہ کراچی میں دیہی آبادی کی شرح نمو شہری آبادی سے زیادہ رہی، جو کہ پاکستان اور سندھ کے ڈیٹا اور شہری رجحانات کے خلاف ہے۔
نیو یارک میں واقع ایک امریکی ادارے Institute of Transportation and Development Policy کے مطابق 2015 میں کراچی کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ تھی ،جب کہ 2017 کی مردم شماری میں یہ آبادی فقط ایک کروڑ 60 لاکھ دکھائی گئی ہے۔
نامور بین الاقوامی شہرت یافتہ آرکیٹیکٹ عارف حسن نے اپنی 2016 میں انٹرنیشنل گروتھ سینٹر لندن سے شائع ہوئی رپورٹ میں کراچی کی آبادی کا تخمینہ 2 کروڑ سے زائد پیش کیا ہے۔
2017 کی مردم شامری میں کراچی کے ٹاؤن آرام باغ اور صدر کی آبادی 1998 کی آبادی سے بھی کم دکھائی گئی ہے، 19 سال بعد مردم شماری میں اس کے امکانات بھی بہت کم رہ جاتے ہیں ۔ ڈاکٹرمہتا بکر یمایکسم جی سائنسدان ہیں اورآبادی کے اُمورکےماہر ہیں۔بزنس یکارڈرکواِنٹرویودیتےہوئےانکاکہناتھاکہ 2017 میںکراچی کی آبادی تقریبا 2 کروڑتھی۔ اُنکاکہناہےکہ سندھ کی آبادی ملک کی آبادی کا 26 فیصدہوناچاہیے،سندھ کے تقریباََ 80 لاکھ لوگوںکوسندھ سےباہرشمارکیاگیاہے۔
جدول نمبر 2 کے مطابق سجاول میں 38، ٹھٹہ میں 17، دادو میں 9 ، سکھر میں 8بلاکس میں گھرانوں اور آبادی کی کی تعداد صفر ہے۔ یہ اعداد و شمار غیر معمولی ہیں اور مذید تفصیلات اور وضاحت کے متقاضی ہیں۔
مردم شماری کے نتائج ، قومی مالیاتی کمیشن کی تقسیم کے کلیے پر اثرانداز ہوں گے ، موجودہ نتائج یقیننا سندھ کی کل آبادی کی نمائیندگی نہیں کرتے، لہذا ان نتائج پر جو فیصلہ بھی ہوگا وہ منصفانہ نہیں ہو سکتا ۔
کابینہ نے مشترکہ مفادات کی کاؤنسل اور سینیٹ کی کمیٹی کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے مردم شماری کی نتائج منظور کر کے حتمی متفقہ منظوری کے لیے مشترکہ مفادات کی کاؤنسل کو بھیج دیا ہے، حالانک ہمردم شماری کے اعداد و شمار میں موجود سقم درست اعداد و شمار پیش نہیں کرتے۔ 2017 کیمردمشاریپرقومیخزانےسے 17 ارب 26 کروڑروپےکاخرچہہوا،یہعوامکےٹیکسکاپیسہہےاوراگرمردمشماریدرستناہو،تویہعوامکےپیسےکاسراسرضیاعہے
مردم شماری درست نا ہونے کا مطلب مستقبل کی پلاننگ ، اور وسائل آبادی کے اعتبار سے درست نہیں ہوں گے۔
جدول 2: سندھ کی مردم شماری کے غیر معمولی اعداد و شمار
حوالہ: پاکستان شماریاتی بیورو کے طبع شدہ مردم شماری کے نتائج سے مصنف کی تجزیہ