یوم ِ یکجہتی کشمیر

پاکستان کا قیام وطنی اور جغرافیائی قومیت کے دور میں عقیدے اور ایمان کی بنیاد پر ملّت اور امت کے تصورکی بنیاد پر ہوا تھا۔ مفکرِ پاکستان علامہ اقبالؒ نے پوری قوت و طاقت سے وطنی قومیت کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

انہوں نے اعلان کیا کہ ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی‘‘۔ ملّت اور امت کا تصور تحریکِ خلافت کا ارتقائی سفر تھا۔ اس سے قبل پورے عالم اسلام میں ’’پین اسلامزم‘‘ یعنی عالمِ اسلام کے سیاسی اتحاد کی تحریک بھی جاری تھی۔ یہ تحریک ایسے وقت میں چل رہی تھی جب پورا عالم اسلام برطانوی اور یورپی اقوام کی سامراجی غلامی کی گرفت میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کے باوجود انگریز ’’پین اسلامزم‘‘ کی تحریک سے خوف زدہ تھا۔ اسی خوف کا جدید نام ’’سیاسی اسلام‘‘ یا ’’اسلامو فوبیا‘‘ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایسا ملک میسر نہ آسکے جس میں ان کو آزاد سیاسی اقتدار حاصل ہو۔ یہ سیاسی اقتدار ہر قسم کے ظلم و استحصال سے پاک منصفانہ نظام کے لیے درکار تھا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبالؒ نے یہ تصور پیش کیا کہ افغانستان اور ایران سے متصل علاقوں میں برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مرکز کا قیام جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مسائل کا اصل حل ہے۔ اس تصور کو قائداعظمؒ کی شکل میں قیادت مل گئی اور پشاور سے لے کر راس کماری تک کے مسلمانوں کے اتحاد کے ذریعے ایک معجزہ رونما ہوگیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور دیگر خطوں سے زیادہ اس کا حق تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ بنے، لیکن انگریزی سیاست کی عیاریوں نے کشمیر کا مسئلہ پیدا کردیا۔ بھارت ناجائز طور پر دعویٰ کرتا رہا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، لیکن کشمیر کے مسلمانوں نے اس قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ کئی عشرے گزر گئے ہیں، بظاہر کشمیریوں کے لیے حالات ہمیشہ مایوس کن رہے ہیں، لیکن کشمیر کے مسلمانوں نے کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ یہ تو ہوا کہ شیخ عبداللہ جیسی قیادت نے بھی مایوس ہوکر بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، لیکن کشمیر کے مسلمان بھارت کی غلامی پر آج تک راضی نہیں ہوئے۔ کشمیر کے مسلمانوں کی یہ جدوجہد اس کے باوجود جاری رہی کہ حکومتِ پاکستان نے کبھی بھی اپنے اصل فرائض ادا نہیں کیے، لیکن کشمیری مسلمان ہمیشہ پاکستان کی طرف دیکھتے رہے۔ 1990ء کا عشرہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے ایک اہم موڑ تھا۔ اسی عرصے میں کشمیر کی تحریک آزادی نئی طاقت اور توانائی سے شروع ہوئی۔ اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے قوم کو مطلع کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر و استبداد اور مظالم کے خلاف نئی تحریک شروع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد سرحد پار کرکے مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر پہنچ رہے ہیں۔ قوم ان کی مدد کرے۔ قاضی حسین احمد نے تحریکِ آزادیِ کشمیر سے یک جہتی کے لیے ان کی مدد کے ساتھ عام ہڑتال کی اپیل بھی کی۔ انہوں نے اس اپیل سے مقبوضہ کشمیر میں حوصلہ افزا پیغام پہنچایا۔ پاکستان کی سیاسی حکومت اور حزبِ اختلاف نے بھی مشترکہ طور پر اس اپیل کو قبول کیا اور اُس دن کے بعد سے آج تک 5 فروری یکجہتیِ کشمیر کی علامت کا دن بن گیا ہے۔ پاکستان میں اُس وقت وزیراعظم بے نظیر بھٹو مرحومہ تھیں۔ تحریک ِ آزادیِ کشمیر نے تقسیم شدہ اہلِ پاکستان کو بھی اتحاد کی بنیاد عطا کردی۔ اُس وقت سے آج تک اس جدوجہد پر کئی مراحل گزرے ہیں۔ امریکہ نے تحریکِ آزادیِ کشمیر کو بھی ’’دہشت گردی‘‘ قرار دینے کی کوشش کی مگر وہ اس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا۔ امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کو علاقائی بنیادوں پر ملکوں اور قوموں کی آزادی پر تو کوئی اعتراض نہیں، لیکن ایمان اور عقیدے یعنی اسلام کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد قبول نہیں۔ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مقبوضہ کشمیر کے عوام سے رائے لے کر کشمیر کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا جانا ہے۔ اس قرارداد کے برعکس امریکی حکمران کبھی کھل کر اور کبھی درپردہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی دھمکی دیتے رہے ہیں، جس کا سب سے اہم سبب تحریک آزادیِ کشمیر ہے۔
تحریکِ آزادیِ شمیر کے دوبارہ شروع ہونے کا ایک سبب افغانستان کے پہاڑوں میں سوویت یونین کی شکست بھی ہے جس نے کمزور اور پسے ہوئے مسلمانوں کو نیا حوصلہ دیا۔ کشمیر کے مسلمانوں کے سامنے اس دوران میں کئی بار مایوس کن حالات آئے ہیں، لیکن ہر بار ایک نئی تحریک زندہ ہوجاتی ہے۔ اس عرصے میں پاکستان کی حکومتوں نے کئی بار کشمیر کے مسئلے پر سودے بازی کی کوشش کی، لیکن مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد نے حکومتوں کو یہ راستہ اختیار کرنے نہیں دیا۔ تحریکِ آزادیِ کشمیر کانیا مرحلہ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد شروع ہوا ۔ 5اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف تحریک میں شدت آگئی ہے۔ ڈیڑھ برس سے جاری لاک ڈائون کے باوجودکشمیر کے مسلمان سیاسی اور عسکری دونوں تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے دنیا پر یہ حقیقت کھول دی ہے کہ بھارت جسے سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ ہے، وہ کشمیر کے مسلمانوں کو انسانی و جمہوری حق دینے کو تیار نہیں۔ بھارت کو اس بارے میں امریکہ اور عالمی قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے جو اسلام کی بنیاد پر ایک امت کے تصور کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن مسلمان اپنی بے عملی اور خطائوں کے باوجود امت اور ملّت کے تصور کو ترک کرنے پر تیار نہیں، یہی تصور بالآخر وحدتِ آدم کی بنیاد بنے گا۔