آج یومِ کشمیر ہے۔ کشمیریوں کی پاکستانی قوم سے یکجہتی کا رشتہ دین اسلام کے ساتھ ساتھ اردو سے بھی منسلک ہے۔ ہم دِلی میں ہم زبانی کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ آزاد جموں وکشمیر کی سرکاری زبان اردو ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی سرکاری زبان بھی 1889ء سے اب تک اردو ہی تھی۔ مگر 131 سال بعد 13ستمبر 2020ء کو مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اردو کی سرکاری حیثیت ختم کردی۔ سرکاری زبان ہندی کے ساتھ کچھ مقامی کشمیری زبانوں کی سرکاری حیثیت برقرار ہے، لیکن کشمیری زبانوں کو اپنا رسم الخط نستعلیق سے تبدیل کرکے دیوناگری اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ رسم الخط کی تبدیلی سے عقیدہ، تہذیب، تمدن، ثقافت سب کچھ بدل سکتا ہے۔ ہم زبانوں سے کاٹ کر رکھا جا سکتا ہے۔ اردو، فارسی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، کشمیری، شینا، بلتی اورکوہستانی سمیت ہمارے خطے کی بہت سی زبانیں نستعلیق رسم الخط میں تحریر کی جاتی ہیں۔ چین کے صوبے سنکیانگ کے مسلمان جو ترکی الاصل’’اویغور‘‘ زبان بولتے ہیں وہ بھی نستعلیق ہی میں لکھی جاتی ہے۔
نستعلیق کے لغوی معنی شائستہ، ادب آداب سے واقف، مہذب، خوش وضع، خوش قطع اور خوش کلام شخص کے ہیں۔ میرؔ کا شعر ہے:۔
سخن کرنے میں نستعلیق گوئی ہی نہیں کرتا
پڑھیں ہیں شعر کوئی ہم سو وہ بھی شدّ و مد سے ہے
خطِ نستعلیق ایرانی خط ہے۔ یہ خطِ نسخ اور خطِ تعلیق کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ اس خط کا نام ’’نسخ تعلیق‘‘ تھا، مگر حرف ’’خ‘‘ کثرتِ استعمال سے گر گیا۔ خطِ نسخ عربی خط ہے۔ نسخ کا مطلب ہے منسوخ کرنا۔ نسخ خواجہ عماد الدین نے ایجاد کیا تھا، اور اس خط کی خوبی کی وجہ سے اس سے پہلے کے رسم الخط منسوخ کردیے گئے تھے۔ خطِ تعلیق ایک ایرانی خط تھا، جو تیرہویں صدی میں ایران میں رائج ہوا، مگر اسے بھی خطِ نستعلیق کی ایجاد کے بعد ترک کردیا گیا، کیوں کہ نستعلیق نہایت خوش نما اور خوب صورت خط ہے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کا یہ شعر دیکھیے، جس میں اُنھوں نے کمال مہارت سے ’’ اِس ل‘‘ کا مفہوم اور ’’اِسلام‘‘ کا مفہوم یکجا کردیا ہے۔ کہتے ہیں:۔
لام نستعلیق کا ہے اُس بُتِ خوش خط کی زُلف
ہم تو کافر ہوں، اگر بندے نہ ہوں اِسلام کے
تُرکانِ عثمانی کا رسم الخط بھی یہی تھا۔ مگر 1928ء میں مصطفی کمال پاشا نے اسے تبدیل کرکے ترکی زبان رومن رسم الخط میںلکھنے کا حکم دیا اور ذاتی دلچسپی لی۔ تصور فرمائیے کہ اگر کسی روز یہ حکم پاکستان میں جاری ہوجائے کہ آج کے بعد کوئی شخص سوائے رومن حروف کے، کسی رسم الخط میں اردو نہیں لکھ سکتا تو وطن عزیز کی کتنی بڑی تعداد اَن پڑھ ہوجائے گی اور ایک نسل کے بعد کتنا بڑا ذخیرۂ کتب ناکارہ ہوجائے گا۔ یہی تُرکوں کے ساتھ ہوا۔ ایسا ہی برصغیر میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم قرار دیتے وقت بھی ہوا تھا۔ اُس وقت بھی اکبرؔ نے پیش گوئی کی تھی:۔
یہ موجودہ طریقے راہی ملکِ عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہو گی اور نئے ساماں بہم ہوں گے
نہ پیدا ہو گی خطِّ نسخ سے شانِ ادب آگیں
نہ نستعلیق حرف اِس طور سے زیبِ رقم ہوں گے
ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہو گی
لُغاتِ مغربی بازار کی بھاشا سے ضم ہوں گے
مگر برصغیر کے مسلمانوں نے غیر سرکاری طور پر اپنی زبان کی حفاظت کی۔ جب کہ ترکی میں الفاظ کا تلفظ تبدیل ہوگیا۔ تمام ذخیرۂ علوم ردّی کا ڈھیر بن گیا اور ان کتابوں کو پڑھنے کے قابل نہ رہنے کی وجہ سے تُرکوں کی نئی نسل کا اپنے ماضی سے تعلق منقطع ہوگیا۔ نئی نسل عربی میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے کی سعادت سے بھی محروم ہوگئی۔ وہ تو بدیع الزماں سعید نُورسیؒ کی تحریک نے قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے نتیجے میں ترکی میں موجودہ انقلاب کے لیے افرادِ کار میسر آئے۔ (’’نورسی‘‘ وہی لقب ہے جو اردو میں’’نوری‘‘ یا ’’نورانی‘‘ ہے۔) اب صدر رجب طیب اردوان نے ترکی کے تعلیمی اداروں میں ترکانِ عثمانی کا رسم الخط پڑھانے کا حکم جاری کردیا ہے۔ یہ حکم جاری کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’دنیا میں ایسی کوئی قوم مجھے بتادیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟ کیا دنیا میں ایسی کوئی قوم ہے جو اپنے باپ دادا کی قبروں کے کتبوں کو پڑھنے کی صلاحیت ہی سے عاری ہو؟کیا دنیا میں ایسی کوئی قوم ہے جو اپنے قابلِ فخر شعرا، ادیبوں، مصنفین، مفکرین اور عالموں کے تحریر کردہ شاہکاروں کو پڑھنے سے قاصر ہو؟ زبان انسانوں کے درمیان رابطے کا کام سر انجام دیتی ہے۔ اگر آپ کسی معاشرے سے اپنی زبان تحریر کرنے کا حق چھین لیں تو وہ معاشرہ اپنی زبان ہی سے نہیں… مذہب، فن اور ادب سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ ہماری تہذیب الفاظ، تحریر، کاغذوں اور کتابوں سے پھلی پھولی ہے۔ استنبول ہمیشہ ہی مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ اس کے تمام گوشے تحریر اور خطاطی سے اَٹے پڑے ہیں، لیکن بدقسمتی سے خطاطی کے ان نمونوں کو قوم سمجھنے ہی سے قاصر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نئی نسل کو عثمانی ترکی زبان سیکھنے کا موقع فراہم کریں۔ ہمیں تو عثمانی ترکی زبان سیکھنے کا کوئی موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا، لیکن اب ہماری نئی نسل کو اس حق سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے‘‘۔
امید ہوچلی ہے کہ آئندہ چل کر ترکی میں بھی یہ خط بحال ہوجائے گا اور اُردو جاننے والوں کے لیے ترکی سیکھنا سہل ہوجائے گا۔ پھر ہمارا شاعر فارسی میں فریاد کرنا چھوڑ کر (کہ ’’زبانِ یارِ من تُرکی و من تُرکی نمی دانم‘‘) یارانِ تُرکی سے فرفرفرفر تُرکی بول رہا ہوگا۔
ہمارے ذرائع ابلاغ سے جو لوگ رومن حروف میں اردو لکھنے کی عادت کو رواج دے رہے ہیں، نہیں معلوم کہ انھیں اندازہ ہے یا نہیں کہ وہ ہماری قوم کے عقائد، تہذیب، تمدن اور ثقافت کوکتنا دُوررَس نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ ترکی کا تجربہ ہمیں سبق سکھانے کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا قوم کے ہر فرد کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کے مفاد میں اس رواج کی حوصلہ شکنی کرے۔ اور اپنے دائرۂ اختیار کی حد تک اس مہلک وبا کا خاتمہ یقینی بنانے کی کوشش کرے۔
انتظارحسین اپنی کتاب ’’علامتوں کا زوال‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’اب لاہور کی کوٹھیوں میں انگریزی پھول عام کھلے دکھائی دیتے ہیں مگر بیلا، چنبیلی نظر نہیں آتے۔ یہ ہے ہمارے جملہ مسائل کی جڑ۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ہمیں اپنے پھول عزیز نہیں رہے ۔ رسم الخط کا مسئلہ پھولوں کے مسئلے کا حصہ ہے۔ جب باغیچوں سے ان کے اپنے پھول رخصت ہوجائیں اور پرائے پھول کھلنے لگیں تو یہ وقت اس زمین کی پوری تہذیب پر بھاری ہوتا ہے۔ رسم الخط اپنی جگہ کوئی چیز نہیں ہے، وہ تہذیب کا حصہ ہوتا ہے‘‘۔ (مضمون ’’رسم الخط اور پھول‘‘سے اقتباس)۔
رومن حروف میں ہماری بہت سی آوازوں کے لیے کوئی حرف نہیں ہے۔ مثلاً چ، خ، ش اورغ کی آوازوں کے لیے الگ سے کوئی حرف نہیں۔ دو حروف کو ملا کر ایک حرف بنالیا جاتا ہے۔ ق کی آواز کے لیے Q منتخب کیا گیا ہے، مگر رومن میں اس کی اصل آواز ’ک‘ کی ہے۔ ہمارے رسم الخط میں حروف کے ٹکڑے جوڑ کر لفظ بنالیا جاتا ہے، اس سے یہ سہولت ہوتی ہے کہ کم جگہ میں زیادہ الفاظ تحریر کیے جاسکتے ہیں اور بڑے بڑے فقرے مختصر نویسی کی طرح تیزی سے لکھے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں صرف اِعراب استعمال کرکے حروف کی آوازوں کی حرکت تبدیل کرلی جاتی ہے، جب کہ رومن میں اس غرض سے پورا حرف لکھنا پڑتا ہے A,E,I,O,U وغیرہ۔ رومن حروف میں اردو کی طویل تحریریں پڑھنے میں بڑی دِقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر رومن میں ’ت‘ اور’ٹ‘ یا’ د‘ اور’ڈ‘ کے لیے ایک ہی حرف استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آوازوں کا فرق صرف اندازے سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ اندازہ غلط ہوجائے تو اس سے فتنے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
پچھلے دنوں سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک قصہ عرصے تک گردش کرتا رہا۔ یہ قصہ حقیقی ہو یا فرضی… مگر اس میں مخفی سبق صرف نوعروسوں کے لیے نہیں، رومن حروف استعمال کرنے والے ہر فرد کے لیے درسِ عبرت ہے۔ ایک صاحب جو اپنے دفتری اُمور کی انجام دہی کے لیے اپنے شہر سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے، موبائل فون پر اپنی نئی نویلی دلھن سے رومن حروف میں خوش گپیاں کرنے میں مصروف تھے۔ اپنی کوئی فرمائش پوری نہ کرنے پر اُنھوں نے لاڈ میں آکر ننھے مُنّے بچوں کی طرح رومن حروف میں بیوی سے کہا: ’کُٹّی‘۔ یہ لفظ پڑھتے ہی بیوی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اُس نے تحریری گفتگو ترک کی اور آگ بگولا ہوکر اپنے نئے نویلے میاں کو فون کیا۔ آپے سے باہر ہوکرکہنے لگی:۔
۔’’تمھیں یہ غلیظ لفظ میرے لیے استعمال کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ آج پتا چل گیا کہ اب تک تم مجھے کیا سمجھتے رہے ہو‘‘۔
غم و غصے کے جذبات کا اس قدر غلبہ تھا کہ دلھن نے میاں کا ایک لفظ بھی سننے سے انکار کردیا اوراپنے سسرال والوں کے روکنے کے باوجود فوراً میکے روانہ ہوگئی۔ دونوں خاندانوں میں اچھا خاصا تناؤ پیدا ہوگیا ۔خدا خدا کرکے خاندان کے بزرگوں نے بڑی مشکل سے ان نو بیاہتا میاں بیوی میں علیحدگی کا سانحہ رُونما ہونے سے روکا۔